گھر کی صفائی اور بوجھ
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے وزارت سنبھالتے ہی اپنے بیانات سے واضع کر دیا کہ وہ روائیتی ڈپلومیسی سے کام نہیں لیں گے اور کھل کر بات کریں گے۔ خواجہ آصف کے لئے وزارت خارجہ کا اعلان ھوتے ہی تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی، جو خود بھی سابق وزیر خارجہ ہیں، نے ان کے بارے میں درست تنقید کی کہ وہ ڈپلومیسی نہیں جانتے،
خواجہ آصف نے جب یہ کہا "گھر کی صفائی ضروری ہے" تو ان کا واضع مطلب تھا کہ ماضی میں ریاست مزھبی جنونی گروھوں کو جو پالتی پوستی رھی ہے وہ "گندگی" پھیلانے کے مترادف ہے اور اب اس کی صفائی ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو ان کی ہی پارٹی کے چوہدری نثار نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف کے ھوتے ہوئے ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ اب یہ الفاظ تمام رجعت پرست قوتیں زور شور سے دھرا رھی ہیں۔ دشمن سے مراد انکی بھارت تھا، جس کے ساتھ دشمنی رکھنے اور دشمن پر خفیہ حملوں کے لئے سپاہ صحابہ، لشکر طیبہ اور جماعت دعوہ جیسے گروھوں کی ریاستی سرپرستی ضروری تھی۔
چوھدری نثار وزیر داخلہ ہوتے ہوئے خوب واقف تھے کہ خواجہ آصف کس صفائی کی بات کر رھا ہے۔ انکی تنقید کو فوری طور پر مزید کمک عمران خان نے پہنچائی جنہوں نے تقریباء وہی لفظ استعمال کئے جو چوہدری نثار کر رھا تھا۔
تاھم خواجہ آصف کو تنقید کے تھپیڑوں کی زد سے باھر نکالنے کے لئے انکے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ نے بھی واضع کر دیا کہ صفائی تو ہو گی۔
ابھی یہ گرد چھٹی نہیں تھی کہ خواجہ آصف نے ایک اور دھماکہ خیز بیان دے دیا اور وہ بھی امریکہ میں ایشیا سوساٹی کے ایک سیمینار اور برطانیہ میں ایک انٹرویو کے دوران کہ حافظ سعید، سپاہ صحابہ اور حقانی گروہ پاکستان پر ایک بوجھ ہیں۔
ایک دفعہ پھر اب تمام رائیٹ اورانتہا پسندرائیٹ ونگ گروہ اور جماعتیں خواجہ آصف کے خلاف بیانات دے رھی ہیں۔ استعفی کا مطالبہ کیا جا رھا ہے۔ اج بیانات ہیں تو کل کو مظاہرے شروع ہو جائیں گے۔ مدرسوں میں موجود اپنی ہر دم تازہ قوت کو استعمال کیا جائے گا۔وھی منظر دوبارہ شروع ہو گا جس کا نظارہ ہم حامد میر پر حملوں کے بعد اسکے بھائی کے آئی ایس آئی کے چیف کو حملے کا زمہ دار ٹہرانےاور پھر جیو پر خبر نشر ھونے کی بعد دیکھا۔
خواجہ آصف کے یہ بیانات ماضی میں ریاستی سطع پر مزھبی گروھوں کی مسلسل امداد سے ایک واضع فاصلہ اختیار کرنے کا اظہار تھا۔ وہ اپنی اس وراثت سے جان چھڑانے کے چکروں میں ہیں جو ماضی میں بھارتی دشمنی کی بنیادیں مضبوط اور یوں دفاع کی ضرورت کے جواز پر اسکے اخراجات میں مسلسل اضافے کا باعث تھی۔
ریاست پاکستان ایک ایسے مرحلے سے گزر رھی ہے جو اسکے مختلف گروھوں کے مفادات کے ٹکراؤ کا ہے۔ ریاست کے اندر ایک نظریاتی جنگ اور اسکے مطابق حکمت عملی اختیار کرنے عمل جاری ہے۔ یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ ایک یا دوسرا گروہ اس ٹکراؤ میں ایک دوسرے پر حاوی ھو جائے گا۔
جو چاھتے ہیں کہ بھارت دشمنی جاری رھے، افغانستان پر بھی دباؤ رھے، دفاع کے نام پر ریاستی اخراجات بڑھتے رھیں۔ "جہاد" کے نام پر کچھ مزھبی گروھوں کو مدد ہوتی رھے، "جہاد" ایکسپورٹ ھوتا رھے، ایسے گروہ خواجہ اصف کو ملک دشمن، غدار، بھارتی ایجنٹ اور ڈپلومیسی سے ناوقف کے طعنوں سے نواز رھے ہیں۔
مگر جو ماضی کا راستہ تبدیل کرنے کا عندیہ دے رھے ہیں جو عالمی حالات میں پاکستان کی مکمل علیحدگی کو روکنا چاھتے ہیں، جو خود ان مزھبی گروھوں کو انتخابات میں اپنے لئے ایک دھمکی سمجھتے ہیں۔ وہ کہ رھے ہیں کہ صفائی ضروری پے اور یہ مزھبی گروہ پاکستان پر ایک بوجھ ہیں۔
ڈان لیکس بھی ریاست کی حکمت عملی طے کرنے کے لئےایک محفل کی اندرونی کہانی باھر پرنٹ کرنے سے شروع ھوئی تھی۔ ڈان کے سیرل ایملڈا نے اکتوبر 2016 میں ایک سٹوری شایع کی جس میں کہا گیا کہ ایک ٹاپ لیول کی سیکورٹی اجلاس میں شہباز شریف نے ایک ملٹری جنرل کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ ہم ان کو پکڑتے ہیں اپ انکو چھڑا کر لے جاتے ہیں۔ اس کا سخت برا منایا گیا ایک اندرونی بات باھر کیسے آگئی۔ بات پر بات نہ ھوئی بس یہ اعتراض تھا کہ باہر کیسے آ گئی۔ خواجہ آصف اب کھل کر باتیں باہر لانے کی جستجو میں ہے۔ بات ڈان لیکس سے کہیں آگے بڑھ گئی ہے۔
اب سرمایہ دار طبقات اور انکی سیاسی پارٹیوں میں بھی ایک تفریق، جو شائید ابھی بہت واضع نہیں، نظر آرھی ہے۔ ایک جانب مسلم لیگ ن کی نئی حکومت ہے جو میاں نواز شریف کی برطرفی کے بعد زخم خوردہ ہے اور بقول سعد رفیق "کچھ سیکھتے ہوئے راستہ تبدیل" کرنے کی کوشش میں ہے۔ ان پر عالمی دباؤ بھی ہے اور یہ بھی درست ہے جو خواجہ آصف نے ہی کہا کہ پہلے یہ لوگ وائیٹ ھاؤس میں دعوتیں کھاتے تھے۔ اور امریکہ نے انکو پالنے میں آمر جنرل ضیاالحق کی بہت مدد کی۔
ویسے تو میاں نواز شریف بھی اس وقت آمریت کے ساتھ تھے اور کھل کر ان مزھبی گروھوں کے "جہاد" کی حمائیت کرتے تھے۔ اب تو انہوں نے معافی بھی مانگی ہے اور ان کے خلاف بیانات بھی دے رھے ہیں۔ اقدامات تو ابھی تک صرف تنظیموں پر پابندی اور حافظ سعید کی ھاؤس نظربندی تک ہی محدود ہیں۔
اور دوسری جانب عمران خان، سمیع الحق اور دیگر مزھبی گروہ ہیں۔ ہیپلز پارٹی تو ابھی تماشہ دیکھ رھی ہے۔ اسے ایک پوزیشن تو لینی پڑےگی۔ مزھبی گروھوں کا ساتھ یا مسلم لیگی نئے ٹرن کی حمائیت، امکان اس بات کا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہی ھو گی خاص طور پر عمران خان اور ایم کیو ایم کے تازہ ملاپ کے بعد، ایم کیو ایم جو ماضی میں مزھبی گروھوں کی مخالف ہونے کی وعویدار تھی اب خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
ھمارا موقف واضع ہے۔ مزھبی جنونیت کو روکنے کے لئے ریاست اپنا کردار تب ھی موثر انداز میں ادا کر سکتی ہے جب وہ نظریاتی طور ہر اس بات کے لئے تیار ہو کہ ریاست کا اپنا کوئی مزھب نہیں ھونا چاھئے۔ وہ تمام شہریوں کے لئے برابر کا سلوک کرنے والی ہو۔ ایک نان مسلم بھی اگر وہ پاکستانی شہری ہے تو ریاست کے کسی بھی ادارے کا سربراہ بننے کا اہل ہو۔ ریاست تمام مزھبی جہادی گروھوں سے اپنا رشتہ ناطہ توڑے اور دھشت گردی کی کر شکل کی مخالفت کرے۔
خواجہ آصف نے ماضی میں بھی پارلیمنٹ کی اندر فوجی مداخلتوں کے خلاف دھواں دار تقریریں کی ہیں مگر اب بات پارلیمنٹ کے باھر ہے۔ اگر وہ اپنے موقف پر حکومت کی پوری مدد کے ساتھ کھڑے رھے تو پاکستان میں کسی حد تک بہتر تبدیلی کے امکانات ہیں۔ اور ریاست پر مزھبی دباؤ کم ھو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ ناکام رھے تو پھر پاکستان مزید رائٹ ونگ سیاست کی نذر ہو گا۔ مزھبی پارٹیاں زیدہ پاور فل ہوں گیں۔ ملٹیرازیشن کا عمل تیز ہو گا، ریاست زیادہ خونخوار ہو گی۔ ترقی پسندی کا نام لینا بھی مشکل ہو گا۔
یہ ایک اہم موڑ ہے۔ ایک جانب انتہا پسند رجعت پرست اور دوسری جانب رائیٹ ونگ جو کچھ راستہ تبدیل کرنا چاھتا ہے، اگر مسلم لیگی قیادت اقتدار سے باھر آکر موجودہ موقف اختیار کرتی تو اس کی ساکھ کچھ نہ ہوتی کیونکہ اپوزیشن میں تو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ مگر اقتدار میں رھتے ہوئے مزھبی انتہا پسندی کا اعتراف اور انکے خلاف موقف اختیار کرنا جرات مندانہ اقدام ہے۔ اس موڑ پر صف بندیاں واضع ہو جائیں گی۔ عمران خان مزید رائیٹ کی طرف مڑ رھا ہے۔ مزھبی گروھوں کا دفاع کر رھا ہے۔
یہ کوئی اتفاق نہ تھا کہ 2013 کے انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے صرف پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی ریلیوں اور افراد پر ھی ہوئے، جبکہ عمران خان اور میاں نواز شریف کھل کر مہم چلاتے رھے۔
اب صورحال مختلف ہے۔ فوج کے اندر بھی ایک بڑا حصہ مزھبی گروھوں کے خلاف ہے خاص طور پر دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول کے بچوں کے قتل کے انتہائی اندوھناک واقعہ کے بعد، اور مسلم لیگ قیادت بھی سابقہ موقف سے پیچھے ہٹ رھی ہے۔
ایسے میں تماشائی بننا غلط ہے۔ کچھ تو کہنا اور کرنا ہو گا۔ مزھبی جنونیوں کی مخالفت اور ان کے خلاف سیاسی اقدامات کی حمائیت کرنا ضروری ہے۔ مزھبی جنونیت آج ترقی پسند قوتوں کے لئے ایک اھم ترین چیلنج بن کر ابھری ہے۔ یہ ایک طرز کی نئی فاشسٹ قوت ہے۔ انکے خلاف ایک وسیع تر محاز کی ضرورت ہے جو تمام ان افراد، گروھوں اور سیاسی قوتوں پر مشتمل ہو جو اس ایک ایجنڈا پر متفق ہوں کہ مزھبی جنونیت کا سیاسی خاتمہ ضروری ہے اور انکی سیای پشت پناھی کرنے والے سیاسی گروھوں کو شکست دینا بھی ضروری۔
فاروق طارق
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔