میں نے اپنے اساتذہ سے سنا تھا کہ غنی خاں کسی بھی پاکستانی زبان میں موجودہ دور کا سب سے بڑا شاعر ہے مگر پاکستان میں اردو نہ لکھنے والے اس بڑے شاعر کو پہچان کیسے ملتی کہ ایک تو ریاست کی سرکاری زبان نہیں لکھتے اور دوسرا ایک ایسے گھرانے سے تعلق، جس کو غدار سمجھا جاتا اور اس گھرانے میں بھی وہ اس گھرانے کی مین سٹریم سے الگ رہے، اس لیے حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس عظیم پاکستانی شاعر کو اس کا مقام نہیں مل سکا
فیض اللہ نے آج اس شاعر کے بارے میں لکھا ہے
غنی خان کا المیہ یہ تھا انہیں عوامی نیشنل پارٹی یا پشتون مفکرین اور صحافیوں نے کبھی اردو زبان میں متعارف کرانے کی خاص کوشش نہیں کی مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی نئی نسل کا قابل ذکر حصہ غنی بابا کو جانتا ہی نہیں ہوگا علاقائی شعراء ادیبوں کی بے توقیری ویسے بھی نئی بات نہیں ۔
غنی بابا صرف ایک شاعر یا ادیب نہیں انکا مقام اس سے کہیں بلند تر تھا ایک عظیم فلسفی سیاست دان صوفی مصور مجسمہ ساز غرض زندگی کتنے ہی پہلو ہیں اور ہر پہلو کئی رنگوں سے بھرپور ۔
ذاتی حیثیت میں مجھے انکی ساری شاعری یا فلسفے سے اتفاق نہیں لیکن اسکا ایک بڑا حصہ اس قابل ہے اسے سنا جائے اسکا اردو انگریزی زبانوں میں ترجمہ ہو اور لوگ جان پائیں کہ کیا ہی بلند قامت انسان تھا ۔ غنی خان خود کو لیونے فلسفی یعنی پاگل فلسفی کہتے انکی زندگی بھی بھرپور و ہنگامہ خیز رھی جیلیں کاٹیں انتخابات حصه لیا کامیابی سمیٹی پشتونوں کی نمائندگی کی امریکہ سے تعلیم مکمل کرکے وطن لوٹے تو باچا خان نے ہندوستان بھیج دیا اندرا گاندھی کیساتھ رابندرناتھ ٹیگور کے قائم کردہ ادارے میں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے لگے دماغ کے تیز تھے اپنا کام نمٹا کر دوسری کلاسوں کیطرف نکل جاتے وہاں مجسمہ سازی کے شعبے پہنچے اور طلبہ کیساتھ کام شروع کردیا صلاحیت فطری تھی تو دیکھتے ہی دیکھتے وهاں سکھائے جانے والے آرٹ میں طاق ہوگئے ایک بار باچا خان آئے تو یہ سب دیکھ کر بدمزہ ہوئے واپس چار سدہ لے گئے گو کہ ادارہ کے سربراہ نے گاندھی جی تک سے سفارش کرائی کہ باچا خان سے کہیں کہ اسے ہمارے پاس چھوڑ دیں ایسا ہیرا لاکھوں میں ایک ہوتا ہے لیکن وہ نہ مانے ۔
ایک دن باچا خان ولی خان اور غنی خان ساتھ بیٹھے تھے کہ غنی خان نے فرمائش کی کہ مجھے نئی گاڑی درکار ہے باچا خان بولے جتنی زمین ولی کو دی ہے اتنی ہی تمہارے پاس بھی ہے ولی گاڑی رکھ سکتا ہے تو تم کیوں نہیں ؟ غنی خان بولے پھر اسکا نام غنی میرا ولی رکھنا تھا تاکہ کچھ بچا کر بھی رکھتا اب اگر آپ گاڑی نہیں دلاتے تو آپ ہی کی کچھ زمین بیچ کر گاڑی خرید لوں گا ۔ اسفندیار ولی خان کہتے ہیں کہ کچھ دنوں بعد غنی خان نئی نویلی گاڑی کے ہمراہ گھر آئے دلچسپ بات یہ ہے کہ وعدے کیمطابق غنی خان باچا خان کی زمین ٹھکانے لگاچکے تھے گھر پہنچ کر باچا خان کو باهر لیکر آئے گاڑی میں ساتھ بٹھایا اور لمبا چکر کاٹ کر واپس آئے باچا خان مسکرا کر کہنے لگے شین ٹغ (مطلب کنچی آنکھوں والا ) نے بہت اچھی گاڑی نہیں خرید لی ؟ اسفند یار نے کہا مجھے اپنی زمین بیچنے دیں اس سے بھی بہترین گاڑی خرید کر دکھاؤں گا ۔
افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ جوانی کے دنوں میں غنی خان سے تسلسل سے ملاقات رھتی جب ملنے جاتے تو رات رکنا ضروری ہوتا کیونکہ غنی خان کہا کرتے کہ یہ کوئی ریسٹورنٹ نہیں کہ آدھا ایک گھنٹہ بیٹھ کر واپس چلے جاؤ گے ایسے ہی ایک بار افرسیاب خٹک انکے ساتھ چار سدہ سے واپس جارہے تھے کہ مہمند کے مزاروں کو دیکھا جو وہاں کام کر رہے تھے ، غنی خان بولے میں سمجھ گیا تم کیا کہنا چاھتے ہو ، یہی کہ یہ زمینیں انہی کسانوں کو کیوں نہیں دے جاتیں ۔ بات یہ ہے کہ زمین کی ملکیت کا بھی اپنا ہی ایک نشہ ہے جب انسان کہتا ہے کہ یہ اتنے رقبے میرے ہیں تو اس میں الگ طرح کا سرور پیدا ہوتا ہے ۔ پھر مسکرا کر کہنے لگے خدا نے لینن کو اتنا بڑا دماغ دیا تھا تھوڑی سی زمین بھی دے دیتا تو وہ یہ سب باتیں نہ لکھتا ۔ افراسیاب خٹک کے مطابق غنی خان بدھا سے بھی متاثر تھے اس حوالے سے مصوری و مجسمه سازی کرتے رھتے وه یه بھی کها کرتے که گندھارا تہذیب کے آثار بتلاتے هیں که پشتون مجسمه سازی میں بهت آگے تھے لیکن بیرون سے حمله آوروں نے سب تباه کردیا اور پشتون اپنی روایات سے دور هوگئے۔
ایک بار گھر میں سجی محفل میں باچا خان نے غنی خان سے کہا کہ یہ تم نے کیا قوم کے بچوں کو شاعری کے پیچھے لگا دیا ہے ؟ تمہیں چاھیئے کہ کوئی سنجیده کتاب لکھو ۔ روایات کے مطابق غنی خان احترام میں ہاں جی ہاں جی کہتے رھے اور والد کے جاتے ہی ولی خان سے کہا جو باتیں باچا خان جلسوں اور محافل میں کرتے ہیں ایسی تو میں گھنٹوں میں درجنوں کتابیں لکھ ڈالوں لیکن میری شاعری خون جگر سے لکھی گئی ہے یہ میرا درد اور سوز ہے جو الفاظ کی صورت میں باھر آتا ہے اور کتنے ہی شعر جلا چکا ہوں کہ میرے معیار پہ پورے نہ تھے غنی خان کی کلیات کے شائع ہونے کی بھی دلچسپ کہانی ہے انکی بیگم جو کہ حیدرآباد دکن کی نواب فیملی سے تھیں ، انہوں نے شاعری جو کہ مختلف کاغذوں سگریٹ کے ڈبوں وغیرہ پہ لکھی تھی یکجا کرکے ولی خان کو دیدی۔ ولی خان جس کاتب سے کتابت کراتے وہ بیچارہ ہر تھوڑی دیر بعد نفل پڑھتا اور خدا سے کہتا اے اللہ یہ کفر غنی خان کا ہے میرا نہیں میں تو صرف کاتب ہو کتابت مکمل ہونے کے بعد ایک شخص ان سے سارا مواد لیا گیا پھر اسکا اتا پتہ نہ ملا یہاں تک کہ کابل سے کلیات شائع ہوئی اور غلطیوں سے بھرپور تھی کیونکہ تصحیح نہ ہوسکی تھی ، ولی خان کهتے هیں که اٹھارویں صدی میں ایک فرانسیسی مسشترق اس خطے میں آیا اور پشتونوں په طویلتحقیق کی مثلا انکی زبان رسوم و رواج اور شاعری کے حوالے سے اور پھر وطن واپس جاکر کتاب لکھی جس سے همیں پته چلا که بڑے ناموں کے علاوه بھی کئی شاعر گزرے لیکن انهیں نمایاں کرنے کیکوشش بھی پشتونوں کے بجائے اس فرانسیسی نے کی ۔
ڈاکٹر اباسین یوسفزئی کہتے ہیں کہ پشتو شاعری کے چار بڑے ستون ہیں رحمان بابا خوشحال خان خٹک حمزہ شینواری (یہ کراچی آکر شنواری ہوچکا ہے جسکی کڑاہی بہت مشہور ہے ) اور غنی بابا ۔
ان سب کی شاعری یا فلسفے کا الگ الگ رنگ ہے جیسا کہ خوشحال خان خٹک پشتون قوم کی بیداری اور نوجوانوں کو مزاحمت پہ آمادہ کرتے ہیں رحمان بابا عشق مصطفی میں ڈوبے ہوئے ہیں نبی علیہ السلام کی مدحت گویا انکا اوڑھنا بچھونا تھا حمزہ شینواری کی شاعری میں اہلبیت سے محبت جھلکتی ہے جبکہ غنی خان اصلا ایک صوفی ہیں جو عشق حقیقی کی آگ اور اسکی تپش سے سلگ رھے ہیں اور یہی کچھ انکی شاعری میں نظر آتا ہے ۔ غنی خان کی شاعری کا بڑا حصہ بظاہر ملا کیخلاف ہے وہ ملا کو خدا سے ڈرانے والا سمجھتے ہیں اور انکا فلسفہ خدا سے محبت کا ہے یہ وہ جنگ ہے جو انکے اور ملا کے درمیان ہوتی رھتی ہے خود کو لیونے یعنی پاگل کہنے والے غنی خان اسی لیونے کو لیکر اکثر ملا سے مکالمہ کرتے ہیں وہ علمائے ظاہر کے خلاف ہیں اور ابن عربی و منصور کی پیروی کے قائل ہیں غنی خان نے عالمی سطح پہ قبولیت کا درجہ پانے والی کتاب " دی پٹھانز" لکھی غالباً اسلامیہ کالج کے شعبہ انگریزی ادب کی استاد خاتون کہتی تھیں کہ کاش میں غنی جیسی انگریزی لکھ سکتی ۔
روس کی ایک جامعہ میں آج بھی غنی خان کا مجسمہ ایستادہ ہے ۔
آخری دنوں میں بیٹے اور اہلیہ کی وفات نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا انکے پوتے/ نواسے مشعال خان جو کہ ان دنوں مردان کے فضل حق کالج میں زیر تعلیم تھے ، فیل ہوگئے جس پہ پرنسپل نے گھر والوں کو بلوایا تو غنی خان وہیل چئیر پہ مشکل سے آئے مشعال کہتے ہیں میرے لئیے بڑا ہی تکلیف دہ لمحہ تھا دوست بھی لعن طعن کر رہے تھے تمہاری وجہ سے اتنی بڑی شخصیت کو بیماری کی حالت میں آنا پڑا مشعال ملنے سے کترا رہے تھے جبھی چھپ گئے لیکن کہاں تک ؟ پرنسپل نے بلایا کہ بابا ملنا چاھتے ہیں مشعال ڈرتے شرمندہ ہوتے پہنچے تو غنی بابا بولے بیٹا کبھی کبھی فیل ہوا کرو مجھے تم سے ملنے کا بہانہ ہی مل جایا کرے گا ۔
غنی خان کی شاعری کو پشتو کے معروف گائیک سردار علی ٹکر نے گویا زندہ کیا ہے جس مہارت اور خوبصورتی سے غنی خان کا کلام ٹکر نے پیش کیا وہ لاجواب ہے عجب فلسفه نظم بھی کچھ ایسی ہی هے کہ محبت سے لبریز دل لیکر غنی خان پہلے مولوی کے پاس پہنچتا ہے وہ غنی کو ٹوکتا ہے کہ تم کیا محبت محبت کرتے رھتے ہو خدا قہار ہے اس سے ڈرو پھر غنی خدا سے محبت کا فلسفہ لیکر قاضی کے پاس جاتا ہے تو وہ کہتا ہے میں صرف سیاہ یا سفید دیکھنے کا عادی ہوں اسکے بیچ میں مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا پھر غنی فلسفی یا اہل عقل کے پاس جاتا ہے اور وہاں ہونے والا مکالمے میں پتہ چلتا ہے کہ لیونے یعنی غنی بظاهر گھاٹے کا سودا کرکے بھی فائدے میں رہا اور خود کو فائدے میں سمجھنے والے خسارے کا شکار ہوئے ۔
غنی خان ہی نہیں کہ بلکہ پاکستان میں بولی جانے والی ہر زبان کے شاعر فلسفی اور ادیب کی تحریروں کا اردو انگریزی میں ترجمہ سرکار کی ترجیح ہونا چاہئیے کیونکہ یہ سب زمین کے بیٹے ہیں علاقائی زبانوں کا تحفظ انکی ترویج نہ صرف انکا حوصلہ بڑھائے گی بلکہ پاکستانی ایسے کئی نادر شخصیات کو جان سکیں گے جنہیں ناقدری کی دھول نے بہت دور کردیا ہے
اس مختصر تحریر کے لئیے
خان عبدالولی خان ، اسفندیار ولی ، افراسیاب خٹک ، میاں افتخار حسین ، ڈاکٹر اباسین یوسفزئی ، سردار علی ٹکر ، مشعال اور لائبه یوسفزئی کے انٹرویز سے مدد لی گئی
ګنهګار یم ګنهګار یم
هم د خدائ هم د دلدار یم
بیوفا په محبت کی
نفس پرست او بی اختيار یم
دا په زړه دننه اور می
که یې وژنمه ورکيږم
که یې نه وژنم سوزيږم
لوګې کيږم ايری کيږم
لکه شمع بد نصيبه
لا به سوزم لا به مرمه
لا به ځان تالا کومه
لا به تور دریاب ځمه
غني
“