بحث چل رہی تھی کہ گھر کے کھانے پینے کا ماہانہ خرچہ مرد کے ہاتھ میں ہونا چاہئے یا یہ کام بیویوں کے حوالے کردینا چاہیے۔ایک صاحب نے آہ بھری اور بولے ’میں اس مد میں بیس ہزار روپے اپنی بیگم کو دیتا ہوںلیکن اس کے باوجود پھر بھی پندرہ بیس ہزار میری اپنی جیب سے بھی نکل جاتے ہیں۔ سب نے حیران ہوکر تفصیل اس اجمال کی پوچھی تو فرمایا’یکم تاریخ کو بیس ہزار روپے بیگم کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اب مہینہ بھر کے کھانے پینے کے خرچے سے میری جان چھوٹ گئی ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں‘ کئی دفعہ آفس میں ہی بیگم کی کال آتی ہے کہ آتے ہوئے ڈیڑھ درجن انڈے اور بڑی ڈبل روٹی لیتے آئیے گا۔ میں حکم کی تعمیل کرتا ہوں۔اصولی طور پر ڈیڑھ درجن انڈوں اور ڈبل روٹی کے پیسے مجھے بیگم سے لینے چاہئیں‘ لیکن یہ کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے۔میں مانگوں تو آگے سے آنکھیں نکال کر کہتی ہے کہ ’ہائے ہائے بیوی بچوں کے لئے انڈے اور ڈبل روٹی کا بھی حساب مانگ رہے ہو؟‘۔ ایسا مہینے میں چار پانچ دفعہ ہوتاہے۔ بیگم خود سے جو چیز خریدتی ہے وہ گھر کے خرچے سے ہی خریدتی ہے لیکن جب بھی مجھے کہتی ہے وہ پیسے مجھے اپنے پلے سے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ہم کبھی رشتہ داروںکے ہاں جائیں تو اُن کے بچوں کو پیسے دینا اِس سارے خرچ کے علاوہ ہوتاہے‘ تاہم ناانصافی کی بات یہ ہے کہ ہر رشتہ دار کے گھر جو پانچ سو روپے دینا پڑتے ہیں اس کے لئے میری جیب استعمال ہوتی ہے لیکن اگر وہی رشتہ دار ہمارے گھر آکر ہمارے بچوں کے ہاتھ میں ہزار پانچ سو پکڑا دیں تو وہ سارے پیسے بیگم کی ملکیت قرار پاتے ہیں۔چونکہ بیگم کے ذمے کچن کے اخراجات ہیں لہذا صبح ناشتے میں ایک انڈہ میرے حصے میں آتا ہے، دوسرا مانگ لوں تو شام کو فون آجاتا ہے کہ انڈے ختم ہوگئے ہیں لیتے آئیے گا…اس کے باوجود ہر دوسرے روز فرائڈ چکن‘ زنگربرگر اور بریانی باہر سے آرڈر کی جاتی ہے اور مجھے کہا جاتا ہے کہ کچن کے علاوہ باقی اخراجات کے آپ ذمہ دار ہیں۔اپنی طرف سے بیگم کئی دفعہ بچت کا مظاہرہ بھی کردیتی ہے لیکن وہ مجھ پر زیادہ بھاری پڑتاہے۔ مثلاً پچھلے ہفتے اُس نے مجھے بتایا کہ ہمارے علاقے میں آلو تیس روپے کلو مل رہے ہیں جبکہ ایک سستا علاقہ ہے جہاں آلو صرف پندرہ روپے کلو دستیاب ہیں لہذا ہمیں وہاں سے آٹھ دس کلو آلو خرید لانے چاہئیں ‘ یوں ہمیں کم ازکم چار پانچ سو روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔ میں نے یہ سن کر خوشی کا اظہار کیا…اگلے ہی دن ہم سب گاڑی میں لاہور سے اوکاڑہ گئے اور دو ہزار کا پٹرول پھونک کر پانچ سو کی بچت کرکے آلو لے آئے۔میں یہ آلو کبھی نہیں بھول سکتا…!!!‘
یہ باتیں سن کر ہم سب دم بخود رہ گئے، کئی ایک کی تو سسکیاں بھی نکل گئیں، تاہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا بھی ضرور ی تھا لہذا دوسرے صاحب کی طرف متوجہ ہوئے جنہوں نے گھر کا خرچ اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔انہوں نے بیان شروع کیا…’میں بیگم کو ماہانہ پانچ ہزار روپے اس کے ذاتی خرچ کے لئے دیتا ہوں اس کے علاوہ گھر کا تمام تر خرچہ میں نے خود اٹھا رکھا ہے۔رات کو میں اپنے بٹوے میں چھ سو روپے بھی گن کے سوئوں تو صبح ایک نوٹ ضرور کم ہوتاہے۔کئی دفعہ بیگم سے پوچھا لیکن یہی جواب ملا کہ آپ کو تو پیسے سنبھالنے ہی نہیں آتے۔ایک دفعہ سوچا کہ کیوں نہ پیسے سنبھال کر رکھے جائیں لہذا سونے سے پہلے بٹوہ اپنے پرانے کوٹ کی اندرونی جیب میں چھپا کر رکھ دیا۔ الحمدللہ اگلے دن بیلنس برابر ملا ‘ تاہم جب پٹرول پمپ پر گاڑی میں ہزار روپے کا پٹرول ڈلوایا تو پتا چلا کہ بٹوہ پرانے کوٹ کی جیب میں ہی رہ گیا ہے۔ اُس دن کے بعد پرانی روٹین پھر بحال کرنا پڑی۔چونکہ گھر کے سارے اخراجات میرے ذمہ ہیں لہذامجھے باور کرایا جاتاہے کہ بے شک گھر کی ٹینکی میں پینے کا صاف پانی آتا ہے لیکن منرل واٹر کی بوتلیں بہت ضروری ہیں۔بچوں کو ہفتے میں چار دن ہوٹلنگ بھی کرانی چاہیے ‘ کھانا پکانے کے لئے زیتون کا تیل فائدہ مند ہوتاہے ‘ ڈرائی فروٹ سے مراد صرف چلغوزے‘ پستہ اور کاجو ہیں۔بے شک تین افراد کا کنبہ ہو لیکن رضائیاں خریدخرید کر پیٹی میں رکھتے جانا چاہئیں‘ڈبل بیڈ کی چادریں بیس پچیس بھی ہوں تو کم ہیں اور صوفے کی پوشش تو ہر ہفتے بدلواتے رہنا چاہیے۔ اچھے پھل وہ ہوتے ہیں جو مہنگے ہوتے ہیں لہذا جب بھی اچھا پھل کہیں سے سستا ملا‘ بیگم نے خریدنے سے انکار کر دیا۔اخراجات میرے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے جب کبھی تنخواہ لیٹ ہوجائے یا وقت سے پہلے ختم ہوجائے تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ ’سارے خرچے تے تہاڈے نیں سانوں تسی کی دیندے او‘۔ میں چھ مہینے میں ایک نئی شرٹ بھی خرید لوں تو بیگم کے تین سوٹ پکے ہوجاتے ہیں۔گھر میں کسی کو کھانسی بھی ہوجائے تو بیگم کی یہی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ کم سے کم سی ٹی اسکین تو ضرور کرایا جائے۔کسی بچے کی سالگرہ آجائے تو تین دفعہ منانی پڑتی ہے، ایک دفعہ اسکول میں‘ دوسری دفعہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ اور تیسری دفعہ بیگم کے بہن بھائیوں کے ساتھ۔گھر میں سارا دن اے سی چلتاہے اور میرے آتے ہی بند ہوجاتاہے۔بیگم کو یقین کامل ہے کہ میں نے نہ صرف اسے اپنی تنخواہ غلط بتائی ہوئی ہے بلکہ میں چوری چھپے ہر ماہ ایک بھاری رقم اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بھی دیتا ہوں۔مجھے رات کو اگر بھوک نہ لگے تواسے یہی شک پڑتاہے کہ نعوذباللہ میں اپنی جیب سے اکیلے اکیلے کچھ کھا آیا ہوں لہذا میںبے شک باہر سے کھانا کھا کر آئوں‘ گھر آکر پھر کھانا پڑتاہے۔ایک دفعہ ایک دوست کے ہاں دعوت تھی، بریانی بڑی مزیدار بنی تھی‘ میں نے ڈٹ کے کھائی۔ گھر آیا تو بیگم چہک کر بولیں‘ آج میں نے آپ کی پسندیدہ بریانی بنائی ہے۔ مجھے پتا تھا کہ اب انکار کیا تو صبح ناشتہ بھی نہیں ملے گا لہذا بادل نخواستہ باچھیں پھیلا کر کہا‘ واہ واہ…جلدی سے لے آئومیں ذرا فریش ہوکر آتاہوں‘۔ اس کے بعد میں نے پوری شیشی ’پھکی‘ اپنے حلق میں انڈیلی کہ شاید کو ئی گنجائش بن جائے لیکن نتیجہ صفر۔مجبوراً بیگم کو پانی لانے بھیجا اور بریانی کی پوری پلیٹ کوٹ کی ساری جیبوں میں بھر کے کوٹ پچھلے صحن میں لٹکا دیا۔
دونوں اصحاب کی داستان سن کر محفل میں ایک گمبھیر خاموشی چھاگئی۔چھ سات منٹ تک صرف وال کلاک کی ٹک ٹک سنائی دیتی رہی۔بالآخر میں نے ہلکا سا کھنکار کر خاموشی کو توڑا اور مریل سی آواز میں پوچھا’تو میرے بھائیو! کیاطے پایا، کون سا طریقہ بہتر ہے؟۔ میری بات سن کر سب نے ایک لمحے کے لئے میری طرف دیکھا اور پھر دیکھتے ہی چلے گئے۔ میں بوکھلا گیا‘ کھسیانا ہوکر سرکھجایا اور ذرا بلند آواز میں کہا’بتایا نہیں آپ نے، کون سا طریقہ بہتر ہے؟…میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صاحب اٹھے ‘ اپنی قمیص کی دائیں جیب میں ہاتھ ڈالا اور بچوں کے چوسنے والی چھ گولیاں نکال کر ہم سب کے ہاتھ میں ایک ایک گولی تھما دی اور کہنے لگے’اسے منہ میں رکھئے اور دانتوں تلے رگڑ دیجئے۔میں نے جلدی سے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا لیکن انہوں نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور گولی میرے ہاتھ میں تھما دی۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایسا کرنے سے کیا ہوگا‘ تاہم پھر بھی گولی منہ میں رکھی اور زور سے دانتوں تلے دبا کر توڑ دی۔میرے دیکھا دیکھی سبھی نے یہی عمل کیا…کچھ ہی دیر میں ہم سب مسلسل دانت پیس رہے تھے اورجھوم رہے تھے‘ بڑا سکون مل رہا تھا!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“