ہاتھ میں بیگ لۓ زرق برق لباس زیب تن کئے مکمل طور پر سج دھج کراپنے سفر کا راہی ہوا دو قدم ہی چلا تھا کہ بجھے بجھے چہرہ کے ساتھ ایک شخص آیا اور کہا۔۔ جناب، اس حالت میں اس طرح بن سنور کر مکمل زیب وزینت کے ساتھ سفر پر چلنا ٹھیک نہیں ہے ابھی یہ موقع ٹھیک نہیں ہے میں۔ یہ کہتے ہوئے آگے نکل گیا کہ ۔۔ بھلا اپنے مقصد سے بھی کوئی پیچھے رہتا ہے۔
چار قدم اور کیا بڑھا کہ ایک اور شخص آگے آگیا اور بدلے ہوئے انداز میں کہا۔۔ اس کو دنیا کی کچھ فکر ہی نہیں بس اپنے دھن میں لگا ہوا ہے ۔۔
سن کر بغیر اس کی طرف متوجہ ہوئے میں گزر گیا،
کچھ دور اور نکلا تو چار پانچ لوگوں پر مشتمل ایک دستہ نظر آیا میری ذات، ہنر و شہرت سے واقف کار لوگ تھے۔۔ استہزاء کے انداز میں یوں گویا ہوئے۔۔
ارے فلاں یہ دیکھو تو۔، موقع محل کا کچھ پتہ نہیں اپنی شخصیت سنوارنے میں لگا ہوا ہے اس وقت کے حالات کچھ ہیں اور اس کے حالات کچھ ہیں ،
کرنا کیا تھا اور کر کیا رہا ہے ۔۔
قہقہے سے فضا گونج رہی تھی ان کے استہزاء کے بیچ میں اکیلا چہرہ مرجھایا ہوا لیکن دل فرحاں و شاداں وہاں سے نکل گیا.
کچھ دور اور چلا تو فرحاں و شاداں چہرے نظر آئے ان کی تعداد بہت کم تھی مجھے دیکھ کر چہروں پر مزید مسکراہٹ آگئی سلام و دعا کا دور چلا بڑی عزت سے مجھے بٹھانے لگے اور اپنی محبتیں مجھ پر نچھاور کرنے لگے، مجھے اپنے مقصد میں یوں محو دیکھ کر بہت خوش ہوئے بلکہ یوں کہوں۔۔ کہ خوشی کی انتہا نہ رہی۔ پھر مجھے یہ کہتے ہوئے رخصت کیا کہ۔۔ جو کچھ بھی ہو پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں،۔
یہاں پر کچھ تعجب بھی ہوا کہ اب تک جتنے لوگ مجھ سے ملے ہر ایک نے ایسی بات کہی جس سے میں شش و پنج میں مبتلا تھا لیکن آخر یہ کون لوگ ہیں جن کے ایک جملہ سے میرا سارا شک و شبہ دور ہو گیا، یہاں سے بس دو ہی قدم چلا تھا کہ دور سے کچھ اور چہرے نظر آئے ایسا لگ رہا تھا کہ گویا وہ میرے ہی منتظر ہیں جوں جوں میں قریب ہورہا تھا ان کا شور و غل میری کانوں سے ٹکرارہا تھا، ۔۔ ارے فلاں،، آگیا۔۔ دیکھو تو آگیا،۔ وقت کا علامہ۔۔ کیا کہنے، اس کو تو چاند سورج کی بھی خبر نہیں ۔۔ آج آسمان زمین پر آگیا اور یہ اپنے دھن میں لگا ہوا ہے ۔ یہ تو دنیا کے باہر کا کوئی فرد معلوم ہوتا ہے، یہ آوازیں استہزاء کے انداز میں سنائ دے رہی تھیں،
اب کیا تھا میرا ذہن بٹنے لگا تھا، امیدیں ٹوٹ رہی تھیں، ترقی کی خواہش زمین بوس ہو رہی تھی، عزم و ارادہ میں اضمحلال سی کیفیت پیدا ہو رہی تھی، ہمت و حوصلہ بکھرنے لگے تھے کہ اچانک وہ جملہ مجھے یاد آیا، کہ جو کچھ ہو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا،
اس جملہ نے مجھے ہمت دی عزم میں پختگی پیدا کردی، ہمت و حوصلہ سمٹ کر رگ و ریشے میں جذب ہو گیا اور سارا شک و شبہ جاتا رہا امیدیں پھر سے بھر آئیں اور ایک نیا جوش نئ امنگ نے انگڑائی لینا شروع کردیا اور پھر میں اپنے مقصد کی طرف رواں ہوگیا،
پتہ چلا کہ یہ سب میرے حریف تھے جن کو میری ترقی شہرت نیک نامی میرا مقصد کا دھن، دنیا میں کچھ کر گزرنے کا دھن میری نیک طینت ذرا بھی نہیں بھاتی،
دل میں سوالوں کا سیلاب تھا۔ ذہن عجیب سی الجھن میں پڑ گیا تھا دل میں ایک عجیب وغریب بیچینی تھی گویا کہ میرے سامنے فکر کی ایک دنیا آباد ہو گئی تھی اور سوچنے پر مجبور تھا کہ آخر اتنے پاؤں کھیچنے والے ہیں تو آگے بڑھانے والے کم کیوں؟ گویا میں انسانوں کی اس کشمکش کو سمجھنے سے قاصر تھا۔