گھر کے ادارے کی از سر نو تعمیر
جب سے انسان نے خود کو جانوروں سے ممتاز کیا اور اس نے گھر بنایا۔ ہاں گھر کسی چھت، مکان اور مذہب کی حدود میں مقید کبھی بھی نہیں رہا۔ انسان شکاری دور سے ہی خود کی گھر کی شکل میں پرورش کرنے لگا۔ لوگوں کا مسکن چونکہ غار ہوتے تھے اس لیے ابتدائی مکان گول ہوتے تھے ۔گھر کے ادارے کی حدود و قیود ہی معاشرے اور تہذیبیں بنانے لگی۔ حتیٰ کہ انسان کی سیاست بھی اسی گھر کی ایک وسیع حدود و قیود کا نام ہے ابتدائی مذہبوں نےشراب کی حلت بھی اسی مقصد کیلیے رکھی تھی یہ اعصاب کو پرسکون ،جنسی رغبت اور جمالیاتی ترقی پیدا کرتی ہے۔انسان دوسرے جانوروں کی طرح زیادہ تر نر اور مادہ(مرد و زن) ہوتے ہیں۔ ان میں جنسی رغبت ہی معاشرت قائم کرنے کا سبب بنتی ہے یہاں سے تہذیب، مذہب اور ریاست کا بنیادی ادارہ ""گھر کا ادارہ " قائم ہوتا ہے۔تہذیب وہ چیز ہوتی ہے جو کسی کو سکھائی نہیں جاتی۔
گھر کے ادارے کے کرداروں کے نام:
گھر کے ادارے کو اسلام کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ کچھ لوگ محرم ہوتے ہیں اور کچھ نامحرم ہوتے ہیں۔ جنسی تعلقات نامحرم لوگوں کے درمیان قائم کیے جاتے ہیں پھر وہاں محرم اور نا محرموں میں وسعت آتی ہے ایسی ہی وسعتوں سے ریاست قائم ہوتی ہے جہاں گھر ذیلی ادارہ ہوتا ہے ۔اسلام تمام چیزوں کو انصاف پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ احسان کی ترغیب بھی دیتا ہے تاکہ گھر کے ادارے کیلیے قربانی دے کر بھی اعلیٰ معیار پر قائم رکھا جاسکے اگر جنسی معاملات پر غیر ضروری قدغن لگائی گئی تو گھر کا ادارہ تباہ ہوجائے گا۔اسلامی دنیا میں ماں باپ بہن بھائی اور میاں بیوی گھر کے ادارے کے بنیادی کردار Primary Characters ہیں۔ بچوں کیلیے ماں باپ کے رشتے دار کچھ محرم ہیں اور کچھ نا محرم ہیں۔ اِسی طرح میاں بیوی کے رشتے دار محرم اور نامحرم ہوتے ہیں۔ بچوں کیلیے ماں کے رشتے دار ماسی، خالو، مسیرے، ماما ،مامی، ملیرے، نانا، نانی اور باپ کے رشتے دار پھوپھی ،پھوپھا ،پھوپھیرے، چاچا، چاچی، تایا ،تائی، چچیرے، دادا دادی پائے جاتے ہیں جبکہ میاں بیوں میں سالا، سالی، ساس، سسر، بہنوئی داماد، نوح، سمدھی،سمدھن، ہم ذلف، نند،دیور، جیٹ پائے جاتے ہیں بہن بھائیوں بھتیجے، بھتیجی، بھانجے، بھانجی کے رشتے پائے جاتے ہیں یہ تمام ابتدائی اور ثانوی رشتوں کی وضاحت تھی۔ ایک مرد دو بہنوں کو ایک گھر کا حصہ نہیں بنا سکتا وغیرہ وغیرہ۔ ابتدائی سے گھر اور ثانویSecondary Characters سے معاشرت بنتی ہے۔ یہ رشتوں کے نام کی فضیلت سے نہیں دی گئی بلکہ ان کے کردار سے دی گئی ہے کوئی شخص فضیلت سمجھ کر کسی غیر شخص کو اس کی عمر کے مطابق وہی کردارپکاریں تو زیادتی تصور کی جائے گی۔ اسی لیے معاشرے کی صحت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُسے کسی اچھے نام Name سے پکارا جاتا ہے۔ ہاں پاکستان میں لوگ غیر تعلق رشتے داروں کو نام سے نہیں پکارتے ۔ معاشرے کے ساتھ منافقانہ تعلق قائم کیا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے ہندوؤں میں بہت بڑے خاندانوں کی رشتے داریاں ہوتی تھی یہ ریت وہی سے چلی آرہی ہے۔ چار شادیوں کی اجازت سے گھر بنانے کی اہمیت ہنگامی حالات میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن معاشرے میں گھر کا ادارہ مرد و عورت کی محبت سے ہی قائم ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ دور کی بات کی جائے توکنوارے مرد و زن نے جنسی اعضاء کو صرف پیشاب کرنے کیلیے رکھے ہوئے ہیں؟نہیں ۔۔!پاکستان زرعی ملک ہونے کے ناطے یہاں خوراک وافر مقدار میں میسر ہوتی ہے۔کھانے کے بعد جنسی معاملات بنیادی ضرورت ہے بلکہ ایسی صورت میں جنسی ضرورت خوراک کی ضرورت سے بڑھ جاتی ہے اس سے بڑھ کر پاکستان میں زیادہ تر لوگ اسلامی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اسلام زرعی دور کا جدید مذہب ہے جس نے تمام مذاہب کی نسبت گھر کے ادارے کو بہترین طریقے سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس کی ایک مثال سے وضاحت زیادہ ضروری ہے جبکہ اسلام کو گھر کے ادارے کے طور پر پڑھا جائے تو مزید سمجھا جاسکتا ہے۔ اسلام گھر کے ادارے کو ایک دائرے میں مکمل طور پر باندھ دیتا ہے اسی لیے اسلامی ریاست کا بنیادی جزو بھی گھر کا تصور کیا جاسکتا ہے۔اسلام کی سیاست(جمہوریت) حسین کے قتل پر ہی ختم ہوگئی تھی۔ معاشرت گھر کے ادارے کے ساتھ ختم ہورہی ہے جبکہ مسلمان خود ہی کہتے ہیں مذہب ذاتی معاملہ ہےتوتکثیریت Pluralism ویسے بھی مابعد جدیدیت والے ہر طرف دیتے نظر آتے ہیں۔ گھر کے ادارے کا یک دائروی تصور اسلام کے ذیلی مذہب دیتے ہیں جیسے احمدی اور بہائی مذہب ہیں جبکہ عیسائی مذہب دوہری دائروی تصور پایا جاتا ہے وہ جنسی تعلقات اپنے کزن کے ساتھ نہیں کرتے اسی لیے ان سب کیلیے کزن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ عیسائیت سے پیچھے جائیں تو کثیر التعداد دائروی تصور پایا جاتا ہے ۔ ہندوؤں میں گھرکا ادارہ 5 یا 6 دائرے تک جاتا ہے۔
الحاد لوگوں سے روایتی مذہب چھوڑنے کی بات کرتا ہے تو لوگوں کے ذہنوں میں گھر کے ادارے کی بنیادیں ہلنے کی باتیں آتی ہیں رشتوں کا تقدس ختم ہوجائیگا جب مذہب نہیں رہےگا۔جوں جوں لوگ مذہب کا لبادہ اُتاریں گے توں توں گھر کے ادارے کی ازسرنوتعمیر کی ضرورت بھی واضح ہوجائیگی۔ اب ملحد راسخ العقیدہ لوگوں سے شادی کرنے پر مجبور ہیں اور دلیل دیتے ہیں یہ اخلاق مذہب نے نہیں بلکہ فطری ہے جب ملحدین کی تعداد زیادہ ہوجائیگی تب راسخ العقیدہ بھی ایسا ہی بیان دیتے نظر آئے گے۔
پاکستان میں گھر کے ادارے کی ازسرنو تعمیر کے اسباب:
پاکستان 2017 میں رپورٹ ہونے والے جنسی زیادتی والے کیس کی تعداد 27 ہزار سے تجاوز کرچکی ۔ امریکہ اور بھارت بڑے ملکوں میں زنا بالجبر کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں ایسے مسائل میں مذہب کی دی ہوئی عزت اوپر ڈال کر چھپا لیا جاتا ہے
پاکستانی لوگوں میں جنسی بھوک چہروں سے واضح ہوتی نظر آتی ہے۔ مرد و زن ایک دوسرے کے ایکسرے کرلیتے ہیں پاکستان چونکہ پدری معاشرہ ہے اس لیے عورتوں کے پاس پستان، کمر اور کولہیں بہترین ہتھیار تصور کیا جاتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں عورتیں خود برسر روزگار ہورہی ہیں مرد کے نان نفقہ کی ذمہ سےخود پر انحصاری بڑھ رہی ہیں۔ تعلیم کے حصول سے اپنے حقوق کی نشاندہی بڑھنے سے خود اعتمادی بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں آپ کے اردگرد ماحول میں کئی مردوزن ملیں گے جنہوں نے آپس میں آزاد تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں۔ یہ تعلقات کئی لڑکے لڑکیوں نے شادی سے پہلے قائم کئے ہوتے ہیں جبکہ ان سے بھی زیادہ شادی شدہ حضرات نے قائم کئے ہوتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں فاحشہ Female Prostitution کے کئی منظم ادارے موجود ہیں اس کے ساتھ ہی مردانہ فاحش Male Prostitution بھی کافی تعداد میں ملیں گے۔
کوئی بھی معاشرہ جنسی قید میں رہ کر ترقی نہیں کرسکتا۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو جس معاشرے میں جنس دستیابی جتنی آسان ہو وہ ترقی کرتے ہیں کیونکہ جنس کسی ریاست کے گھر کا بنیادی محرک ہوتا ہے۔ پاکستان میں کچھ لوگ اکٹھے بیٹھ جائیں ان کی بات جنس سے چھو کر لازمی گزرتی ہے ہر شخص نے جنسیات میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے
جنسی اختلاط کی ویڈیوز اورمعلومات کی سب سے زیادہ تلاش پاکستان میں کی جاتی ہے بلکہ کچھ مسلمان ملکوں میں مقابلے پر تلاش کی جاتی ہے کبھی ایک کوئی عروج حاصل کرلیتا ہے اور کبھی دوسرا عروج حاصل کرلیتا ہے ۔ پاکستان 2017 میں Gay and Lesbian تلاش میں دوسرے ملکوں میں سب سے آگے نکل گیا تھا
شادی کے بندوبست Arrange Marriagesبُری طرح فیل ہوتی نظر آرہی ہیں۔ لڑکے والے لڑکی کو دیکھنے میں حور پَری اور کام کرنے میں خادمہ نظر آئے چاہتے ہیں جبکہ لڑکی والے لڑکے کو ہیرو ہو چاہتے ہیں سرکاری ملازم بھی ہو، اچھی تنخواہ لیتا ہو، کوئی نوکر چاکر ہو، گھر اپنا ہو وغیرہ وغیرہ اس لیے دیکھا جاتا ہے کہ خاندان میں ہماری ناک اونچی ہوگی یہ بالکل نہیں دیکھا جاتا کہ یہ دونوں اذدواجی زندگی کتنی اچھی بسر کرسکتے ہیں۔ اسی کھیل میں لڑکے لڑکیاں اپنی جنسی زندگی کا بیشتر حصہ گزاردیتے ہیں کئی لڑکیاں تنہا اپنی زندگی گزاردیتی ہیں۔ آخر یہ مذہب کب تک پردہ ڈالتا رہے گا بالآخر یہ مذہب کا پردہ لوگ اُتار کر پھینک دیں گےیورپ اور امریکہ کی طرح یہ بھی سیکھ لیں گے کہ کیسے آزاد تعلقات قائم کئے جاسکتے ہیں حالانکہ مسیحیت میں طلاق کا تصور ویسا نہیں ہے جیسا اسلام نے پیش کیا تھا اس وجہ سے بھی لوگ آزاد تعلقات کی طرف ویسی رغبت نہیں رکھتے۔ لیکن اب لوگ طلاق کا حق عورت کو برابر دینے کیلیے جدوجہد کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف طلاق کی شرح میں پہلے سے اضافہ ہوتا جارہا ہے
زرعی دور سے نکل کر انسان نے جب صنعتی دور میں قدم رکھا توجنس سے انسان کی ایسی دوری پیدا ہوئی ایک طرف والدین بھی نہیں بتاتے اور دوسری طرف زرعی دور میں انسان جانوروں کے جنسی تعلقات سے کافی معلومات اکٹھی کرلیتا تھا وہ بھی ممکن نہیں رہا۔ یہ جنسی ہیجان شہری زندگی میں کافی تیزی سے بڑھتا جارہا ہے حالانکہ ہمارے آباو اجداد یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے دور میں عورت کھلی تجوری تصور نہیں کیا جاتا ہےاور نا ہی ڈر رہتا تھا کہ کوئی بھی شخص اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کرچلا جائےگا عورتیں جنہیں مردوں نے گھروں میں محصور رکھا ہوا ہے وہ جنسی عدم تحفظ کا شکار کبھی نہیں ہوئیں تھی جتنی اس دور میں ہیں۔ پاکستانی عورتیں منہ پر نقاب چڑھا کر پھیرتی ہیں اور وہ جو فاحشی پھیلاتی جاتی ہیں دونوں کے ذہن میں سیکس ہی ہوتا ہے ۔ پاکستانی لوگ ایک دوسرے کے کرداروں کو نہیں دیکھتے بلکہ جنسی اعضاء سمجھتے ہیں
مرد اور عورت کے جنسی اعضاء کی صورتوں میں تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ موجودہ دور میں مرد و زن اپنے اپنے غرور میں مارے جارہے ہیں حالانکہ دونوں طرف لاوا اُبل رہا ہوتا ہے۔ ایک دن اُبل کر بہہ جائیگا
کالج اوریونیورسٹی کے طالبات کے واش روم میں صفائی والے عملے سے موم بتی یا ایسے سخت آلات پھینکے جانے اور سیورج کے خراب ہونے کی اطلاعات ملتی ہیں ایسے ہی مرد کسی جگہ خود لذتی نہ کرلیں وہ ان کیلیے یادگار نہیں بنتی۔ یہی حرکات آزاد جنسی تعلقات کی راہ ہموار کررہا ہے صرف ایک قدم کی دوری پر معاشرے میں رائج ہوجائے گا
زرعی دور کی ضرورت تھی کہ مرد کو مضبوط ہونا چاہیے اور عورت کو کمزور۔ اسی لیے لحاظ سے دونوں کے کام تقسیم کیے ہوتے تھے اسی لیےپہلے مرد علیحدہ جنسی طور پر تیار ہوا کرتا تھا اور عورت اپنی جگہ جنسی طور پر تیار ہوا کرتی تھی۔ ایک رات دونوں کو ایک میدان میں چھوڑ دیا جاتا تھا اور صبح صبح دونوں سے علیحدہ علیحدہ کارکردگی Performance کا پوچھا جاتا تھا۔ جدید دور میں ادویات کے استعمال نے ذچگی کو محفوظ بنا دیا ہے اس لیے صحت مند اور بھرپور جنسی تعلق انسان کے ذہنی و جسمانی عضلات کو تقویت پہنچاتا ہے جہاں دو مختلف سوچ رکھنے والے جنس کو دنگل کیلیے چھوڑ دیا جاتا ہے بالخصوص صنعتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد والی عمر تک جوڑوں کی تفہیم ہی نہیں بنتی۔ صرف گھر کی خاطر کردار نبہا رہے ہوتے ہیں اِس عمل سے "زرعی دور کا گھر کا ادارہ" تبدیل ہوکر از سر نو تعمیر کرے گا۔ جس سےپدری معاشرہ جہاں ہر چیز کا رجوع باپ یا شوہر کی طرف کیا جاتا ہے ختم ہوجائیگا۔ زرعی دور میں جن بچوں کو حرامی بچے کہا جاتا تھا ان کیلیے ریاستی بچے یا National Baby کا لفظ استعمال ہونے لگے گا۔ اس کا تعلق ماں باپ سے زیادہ ریاست سے زیادہ ہوجائیگا لیکن جانور بھی اپنے بچوں کو خود مختار کرنے سے پہلے قدرت کے سپرد کردیتے ہیں
جنس کی تبدیل کرنے والے لوگوں میں ظاہری تبدیلی تو نہیں آتی ہے اسی پُرانے جنسی رول پر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن اس طرح جنس تبدیلی زرعی مذاہب کے خلاف ضرور ایک قدم ہے
سوشل میڈیا نے لوگوں کو سگنل سے جوڑ دیا ہے پہلے لوگوں کا انتخاب معاشرے یا خاندان کے اندر اندر ہوتا تھا تاکہ جائداد خاندان میں رہے اب جائیداد ہندسوںCurrency کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے میل جول کو مزید آسان بنا دیا ہے کئی زرعی پابندیوں سے نکل کرصنعتی اور آئی ٹی سے آسانیوں میں تبدیلی آ گئی ہے
10، 12، حتیٰ کہ16 سالہ تعلیم پر بھی نوکری نہیں ملتی۔ بلکہ اُتنی قابلیت رکھنے والی لڑکیوں اور خواتین کو مرد پر فوقیت دی جاتی ہے۔ جوں جوں یہ نسبت بڑھے گی۔ عورت آزاد ہوگی ہے پدرانہ معاشرے کی اینٹوں سے ریت اُترے گی اور گھر کے سربراہ کی حیثیت معتدل ہونے لگے گی۔ لڑکے کو اپنی جگہ انتخاب کا موقع ملے گا اور لڑکی کو اپنی جگہ موقع ملے گا تو لزبائی Lesbian ، لواطت Sodomy کو بھی موقع ملے گا وہ کھل کر اپنے جنسی جذبات کا اظہار کریں گے۔ جس سے سیدھے Straights کے مقابلے میں مختلف جنس کے لوگ LGBTQI2S بھی سامنے آئیں گے
کپڑوں کی سجاوٹ گھر کے ادارے کی تعمیرکی ایک بہت بڑی دلیل ہے جسے مولوی بیان بھی کرتے رہتے ہیں لیکن انسان نے جنس چھپانے کیلیے کپڑے پہنے ہوئے ہیں لیکن جنس چھپانے سے زیادہ خوبصور ت لگنا زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس ہتھیار کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے بازار اسی وجہ سے بھرے رہتے ہیں دوسرے تہواروں پر دل لبھانے والے ملبوسات کے ساتھ ویلنٹائنز دن کی مناسبت سے لڑکے لڑکیاں اپنے رفیق Partner کو تحائف دے کر مذہبی تہواروں سے زیادہ محظوظ ہوا جاتا ہے حالانکہ اس تہوار کے منانے پر پابندی ہے پھر بھی تفریحی گاہوں میں سرعام پکڑے بھی جاتے ہیں۔ مذہب کے نام سے پردہ کب تک ڈالتے رہے گےایک دن مذہب کا پردہ ہی پھاڑ دیں گے۔ ادارے کے بڑے بڑے عہدے داران، یونیورسٹی کے طلبہ طالبات سرعام تعلقات قائم کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں جمعیت کے لوگ کئی بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی ان کو منع کرسکے۔ کیونکہ منع کرنے یا شکایت لگانے والے خود پھنس جاتے ہیں۔ دیکھنے والے دیکھی ان دیکھی کردیتے ہیں کیا یہ اس کی ترقی یا افزائش کا رستہ نہیں ہے؟ کچھ لوگ تو کھلے عام جنسی عمل کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم ایڈوینچر کر رہے ہیں
گھر کے ادارے کے ثانوی کردار Secondary Characters تو پہلے چھپ چھپا کر جنسی تعلقات قائم کرلیتے تھے۔لیکن شہری زندگی نے یہ حوصلہ بنیادی محرموں Primary Characters نے جگاڑ لگانا شروع کردیا ہے۔ کئی باپ بیٹی، ماں بیٹے اور بہن بھائیوں کے تعلقات کی خبریں الیکٹرانک میڈیا پر منظر عام پر نظر آتی ہیں۔ اسی وجہ سے جنسی تحفظ ماں باپ سے زیادہ ریاست کی ذمہ داری ہے جنسی تعلیم کی مخالفت کرنے والے یہ بیان دیتے ہیں کہ وہ جنسی عمل سیکھانے والی باتیں ہونگی لیکن انہی محرموں کے ساتھ جنسی تعلقات کے روک تھام میں کتنی پیش رفت کی ہے یہانتکہ محرم نے اپنے بیٹے یا بھائی، بیٹےیا پوتے، بیٹے یا بتیجےیا بھانجے یا کس کو جنم دیا ہے؟
پہلے عورت کو ایک پہیلی سمجھا جاتا تھا کیونکہ عورت کسی مرد کو سمجھ نہیں آتی تھی۔ عورت کو موضوع سمجھنے والے مرد ہی ہے کیا کبھی پدرانہ نظام میں کسی عورت نے دعویٰ کیا تھا کہ مردوں کی ذات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ کئی مردوں نے عورتوں کو کتے ، بلی، گائے، بکری وغیرہ کی نسلوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ جب مرد اور عورت اکٹھے ہونگے ایک دوسرے کو موضوع سمجھنے کے بجائے معروضی سمجھے گے ان کا یہ گلہ بھی ختم ہوجائے گا
پہلے مرد عورت پر چڑھ کر جنسی تشفی حاصل کیا کرتا تھا ۔ عورت سامنے لیٹنے پر مجبور ہوتی تھی اور مرد کو محظوظ کرنے کی تمام تر ذمہ داریاں عورت پر عائد ہوتی ہیں ۔ جسے مرد حدیثوں سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اب عورت مرد باہم جنسی عمل کو زیادہ سے زیادہ محظوظ ہوتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ عورت کے فرائض علیحدہ اور مردکو حقوق اعزازی دے دئیے گئے ہوں
خاندان ، قوم کی تشہیر میں بھی تبدیلی آگئی ہے ۔ صنعتی انقلاب پر فوراً ہجرت کرنے والوں نے اپنے طبقات اونچے کرلئیے ہیں اور کم ذات والوں نے اپنی ذات بھی تبدیل کرلی تھیں۔ جن کمیوں نے اپنی ذات تبدیل نہیں کی تو انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر، انجنئیر، بیرسٹر، علامہ، مولانا، پیر، مفتی، کمشنر، فوجی اور سول رینکس بتانے لگ گئے۔ اس کے علاوہ کاروباری لوگوں نے اپنے راسخ آباو اجداد کے ناموں سے سفر شروع کئیے۔ اس کے باوجود خاندانی تلخیاں بڑھتی جارہی ہیں خاندان کے سربراہ کی حیثیت مٹی میں ملتی جارہی ہے ۔ چھوٹے بچوں کی حیثیت پر سربراہ کو قربان کردیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے خود فیصلہ کرلیتے ہیں سربراہ ان کے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں سب کچھ ہار کر کہتے ہیں چلو اتنی آزادی تو دینی چاہیے کہ اپنا فیصلہ خود کرسکیں
طبقاتی تقیسم کے حوالے سے: کام کرنے والی عورتیں گھر کے موٹے موٹے کام کر جاتی ہیں اسی طرح آن لائن سروس دینے والے گھر آ کر سروسز مہیا کرجاتے ہیں ایک تو گھر میں کام کرنے کے کم ہوگئے ہیں۔ گھر میں آنے والے سروسز دینے والے کچھ مزید بھی سروسز بھی دے جاتے ہیں۔ فارغ عورتیں موبائل پر لگی رہتی ہیں لوگوں کی زندگیوں کوپرسکون سے رہنے نہیں دیتی جبکہ نوکری کرنے والی عورتیں خوشحال زندگی گزارتی ہیں مالی اور ازدواجی زندگی بھرپور گزارنے لگ گئی ہیں
لباس مغربی طرز کا اپنایا جارہا ہے۔ ایشائی یا ہندی یا اسلامی ملبوسات کو حقیر سمجھا جاتا ہے ڈوپٹہ علامتی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ پستانوں اور کولہوں پر اضافی پیڈ لگا کر واضح کیے جاتے ہیں جبکہ مرد نمبروں سے واضح کرکے محظوظ ہوتے ہیں
پہلے ایک ہی جگہ پر پورا خاندان رہتے تھے بلکہ ایک گاؤں میں ایک ہی نسل کے لوگ رہتے تھے پھر شہری زندگی نے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں ان کو تقسیم کیا اس پر مالیت کی چھاپ چڑھادیا ۔ میڈیا والوں نے جنس کو لطف، خوشی سے تعبیر کیا۔کسی کے ناجائز تعلقات سے بچہ پیدا ہوجائے تو اُسے بُرا تصور نہیں کراتے۔ پہلے بڑے خاندان کیلیے شوربے والا کھانا پکایا جاتا تھا جہاں سب کھاسکتے تھے لیکن شہر میں کوئی مہمان اچانک آجائے تو بُرا محسوس کیا جاتا ہے۔ مصروف زندگی نے لوگوں کیلیے کئی تبدیلیاں لائی ہوئی ہیں۔ہر شخص گھر کا جاسوس ہوتا تھا کئی کوئی غلطی کرتا پکڑا جائے تو اس کی سرزنش کی جائے لیکن اب ہر کوئی اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے
کھلے ذہن Open Mindedکے لڑکے لڑکیاں غلط نہیں ہوتی۔ ان کے مقابلے میں محفوظ ذہن Reserved لڑکے لڑکیاں ذرا سی بات پر شلوار اُتار کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ چوت مَروانا عورت کیلیے بُرا عمل اتنا نہیں رہا جتنا مرد کو مارنے پر فخر ہوتا تھا۔ دونوں کی باہم جنسی تشفی ہوتی ہے۔ اب جنسی بیماریاں بھی اس رستے کی رُکاوٹ ہے لیکن یہی جنسی بیماریاں ارتقاء کا سبب بھی بنتا ہے۔ ہمیں اپنے جنسی عمل کے میدان کی توسیع اور عریانی کی از سر نو تعمیر بھی کرنی ہوگی۔ مرد اور عورت کے تعلقات زیادہ جنسی تشفی پر مبنی ہوتے جارہے ہیں جو بہترین اور مضبوط تعلقات کی ضمانت ہے لیکن اس کے ساتھ منسلک گھر کے ادارے کی بھی ضرورت فکر کرنی چاہیے جو ریاست کا بنیادی جزو ہے۔ یا تو بچوں کی پرورش کی تمام تر ذمہ داریاں ماں باپ سے زیادہ ریاست کے سپرد کردئیے جائیں جیسے ڈے کئیر سنٹر میں ہوتا ہے یا پھر عورتوں کے معاملات پر نظر ثانی کی انتہائی ضرورت ہے۔ یہ نظرثانی گھر بنانے والے ہر ادارے پر عائد ہونی چاہیے جس میں نان بائی سے لے کر ریاست کے اعلیٰ عہدیدران پالیسی بنانے والوں پر بھی صادر آتی ہے۔ ماں باپ کے کردار کی ذمہ داریاں مذہب نے ڈالی ہیں ۔ صنعتی ترقی سے لوگوں کا انحصار صنعتوں پر بڑھنے لگا۔ کارل مارکس نے وسائل ریاست کے پاس رہنے پر آواز اُٹھا کر انسان کو صنعت کے دائرے میں مقید کردیا۔ آئی ٹی کی ترقی سے سیکیورٹی معاملات مزید کھل کر سامنے آنے لگ گئے ہیں جس پر مزید قانون سازی سے ریاست پر انحصار بڑھے گا۔ اگر ریاست اخلاقیات کا تعین کرے گی تو مذہب کے بنیادی اخلاقیات یکسر تبدیل ہوجائیں گے۔ ہندوستان میں طلاق کے کچھ مسائل پر عدالت نے بات کی تو مسلمان اتحاد کرکے ان کے خلاف ہوگئے حالانکہ وہ گھر کے ادارے کیلیے مضبوطی کی دلیل تھی۔ پھر ایسا ممکن نہیں رہے گا
گھرکے ادارے کی نوعیت جو زرعی دور سے تعبیر کی جاسکتی ہے کسی بھی لحاظ سے ازسرنوتعمیر کے عروج پر پہنچ چکی ہے پاکستان میں حرامی بچوں کیلیے ایدھی سینٹر بنے ہوئے ہیں جہاں والدین کی شفقت ادارہ مہیا کرتا ہے اِسی طرح وہ قومی بچے National Baby کی پرورش ریاست کرے جوانی پر اپنے لیے پسندیدہ رفیق چُن لیا جائے اور بچے پیدا کرکے ریاست کے حوالے کردئیے جائیں جیسے۔۔۔!
جن لوگوں نے طوطے رکھے ہوئے ہوں ان کو اندازہ ہوگا کہ کیسے بڑے پنجرے میں طوطے اپنا اپنا رفیق تلاش کرلیتے ہیں پھر ان کو چھوٹے چھوٹے پنجروں میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں آسانی سے انڈے دے کر بچے پیدا کرسکیں پھر ان بچوں کو بڑے پنجرے میں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ رفیق کا نتخاب کرلیں۔
جنسی کھلونوں کی بناوٹ اور بیچنے سے لوگ کی خود لذتی میں نیا موڑ آیا۔ کچھ لوگ جنسی رفیق کے بجائے مجسموں سےلطف اندوز ہونے کو ترجیح دینےلگے ہیں
جینیاتی انجئینرنگ والوں کا دعویٰ ہے کہ انسان کی پیدائش لیبارٹری میں بھی ممکن ہوجائے گی تو انسان صرف جنسی لذت تک محدود ہوجائیگا کئی ممالک میں والدین نے ابھی سے بچوں کی تعداد کافی کم کردی ۔ پاکستان جیسے ملک سے مزدور جاکر کام کرتے ہیں۔ پدرانہ معاشرے میں بچوں کی تعداد پر فخر کیا جاتا تھا لیکن اب چوپائے اور اولاد کی تعداد پر فخرکرنے کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے زندگی ایک بار ملتی ہے اس کے مقاصد موضوعی نہیں بلکہ معروضی ہیں
گھر کے ادارے کی تعمیر کے بعد مذہب نے اسے جذبات سے سینچا ہے۔ ایک ماں اپنے بچے کیلیے جان دے دیتی ہے باپ ساری زندگی شفقت کا ہاتھ سر پر رکھی رکھتا ہے۔ بہن بھائی شادیوں سے پہلے کل کائنات سمجھتے ہیں لیکن ایک لڑکی اپنے ماں، باپ ، بہن، بھائی تمام خاندان والوں کی عزت، جبر، شفقت، ممتا کو روندتی ہوئی اپنے پیار کوپانے کیلیے چلی جاتی ہے اس جذبے میں انتہائی طاقت پائی جاتی ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“