80 کی دہاہی کا اوئل تھا،میں گلی میں اپنی عمر سے بڑے لڑکوں کے ساتھ مل کر سبیل سجا رہا تھا، ریکارڈ پر کہیں نوحے فضا میں سوگواری بکھیر رہے تھے، مگر ہم بچے اس سوگواری سے کوسوں دور تھے، ہمارے چہرے دمک رہے تھے، ہمیں معلوم تھا کہ محرم آ چکے ہیں ، اب جگہ جگہ رات جاگ کر حلیم بنایا جائے گا، پھر نو اور دس محرم کو تعزیے نکلیں گے، وہ دیکھنے جائیں گے لکٹری کی تلواریں اور نیزے خریدیں گے ، پھر آپس میں جنگ لڑیں گے، میں جس محلے میں رہتا تھا اس کے چاروں اطراف اہل تشیع رہتے تھے، یوں سمجھ لیجیئے کہ ہمارے محلے کی داخلی اور خارجی گلیوں میں ہر پہلی گلی شیعہ حضرات کی تھی، 4 محرم کو ہمارے محلے سے علاقے کے ایک بڑے امام باڑے سے جلوس نکلا کرتا تھا، یہ وہ دور تھا، کہ ہم محلے کے بچے اس جلوس کے راستے کو خود کھڑے ہو کر صاف کیا کرتے تھے ، اور علاقے میں ہونے والی ہر مجلس میں جایا کرتے تھے، ہم بچوں کے لیے شیعہ سُنی کوئی معنی نہیں رکھتا تھا، ہم اُنہیں کھٹمل کہتے تھے اور وہ ہمیں مچھر، ہم لڑتے تھے اور ایک ہو جاتے تھے، ہمارے گھر ۴ تاریخ کو امی جان لنگر عام کیا کرتی تھی، اس دن قبولی بنائی جاتی تھی، چاول اور چھولوں کی اس بریانی کو میں پورے محلے میں بانٹا کرتا تھا، پھر شربت تو روز ہی بنتا تھا، جو سبیل پر بھی رکھوایا جاتا تھا۔
میں سبیل کی سجاوٹ میں مصروف تھا اور ایک ترنگ کے عالم میں میرے منہ سے ایک ترنم کے عالم میں نکلا، سکینہ بی بی تمہارے غلام حاضر ہیں،بجھے جو پیاس تو اشکوں کے جام حاضر ہیں، سامنے باقر رضا، بانسوں کے درمیان پانی کے مٹکے رکھ رہے تھے، ایک دم سے میری جانب ،مڑے اور کہا، مولا علی سلامت رکھے کیا آواز ہے، بس اس کے بعد تو میں محلے میں جہاں جہاں نوحہ خوانی ہوتی، سلام آخر، گھبرائے گی زینب اور ایک دو نوحے جو میں نے رٹ رکھے تھے پڑھا کرتا، میری پھپھو زاد بہن اللہ انہیں غریق رحمت کرے مجھے اپنے ساتھ نوحہ خوانی میں لے کر جایا کرتی تھیں، مجھے نوحے پڑھنے میں کوئی رغبت نہیں تھی، بس لالچ تھا کہ اُس کے بعد شیر مال، کشمش والے بند اور جانے کیا کیا تبرک ملا کرتا تھا، شام ہوتے ہی ہم لڑکے بالے آخری گلی میں پیپل کے بڑے سے درخت کے نیچے بیٹھ جایا کرتے تھے، کیا سُنی اور کیا شیعہ سب ساتھ بیٹھ کر مجلس میں آنے جانے والے کالے کپڑوں میں ملبوس لوگوں کو دیکھا کرتے تھے، ہم سب کی فینٹسی کی معراج مگر وہ سفید براق گھوڑا ہوا کرتا تھا جو اس گلی میں آیا کرتا تھا، چاندنی کا تاج جس پر لال رنگ میں ڈوبے ہوئے کسی پرندے کے پر اُڑسے ہوئے ہوتے تھے، جیسے ہی وہ گھوڑا آتا ہم سب بچے اس گھوڑے کے پیچھے پیچھے ہر گھر میں گھس جاتے!
یہ وہ دور تھا جب شعیہ اور سُنی ایک ہی تھے ، مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں بڑی گلی میں جاری ذکر کی ایک محفل میں بیٹھ گیا، ذاکر کچھ کچھ شدت پسندانہ انداز میں بیان دے رہے تھے ، چھوٹی سی محفل تھی لوگ بھی زیادہ نہیں تھے میں اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا تھا، کہ ذاکر نے کسی کو آواز دے کر بلایا اور میری طرف اشارہ کیا، اس کے بعد میرے دوست کے بڑے بھائی ہماری طرف آئے اور ہم دونوں کو کہا تم لوگ باہر جا کر کھیلو ، چیز بھی کھاؤ، یہ کہہ کر انہوں نے ہمیں کچھ پیسے بھی دیے، میں اپنی اس بے عزتی پر کچھ افسردہ تھا کہ میرےشیعہ دوست نے اُس شیعہ ذاکر کو ایک بڑی سی گالی دے کر میرے دل میں مذہبی نفرت کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اُکھاڑ پھینکا۔۔
ابھی کچھ شعیہ علامہ اور چند سُنی عالم نفرتوں کی فصل بونے کی تیاریوں میں تھے، ابھی کھٹمل پر کُفر کا فتوی نہیں لگا تھا اور مچھر ابھی شدت پسندی سے دُور تھا، ابھی مذہبی رسوم کے دن سانجھے تھے ۔سبیلوں پر رات میں ہم سب مل کر ریکارڈ پر شہادت کے بیان سنتے تھے، پانی پیو تو یاد کرو پیاس حسین، کی لکھا کرتے تھے، ابھی دیواروں پر سُنی کافر شیعہ کافر لکھنے کا موسم نہیں آیا تھا، ابھی ہم نو محرم کی رات ٹولی بنا کر بلا دھڑک سجے تعزیے دیکھنے چلے جایا کرتے تھے، دس محرم کو ہماری ٹولی بڑی سڑک کر رخ کرتی جہاں ہر تھوڑی دیر بعد ایک سے بڑھ کر ایک تعزیہ سجا سنورا کسی ٹھیلے کسی اونٹ گاڑی پر چلا آ رہا ہوتا تھا، ہم بچے دن میں جھولے جھولتے ، رات میں سینہ کوبی کرتے، ہمارے شیعہ ساتھیوں کو بس یہ پتہ تھا کے وہ شیعہ ہیں اور ہمیں بس اتنا کہ ہم سُنی ہیں، امام حسین ؓ صحابی ہیں نواسہِ رسولﷺ ہیں یہ بحر حال ہمیں معلوم تھا، رسولﷺ کی شان ، اور اُن سے محبت ہماری جان سے بڑھ کر ہےیہ ہمیں گھٹی میں پلایا گیا تھا، اس سے آگے کا ہمیں علم ہی نہیں تھا، آگہی ابھی پردوں میں چھپی تھی، آگہی پر ابھی شدت ،اورصرف ہم صحیح کا چھینٹا نہیں پڑا تھا۔
کراچی سمیت پورے ملک میں عزاداری ہوا کرتی تھی، دو دن عام تعطیل کا اعلان ہو کرتا تھا، سب اپنے اپنے قرینے اور سمجھ سے ان دو دنوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے ، کچھ عزاداری میں مشغول ہوتے تو کچھ ضروری کام نمٹایا کرتے تھے، سڑکیں ابھی کھلی تھی، ابھی حکام نے سیکورٹی کے نام پر دلوں میں نفرتوں کا میل نہیں بھرا تھا، ابھی شناختی کارڈ دیکھ کر مار گرانے کا عمل دُور تھا، ابھی وہ نوبت نہیں آئی تھی کے کوئی کسی کی تکلیف میں تکلیف پا کرسڑکیں کیوں بند ہے کی دہائی دے اور نہ ابھی ایسے لوگ تھے جو نفرت میں ڈوبے زہر کے تیر مار کر ماں باپ کا پتا پوچھتے پھریں! ابھی دل محبت سے بھر پور تھے نفرت خال خال تھی،کاش یہ خال خال ہی رہتی!
کیا آپ نے کبھی موت کو قریب سے دیکھا ہے؟
قریب، بوڑھے نے ایک قہقہ لگایا اور کہا،
مجھ پر موت بیتی ہے!
میں نے حیرانگی سے اُن کی طرف دیکھا،
چہرے کی جھریوں اور کپڑوں سے خستہ حالی ٹپک رہی تھی،
65 کی جنگ میں ، میری ڈیوٹی برکی کی طرف تھی،میں دیوانہ وار فائرنگ کر رہا تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ میرے ارد گرد سناٹا پھیل چُکا ہے ، اور اس سناٹے کو صرف میری گولیوں کی تڑتڑاہٹ ہی چیر رہی ہے، میں نے فا ئرنگ روک دی ، اور اس ہولناک سناٹے کو اپنے دل پر محسوس کرنے لگا، میرے ساتھ جو جوان تھے اُن میں سے کچھ جامِ شہادت نوش کر چکے تھے، کچھ ادھر ادھر تھےمیں تنہا اس مُقام پر ایک چھوٹی سی خندق میں لیٹا ہوا، لڑ رہا تھا، میری پانی کی بوتل خالی ہو چکی تھی اور میں دو دن کا پیاسا تھا، جس جگہ میں تھا اُس جگہ ہندوستانی فوجی بہت بڑی تعداد میں آس پاس ہی تھے،میں دم سادھے بیٹھا تھا، کہ اچانک مجھے سوکھے ہوئے پتوں کے چُرمُرانے کی آواز آئی، مجھے لگا جیسے کوئی میرے نزدیک آ رہا ہے،میں نے یا علی کا نعرہ بلند کیا اور سر باہر نکالا، ایک بھارتی فوجی میرے سامنے زخمی حالت میں سامنے کھڑا تھا، اس نے بندوق میری طرف تان رکھی تھی، شیعہ ہو کیا؟
ہاں، میں نے جواب دیا!
میں بھی شیعہ ہوں!، بھارتی فوجی نے جواب دیا، مگر میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں، اُس نے مزید کہا!
اس سے پہلے کے وہ کچھ کرتا،جانے کہاں سے میرا ایک ساتھی نمودار ہوا اور اس نے اس بھارتی فوجی کوفوراً گولی مار دی،
بس دس سیکنڈ کا کھیل تھا، موت میرے سر پر رقص کر رہی تھی، مگر بیٹھ اُس بھارتی فوجی کے سر پر گئی۔
مجھے بچانے والا، میرا دوست میرا ساتھی تھا، اور یہ وہ دوست تھا جس سے میری ہمیشہ شیعہ سُنی کے معاملے پر بحث رہتی تھی، وہ کٹر سُنی تھا دیو بند سے! مگر میرا جگری دوست تھا!
مجھے مارنے والا میرا ہم مسلک تھا، اور مجھے بچانے والا میرے فرقے سے نہیں تھا!
اُس دن مجھے ایک چیز کا شدت سے ادراک ہوا،
جب دل میں محبت ہو تو اختلاف ثانوی ہو جاتے ہیں !
یہ مارچ کی ایک گرم سہ پہر تھی، میں اپنے کیمرا مین آصف قمر کے ساتھ پنجاب ،برکی کے ایک کھیت میں ، بابا جی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، بابا جی ایک بینچ پر سامنے بنے ایک قدیم مزار کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہوئے تھے اور میں اُن سے باتیں کر رہا تھا، سامنے مزار تھا جس پر ہرے نیلے پیلے جھنڈے لہرا رہے تھے،
آپ اہل تشیع ہیں؟
ہاں ، انہوں نے جواب دیا،
کیا تمیں اس سے فرق پڑتا ہے؟ انہوں نے دریافت کیا؟
نہیں، مجھے فرق صرف نفرت سے پڑتا ہے، شر انگیزی سے پڑتا ہے، گالیوں سے پڑتا ہے!
بابا جی نے ایک طویل ہنکارہ بھرا!
(وہ میرے جواب میں چھپے الزام اور مفہوم کو سمجھ چُکے تھے)
شر انگیزی ، اور گالیاں ، کسی بھی مذہب ، مسلک فرقے کا حصہ نہیں ہوتیں، یہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی فطرت کے مطابق، اقداروں میں کمی پیشی کرتے ہیں ،کبھی شر انگزی، تو کبھی گالیاں،
اہم چیز ایک دوجے سے محبت ہے، اگر محبت کا تعلق قائم ہے تو ایک دوسرے کی چیزوں کا احترام کیا جا سکتا ہے، اگر احترام کریں گے تو محبت فروغ پائے گی، محبت فروغ پائے گی تو پھر اختلاف پیچھے چلا جائے گا!
میں خاموش بیٹھا انہیں سُن رہا تھا کہ وہ یکدم کھڑے ہوگئے،
بابا جی نے کہا، بیٹا، میں نے عمر کی کئی دہائیاں ،اس وطن کی حفاظت میں لگائی ہیں،
جب میرے ہاتھ میں بندوق تھمائی گئی تو مجھ سے یہ نہیں کہا گیا تھاکہ، یہ ہندو پاکستانی ہے، یہ سنی یا یہ شیعہ پاکستانی، مجھ سے کہا گیا کہ ہر پاکستانی کی بلا رنگ ، نسل مذہب حفاظت تمہارا فرض ہے!
میں نے ہمیشہ پاکستان کی حفاظت کے لے بندوق اُٹھائی! ہمیشہ ظلم کے آگے سینہ تان کر کھڑا ہوا، کبھی سر نہیں جُھکایا!
پھر نفرت نے ہمارے دل میں سیندھ کیسے لگا لی؟
میں نے دریافت کیا؟
بابا جی نے خالی نظروں سے میری جانب دیکھا اور کہا، اس کا جواب تمھیں سُنی اور شیعہ عالم اپنے کردار اور گفتار سے سمجھا چکے ہیں، مگر تم۔۔۔
انہوں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا، پھر دوبارہ کہا
جب دل میں محبت ہو تو اختلاف ثانوی ہو جاتے ہیں !
اور میں اپنے دل میں سیندھ لگا کر بیٹھی ہوئی نفرت کو ٹٹولنے لگا جو اب دم توڑ رہی تھی!
منصور مانی میں عوام