وقت کی پیمائش کا موجودہ طریقہ 1967 میں طے کیا گیا جس سے اس کی پیمائش کو زمین کی اپنی گردش سے بدل کر سیزیم کے ایٹم پر لے جایا گیا۔ زمین کی اپنی گردش اتنی ایکوریٹ نہیں۔ وقت کی پیمائش اب نینو سیکنڈ تک ہو سکتی ہے لیکن اس کا فائدہ؟ کیا کسی کانفرنس میں میز کے گرد لوگوں کے علاوہ بھی کوئی اس میں دلچسپی لے سکتا ہے؟
نینو سیکنڈ کی آمد نےروزمرہ زندگی میں گہرے اثرات مرتب کئے۔ عالمی ہوائی سفر، ٹیلیفون نیٹ ورک، فائننشل مارکیٹ ایٹمی گھڑیوں پر انحصار کرتی ہیں۔ ان کو نکال دیں تو ہائی فریکونسی ٹریڈنگ دنیا سے ایک نینو سیکنڈ میں ختم ہو جائے گی۔ جب آپ اپنے فون پر جی پی ایس سے اپنی جگہ دیکھ رہے ہیں تو آپ چوبیس ایٹمی گھڑیوں سے بات کر رہے ہیں جو نچلے ارتھ آربٹ میں سیٹلائٹ پر لگی ہیں۔ یہ سیٹلائیٹ صرف ایک سادہ سگنل مسلسل بھیج رہے ہیں کہ وقت نینو سیکنڈ میں کیا ہے۔ فون ان میں سے تین گھڑیوں کے وقت سے آپ کی ٹھیک ٹھیک جگہ بتا دیتا ہے۔ اگر آئن سٹائن اس ٹیکنالوجی کو دیکھ لیتے تو محظوظ ہوتے۔ ہم اب وقت کی ٹھیک پیمائش سے سپیس کی ٹھیک پیمائش کرتے ہیں۔
موبائل فون سے جگہ معلوم کر لینے کی اپنی کہانی انسانی کاوشوں کی لمبے عرصے پر محیط کہانی ہے۔ یہ جاننا کہ الیکٹران سیزیم کے ایٹم میں کیسے حرکت کرتے ہیں۔ سیٹلائیٹ سے مائیکروویو کے ذریعے رابطہ، رفتار کی ٹھیک پیمائش اور سیٹلائیٹ کی جگہ معلوم کر لینا۔ راکٹ سائنس، جس سے ان کو خلا میں بھیجنا، سیلیکون ڈائی آکسائڈ کے بلاک میں ارتعاش پیدا کرنے کی صلاحیت، کمپیوٹر، مائیکروالیکٹرانکس اور نیٹ ورک سائنس ہونے والی ترقی۔ طرح طرح کے شعبوں میں ہونے والی ترقی سے یہ ممکن ہوا ہے۔ اس کی دوسری طاقت یہ کہ یہ سب استعمال کرنے والے کی نظر سے اوجھل ہے۔ اپنے فون پر وقت چیک کریں یا اپنی جگہ، بس معلوم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر نہ سوچا جائے تو ایک جھولتے لیمپ کو تکتے گلیلیو سے آج تک کا یہ سفر کو چھپا رہتا ہے۔
لیکن وقت کی پیمائش کا سکیل صرف چھوٹا نہیں، بڑا بھی ہے۔ میری کیوری نے پہلی بار 1890 میں دریافت کیا کہ تابکاری کیمیکل ری ایکشن نہیں، ایٹم کی خاصیت ہے۔ یہ اس قدر اہم دریافت تھی کہ وہ نوبل انعام جیتنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔ اس کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ریڈیو ایکٹو عناصر کی ڈیکے کا وقت معلوم کیا۔ کاربن 14 کی ہاف لائف پانچ ہزار تین سو اسی سال۔ یہ اس لمبے وقت کی پیمائش کی گھڑی بن گئی جس سے بیسویں صدی کے وسط پر کاربن ڈیٹنگ کی تکنیک کے ذریعے عمر نکالنا ممکن ہوا۔ دوسرا عنصر پوٹاشیم 40 جس کی آدھی عمر ایک ارب تیس کروڑ سال کی تھی۔ کاربن کی اس گھڑی نے انسان کی تاریخ کو جاننا ممکن بنایا اور پوٹاشیم کی گھڑی نے زمین کی۔ آرکیولوجی اور پھر اینتھروپولوجی کاربن سے ممکن ہوئے۔ تاریخی ارضیات پوٹاشیم سے۔
وقت کی ان پیمائشوں نے ہمارے سامنے بکھرے تاریخ کے صفحات کو ترتیب میں لگا کر ہمارے سامنے رکھ دیا۔ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ کب کیا کرتے رہے؟ اس زمین پر کیا ہوتا رہا؟ یہ وقت کے اس دوسرے سکیل کی پیمائش سے نکالے گئے۔
آج ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہم وقت کے مختصر دورانیوں میں رہتے ہیں۔اس دور میں تضاد یہ کہ جہاں ایک طرف ہمارا توجہ دینے کا دورانیہ اتنا مختصر ہو چکا ہے کہ اس لمبی پوسٹ پڑھنے کو وقت دینا بھی ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا، وہاں دوسری طرف اس کی وجہ سے ہم ہزاروں سے کروڑوں سال کے واقعات کو کڑیوں کی صورت میں معلوم کر سکتے ہیں اور پڑھ سکتے ہیں۔
ہمارا اپنا وقت خود کس میں زیادہ صرف ہو گا؟ صرف آج پر نظر جمائے یا ایک بہتر کل کی کوشش میں بھی۔ صرف موبائل فون پر وقت گزرتا دیکھ کر یا پھر آنے والی نسلوں کے اچھے آباء اور اس زمین کے اچھے امین بن کر۔ یہ صرف وقت ہی بتائے گا۔ سیزیم کی نینو سیکنڈ کی گھڑی سے لے کر پوٹاشیم کی اربوں سال کی گھڑی کی ٹک ٹک جاری ہے۔