گھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(چند سال قبل کی ایک تحریر جب ابھی فیملی سمیت اسلام آباد منتقل نہیں ہواتھا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کی طرف عازم ِ سفر ہوں۔ اسلام آباد کا موسم بہتر تھا۔ اب بہتر موسم سے حبس اور شدید گرمی کے جہان میں داخل ہونا ہے۔ اگست کی آخری تاریخیں ہیں لوئر پنجاب کے مشرقی، میدانی علاقے جہاں اس موسم میں پیڑوں پہ پھل پکتے ہیں اورگھروں میں کنکریٹ اور اینٹ بجری کے تنور، گویا بجھا کر ڈھک دیے جاتے ہیں۔ اسلام آباد سے خوشاب تک کا راستہ دیدنی ہے۔ ایسے میں اگر بادل ہوں یا بارش ہوجائے تو من کی دنیا چند لمحوں کو حالتِ قبض سے باہر آجاتی ہے۔
گھر پھر بھی گھر ہے۔ وہاں بچے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے جاندار کھلونے جن سے کھیلنا جرم ہے لیکن ہم کھیلتے ہیں۔ کون واقف ہے اس کیفیت سے جب اپنے ہی بچوں پر ترس آتاہو۔ ایک مرتبہ میں نے ایک شعر کہاتھا،
میں ہفت افلاک سے آگے کھڑا ہوں
مرے گھر بار پیچھے رہ گئے ہیں
اور گھر میں والدین بھی ہیں، جن کے آپ کھلونے تھے۔ وہ بھی آپ سے کھیلے اور خوب کھیلے۔ کھیل تو کھیل ہے۔ ہم والدین اپنے کھلونوں کے ساتھ ایسے کھیلتے ہیں جیسے بلی چوہے کے ساتھ کھیلتی ہے۔
بیگم نے فون پر کہا،
’’اب پردیس میں رہنا چھوڑ دو! بچے بگڑ رہے ہیں۔ بچوں کے ساتھ باپ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ علی نے موبائل توڑدیا۔ ہالہ نے ٹی وی کا ریموٹ۔ ٹی وی کے بٹن بھی کام نہیں کرتے۔ اب وہ ان میں جھاڑو کے تنکے ٹھونس ٹھونس کر چینل تبدیل کرتے ہیں۔ استری کا سوئچ تو میں نے خود بدل لیا تھا لیکن واشنگ مشین کے پہیے مجھ سے نہیں لگتے۔ اور ابھی تک تم نے موٹر اور واٹرپمپ پر چھت نہیں لگوائی۔ ہروقت بارش کے ڈرسے اوپر کوئی نہ کوئی چیز رکھ دیتی ہوں‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا، ’’کیا چیز رکھتی ہو؟‘‘
کہنے لگی، ’’کپڑے دھونے والی لوہے کی پرات‘‘
وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ بجلی کی موٹر کو بارش سے بچانے کے لیے اس پر لوہے کی پرات؟
میں نے قدرے تلخ لہجے میں کہا،
’’تمہارا دماغ چل گیا ہے۔ موٹر پر لوہے کا تھال رکھتی ہو۔ وہ بھی بارش کے وقت؟‘‘
۔۔
گھر، جہاں زندگی کے آثار ہیں۔ جہاں بچھڑنے والوں کی یادیں ہیں، جہاں شکوے ہیں، جھگڑے ہیں۔ جہاں میٹھی بولیاں بولتے اور چہچہاتے پرندے ہیں اور اُن کے سُریلے نغمے اور گیت۔
گھر، جہاں بزرگ والدین ہیں۔ جو چڑیا کے بچے کی طرح ہروقت دعاؤں کے لیے منہ کھولے رکھتے ہیں۔ ماں کے چہرے پر کرامت کی وہ زیبائی جس کے سامنے ہر دلیل کی رعنائی ماند پڑجاتی ہے۔ ماں، وہ جس کی ایک نظر پڑتے ہی یوں لگتاہے جیسے کسی نے درود پڑھ کر پھونک مار دی ہو۔ جب تک تم بیٹھے رہو وہ اپنے آنسو پیے رکھتی ہے۔ جونہی تم اُٹھو وہ روپڑتی ہے۔
’’ہائے میرا بچہ! تیرا چہرہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا‘‘۔
اور باپ جو چل پھر نہیں سکتا لیکن تمہیں دیکھتےہی اُٹھ کر گلے لگانے کی کوشش کرتا ہے اور ادھورا سا چارپائی پر گرجاتاہے۔ وہ جس کے کانپتے ہاتھوں کا لمس دنیا کے ہرخوف سے آن ِ واحد میں چھٹکارا دلانے کے لیے کافی ہے۔ ’’آگیا میرا پُتر! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اور پھر اگلے لمحے سیاست پر گفتگو شروع۔ نوازشریف بےوقوف ہے۔ عمران خان ایجنٹ ہے۔ تم نے فُلاں کا بیان سنا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اسلام آباد میں تھے۔ کوئی حکومتوں کی خبریں سناؤ نا‘‘۔
میرا باپ جو ایک جابر، بہادر اور نہایت بےباک انسان تھا۔ جس کی ایک گرج سے اچھے خاصے دل گردے والے لوگ دہل جاتے تھے، اب دوچار باتیں کرکے چپ ہوجاتاہے۔ یا کوئی کوئی بات کرتاہے کسی کسی وقت۔ لیکن اس کی آنکھوں میں زندگی کے جو چراغ میں اپنے بچپن میں جگمگاتے دیکھتا تھا وہ آج بھی اُسی آب و تاب سے چمک رہے ہیں۔ آج کل ان کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے مجھے ایک مستقل موضوع ملا ہوا ہے۔’’عمار خان ناصر‘‘۔ آج ان سے ملتے ہی وہ عمار خان ناصر کی نئی خبریں پوچھینگے اور میں باوجود کوشش کے درست خبریں نہ سناپاؤنگا۔ ورنہ انہیں زیادہ دکھ ہوگا۔
گھر، جہاں احسن امین آتاہے۔ وہ ایٹمی سائنسدان جسے اپنے پیشےاور کام سے زیادہ ’’لوک محاوروں‘‘ کی صحیح ادائیگی کی فکر ہے۔ جو منیر ایاز کا متبادل تو نہیں لیکن مجھے اس سے منیر ایازؒ کی خوشبُو آتی ہے۔
گھر، جہاں منیر ایازؒ آتاتھا اور جو اب نہیں آتا۔ کیونکہ وہ مجھے چھوڑ کر چلاگیا ہے۔ بے وفادوست مجھے پسند نہیں اس لیے میں اس کا ذکر ہی کیوں کروں۔
لیکن اس بار سوچا ہے۔ فیملی کو بھی اسلام آباد لے آتاہوں۔ بیگم ٹھیک کہتی ہے، بچوں کے ساتھ باپ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اب ویسے بھی ان کا فزکس، کیمسٹری پڑھنے کا دور ہے اور بزعم خود انہیں مجھ سے اچھا ٹیوٹر کہاں مل سکتاہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“