بریگیڈئیراے۔آرصدیقی( عبدالرحمن صدیقی) نےاپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز روزنامہ ڈان دہلی سےکیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ کے پشاورمیں نمائندہ خصوصی رہے اورجب تک اس اخبارپرحکومت نے پابندی نہ لگائی وہ اسی سےمنسلک رہے۔1950میں فوج کے محکمہ تعلقات عامہ( انٹر سروسز پبلک ریلیشنز) سےمنسلک ہوگئےاورچھ سال(1973-1967) ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔پی۔آررہے۔1973میں بطوربریگیڈئیرفوج سےریٹائرہوئے تھے۔جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو وہ ڈی۔جی۔ انٹر سروسزپبلک ریلیشنز تھے۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے پس پشت حالات وواقعات کےحوالے سےانھوں نے-East Pakistan The End Game کےعنوان سے کتا ب بھی لکھی۔ریٹائیرمنٹ کے بعد انھوں نے مختلف اخبارات میں کالم نگاری شروع کی اورڈیفنس جنرل کےنام سے بائیس سال تک ایک میگزین شایع کرتے رہے جوعسکری امورسےمتعلق بہت وقیع میگزین سمجھا جاتا تھا۔ بریگیڈئیر صدیقی کا ایک طویل روزنامہ ایکسپریس( 11۔اگست2018) کے سنڈے میگزین میں چھپا ہے جس کے کچھ مندرجات بہت دل چسپ ہیں۔ پاکستان کے ریاستی بیانیہ کےمطابق موجودہ آزاد کشمیرقیام پاکستان کے فوری بعد قبائلی حملے کی بدولت حاصل ہوا تھا لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اگر یہ حملہ نہ ہوتا توجسےآج ہم مسئلہ کشمر کہتے ہیں وہ پیدا ہی نہیں ہونا تھا۔ بریگیڈئیر صدیقی کہتے ہیں کہ 1948 میں قبائلیوں نے بیڑاغرق کردیا۔وہ بارہ مولا تک پہنچ گئے تھے وہاں سے سری نگرائیرپورٹ تین چارمیل دورتھی۔ وہاں جاکرانھوں نے لوٹ مارشروع کردی۔اگروہ( لوٹ مار کی بجائے) سری نگرائیرپورٹ پرقبضہ کرلیتے توہندوستان کشمیر پرقبضہ نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اس متھ کی تردید کرتے ہیں کہ فوج کے انگریزکمانڈرانچیف جنرل گریسی نے قبائلیوں کی مدد کے لئے فوج سے بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔وہ کتہے ہیں کہ جنرل گریسی کا موقف تھا کہ وہ دلی میں قائم فوج کے مشترکہ ہیڈکوارٹر کی ہدایات کے پابند ہیں۔
1940میں مسلم لیگ نے جو قرارداد لاہورمنظورکی تھی اس میں پنجاب اوربنگال کو علاقائی ردوبدل کے نام پرتقسیم کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن اس کےباوجود مسلم لیگ کی یوپی سے تعلق رکھنے والی لیڈرشپ پاکستان کی ممکنہ سرحدوں کے بارے کنفیوزتھی یا پھراپنے پیروکاروں کوبے وقوف بنارہی تھی جب وہ یہ کہتی تھی کہ دلی پاکستان میں شامل ہوگا۔ بریگیڈئیرصدیقی کہتے ہیں کہ 1944میں مسلم لیگ کےجنرل سیکرٹری لیاقت علی خاں دلی کے اینگلوعربک کالج میں آئے اور جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے جس تقسیم کا مطالبہ کیا ہے اس میں علی گڑھ تو ہے ہی نہیں تووہ کہنے لگے میاں تم سمجھے نہیں۔دراصل دلی توہم لیں گےکسی کی کیا مجال ہےکہ دلی ہم سےلے سکے۔ہم نے علی گڑھ کا نام نہیں دیا وہ اس لئے کہ جب دلی ہمارے پاس ہوگا توعلی گڑھ خود بخود ہمارے پاس آجائے گا۔۔لیاقت علی خان کے ذہن میں تھا کہ دلی تو پاکستان میں شامل ہوگا کیونکہ ّہماری ساری چیزیں تو یہیں ہیںٗ۔ یوپی والوں کے نزدیک سارا ہندوستان صرف یوپی اوراس کےاشرافیہ کی تہذیب اورکلچرتھا انہیں وہ ہماری کہتے تھے۔
بریگیڈئیرصاحب جناح کے بارے میں دلچسپ تبصرہ کرتے ہیںّ ۔جناح صاحب کسی کی بات نہیں سنتےتھے( اتنی آمرانہ طبعیت پائی تھی سرکارنے) اور نہ اپنی بات سمجھا سکتے تھے۔ سمجھانے کا مطلب ہوتا ہے کہ پہلے آپ کو سمجھنا پڑتا تھا۔بھئی اگر پاکستان اچھا ہے تو کیوں اچھا ہے؟ اس کا جواب نہیں دیں گےوہ شٹ اپ کردیں گے۔ ۔تقسیم سے قبل حسین شہید سہروردی اور ابوالہاشم جنرل سیکرٹری سمیت تین سخصیات نے جناح سے کہا کہ متحدہ بنگال کی باتیں ہورہی ہیں جس پر جناح نےکہا کہ انھیں متحدہ بنگال پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ایک شرط ہے کہ وہ ہندوستان کا حصہ نہیں بنے گا بھلا یہ کیسے ہوسکتا تھا؟
جناح کی گیارہ اگست کی تقریرکے بارے میں بریگیڈئیرصدیقی کہتے ہیں کہ خداکرے کہ وہ یہ تقریرنہ کرتے۔ یہ تقریرتو پاکستان کی بنیادوں کوکھوکھلا کرنے کے مترادف تھی۔جب وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لئے آزاد ہیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہندوستان میں ہمیں یہ آزادی حاصل نہیں تھی۔ہندوستان میں تو ہماری مسجدیں تھیں۔اگرصرف مذہبی آزدی ہی قیام پاکستان کا مقصد تھا تو اتنی بڑی قربانی دینے کی کیا ضرورت تھی؟
بریگیڈئیرکے نزدیک جناح کے ذہن میں اسلامی نظام کا کوئی تصور تھا ہی نہیں بلکہ لکھنو کے ایک رہنما نےجب یہ کہا کہ پاکستان میں اسلامی حکومت ہوگی انھوں نے اسے ڈانٹ دیا تھا، وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ جناح کی گیارہ اگست کی تقریر سے اقلیتوں میں احساس تحفظ پیدا ہوا۔ ان کی تقریر کے باوجود اقلیتں تویہاں سے چلی گئیں۔
بریگیڈیرصدیقی کے خیال میں جناح چونکہ بیمار تھے اورانھیں اپنی بیماری کی شدت کا بھی پتہ تھا اس لئے وہ جلد ازجلد قیام پاکستان چاہتے تھےخواہ یہ کتنا ہی کٹا پھٹا کیوں نہ ہو۔اگر1947میں قیام پاکستان کی بجائے کچھ دیرمزیدانتظارکیا جاتا تواس کوکشت وخوں سے بچا جاسکتا تھا جوفرقہ ورانہ فسادات کی بدولت ہوا تھا
بریگیڈئیر صدیقی کےانٹرویو کے مندرجات اس حقیقت کی طرف اشارہ ہیں کہ قیام پاکستان کی داعی مسلم لیگی قیادت کو خود نہیں پتہ تھا کہ وہ کیوں نیا ملک بنانے جارہی ہے اوراس کا ناک نقشہ کیا ہوگا۔ سب کام افراتفری میں کیا گیا جس میں لاکھوں کواپنی جانیں گنوانا پڑیں اور ایک ایسی نقل مکانی ہوئی جس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...