18 سے 20 کے دروان دو دفعہ تو محض کھانا کھانے کیلئے لاہور چلے گئے۔ 20 مارچ کی رات 3 بجے گھر پہنچے تو شاھی فرمان نے دروازے پر ہی دھر لیا۔
"صبح سے گھر سے نکلنا بند۔۔"
بڑا بیٹا ہونے کیوجہ سے مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اپنے ماں باپ کو بچے پالنا سکھایا یا یہ کہہ لیں کے میرے والدین نے بچے پالنے کا انتہائی باریک کام مجھ پر سیکھا ہے۔ لہذا سُن لیا اور حسبِ سابق روٹین آرڈر جان کر کوئی جواب دیئے بغیر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔
صبح اٹھا تو شاھی فرمان کا اثر نیند کیساتھ زائل ہو چکا تھا۔ ناشتہ کیا اور بیوی سے کپڑوں کا تقاضہ کیا تو اس نے شاھی فرمان کی یاد دلائی۔ حسبِ سابق ذرا رعب دبدبے سے 'جتنا کہا ہے اُتنا کرنے کا حکم' جاری کیا اور نہانے گھس گیا۔
باہر نکلا تو ابا جی میرے کمرے میں براجمان تھے۔ آو دیکھا ناں تاو انھوں نے میرے لتے لینے شروع کر دیئے، میں نے بیوی کیطرف غصے میں دیکھا تو کھِسیانی ہو رہی اور میرے پاس زمین بچی ناں آسمان۔ میں نے ضروری کام کا عذر لیا تو ابا جی نے اگلا فرمان جاری کر دیا۔۔
"اگر تمھیں کچھ ہوا تو میں تمھارا جنازہ بھی نہیں پڑھوں گا۔۔۔" اور یہ جا وہ جا۔۔ بات ہتھے سے نکل گئی تھی سو میں بُڑبُڑاتا ہوا ڈرائینگ روم میں آ گیا جہاں حسنی (میرا پھُپھو زاد بھائی) بیٹھا تھا۔ وہ بہیترا خاموش رہا، پھر ڈھیلا سا منہ بنا کر بولا، 'بھائی مووی دیکھیں گے؟'
میں اپنی لاچارگی پر بھِنایا ہوا تھا سو پوچھا 'کونسی مووی ہے؟' اس نے اپنا لیپ ٹاپ نکالا اور بیسیوں فلموں کا پٹارا کھول کر میرے سامنے رکھ دیا۔ اُس دن میں نے دو فلمیں دیکھیں. غیر ارادی طور پر میرا حسنی کیساتھ ڈیرہ آباد ہو گیا اور پہلے دو ہفتے روزانہ 2 سے 3 ہندی، انگریزی اور پنجابی فلمیں اپنی روٹین کا حصہ بن گئیں۔ قرنطینہ کا دوسرا دور شروع ہوا تو چھوٹا بھائی حُسین عبداللہ ہاشمی کہیں سے تاش کی دو گڈیاں اٹھا لایا۔ اب روزانہ شام کے کھانے کے بعد گھر کی عورتوں کیساتھ تین چار گھنٹے تاش بھی روٹین کا حصہ بن گئی۔ ابا جی ٹھہرے پرانے سُرخے اور وقت ضائع کرنے کے جانی دشمن لیکن قرنطینہ پالن کا یہ فائدہ ہوا کہ انہوں نے نہ کبھی گھورا نہ ہی تاش پر بیٹھے انکی آمد سے سانس خشک ہوئی۔ ایکدن انہوں نے گزرتے گزرتے پوچھا "تمھیں سیپ کھیلنی آتی ہے؟" میں بولا 'آپ آ جائیں' تو وہ سامنے آن بیٹھے۔ میں نے پتے بانٹے، اور جیسی سیب انکی یاداشت سے برآمد ہوئی، میں نے چپ چاپ کھیل ڈالی۔
اتنا کہنے کی ہمت بھی نہ ہوئی کہ وہ بہت سے اضافی اصولوں کیساتھ سیپ کھلوا رہے ہیں۔ چھوٹی بہن نے ہمیں کھیلتے دیکھا تو اس نے کیمرا کھولا اور حیرتوں سے بھرا یادگاری فوٹو شوٹ کر ڈلا۔۔ اگلے دن تاش کے وقت میں فلم دیکھ رہا تھا تو لڑکیوں نے ابا جی کو میرے پہنچنے تک ہماری فیورٹ گیمز بھی سکھا دیں اور یوں تاش کے ریکارڈ والی ڈائری میں ابا جی کے نام کا اضافہ ہو گیا۔
انہی دنوں ایک دوست کا فون آیا جو ملاقات کا متقاضی ہوا۔ میں نے صاف انکار کیا اورمجبوری بتا کر معذرت کر تو لی مگر دورانِ گفتگو قرنطینہ کے بعد معاشرتی مزاج میں آنے والی تبدیلیوں پر بات نکل پڑی۔ دورانِ گفتگو ایک جملہ ہوا جسکا جوہر آجکے مضمون کا عنوان بنا ہے۔ میں نے بیساختہ کہا کہ "قرنطینہ نے ہمیں ہر گھر میں موجود اللہ میاں کی دوبارہ شناخت کروا دی ہے"
جو بڑا ہو جانے کے زعم میں ہم سارے بھولے بیٹھے تھے۔ ہر گھر میں ایک بندہ ایسا ہے جسے گھر میں موجود سب لوگوں کی ایسے فکر ہے جیسے اللہ کو اپنے بندوں کی۔ وہ آتے جاتے سب کو کرونا کرونا کر کے بھلے چِڑاتا ہی ہو لیکن اُس نے مرغی کیطرح اپنے مآل کو پروں تلے چھُپا رکھا ہے اور کسی بھی قیمت پر وہ اس ڈیوٹی سے غافل ہونے کو آمادہ نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر اس نے خود دن میں بیسیوں بار ہاتھ دھوئے اور دوسروں سے بھی دھلوائے۔
ہم بچوں نے لاکھ بیس اکیس کی کوشش کی، کام دھندے کی فکریں جتائیں، تو وہ بولا، آگ لگے کام کو۔۔ مجھے تمھارے پیسوں کی نہیں تمھاری ضرورت ہے۔ مہینہ گزرا، دو مہینے گزرے اور اب تیسرا مہینہ گزرنے کو ہے۔ ناں وہ اپنے فرض سے پیچھے ہٹا ناں ہی اس نے کسی اور کو بدکنے دیا۔ احساس ہوا کہ اللہ اوپر آسمانوں پر شائید ہے بھی کہ نہیں، وہ تو ماں باپ کی صورت ہر گھر میں موجود ہے۔ جہاں خدا نخواستہ والدین نہیں وہاں کسی بھائی کسی بہن نے یہ ذمہ اٹھا رکھا ہے اور خود پر مُنحصر لوگوں کی اچھے برے میں رہنمائی سے لیکر کھانے پینے اور دوا دارُو تک سب کچھ ایک اسی نے ازخود اپنے ذمے لیکر اپنی ذات، اپنی میں کی نفی کر رکھی ہے۔ کوئی ستائش کرے نہ کرے، وہ ڈٹا رہتا ہے، کوئی سمجھے نہ سمجھے وہ کرتا رہتا ہے۔اور جب احساس ہوا تو بڑی شرم آئی اپنےآپ پر۔ ایک لڑکا خصوصاً بڑا بیٹا، جوان ہوتے ہوئے کیسے میں میں کرنے لگتا ہے۔ اپنی مرضی، اپنی زندگی کے بازاری جملے استعمال کرتا ہے اور وہ بھی ان لوگوں کے سامنے جو اسکے کالج کی فیس اکٹھی نہ ہو تو ٹینشن لیکر شوگر کروا لیتے ہیں۔ میں کبھی ایک اچھا بیٹا نہیں تھا، ہڈ پیر نکلنے شروع ہوئے تو گُدی سے گز بھر لمبی زبان بھی نکل آئی۔ عام انسانوں کیطرح ہاتھ پاوں لوگوں پر اور زبان گھر والوں پر چلانی شروع کر دی۔
قرنطینہ میں یاد آیا کہ جب میں 'اپنے بچہ نہ ہونے کی' شوخیاں بھگارتا تھا۔۔ اس وقت بھی میرے تن پر کپڑے اور پیٹ میں روٹی انہی شریف لوگوں کی کمائی کی تھی۔ دونوں میں سے کسی ایک نے بھی پلٹ کر کہ نہیں بولا کہ "اگر تُم بڑے ہو اور یہ زندگی بھی تمھاری ہے تو ہم پر کیوں پڑے ہو، چلتے بنو۔۔"
ایک دن حسبِ عادت یہ ڈائیلاگ مار کر اپنے کمرے میں گیا ہی تھا کہ امی کے قہقہے کیساتھ آواز آئی۔۔
"او ویکھ میری زندگی، علی۔۔۔ جلدی آ مُنڈیا"
میں حیرت ذدہ کم کھِسیانا سا ہو کر باہر نکلا تو سامنے جون جولائی کی ناقابلِ برداشت گرمی میں ایک بلی اپنے چند دن کے بچوں کو منہ میں اٹھا اٹھا کر لکڑیوں کے ڈھیر میں چھپا رہی تھی۔ بچے ماں کو ستانے کیلئے بار بار باہر نکل آتے پر وہ پیر جھُلسا دینے والی لُو میں بھی تھکتی ہی نہیں تھی۔۔ اُس دن بڑی شرم آئی اور اسکے بعد جب گھر میں موجود اللہ میاں کے رُوپ کا احساس ہوا جو تمام عمر ساری دنیا سے ایک میرے لیئے لڑتا آیا تھا۔
گوتم بدھ نے کہا تھا،
"اس دنیا میں تمھارے سب سے بڑے دیوتا تمھارے ماں باپ ہیں"
میرے من مندر کی دیوی، میری ماں تو آج سے ٹھیک پانچ سال پہلے اپنے مولا کی بارگاہ کو سِدھار گئی تھی، اب میرے پاس صرف میرے رب کی رضا باقی ہے، تو پھر جو اُسکی رضا وہی میری رضا۔۔ کاش ہم سب اپنے اپنے گھر میں موجود رب کے روپ کی قدر کر سکیں۔ کاش ہم انسان سے بندے بن جائیں۔۔
“