(Last Updated On: )
ہر ادیب و شاعر کی تخلیقات کم وبیش اپنے عہد کی عکاس ہوتی ہیں۔لیکن جب شاعر کلیم عاجز کے کلام کی بات آتی ہے تو اس میں نجی زندگی یا غم دل سے زیادہ آفاقی رنگ اور اجتماعی شعور کے ساتھ سیاسی وسماجی حالات نمایاںہوتے ہیں۔یوں لگتا ہے غم زندگی سے زیادہ غم دوراں نے انھیں ستایا ہے ۔شاید یہی سبب ہے کہ کلیم عاجز نے اپنے عہد کے سبھی نشیب و فرازکو اپنی زندگی بنا کر غزل کے سانچے میں ڈھالا۔ یا یوں کہیے کہ انھوں نے نجی زندگی پر غم زمانہ کو فوقیت دی اس لیے وہ کہتے ہیں کہ:
تجھے بھی ہم اے غم زمانہ غزل کے سانچے میں ڈھال دینگے
در حقیقت انھوں نے اپنے کہے پر عمل کیا اور خوب کیاحتی کہ غم زمانہ،غم روزگار،غم وطن،غم کائنات سب کو تغزل کے رنگ میں یوں برتا کہ غزل میں فنی نزاکت پیدا ہوگئی۔حتی کہ غزل کو نئے تجربے سے آشنا کیا۔ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض نے اپنی شاعری میں غم جاناں کو غم دوراں میں تبدیل کرنے کا جوخوبصورت تجربہ کیا تھا وہ ایک نئے انداز میں کلیم عاجز کے یہاں رواں دواں ملتا ہے۔ان کی شاعری میں غم جاناں اور غم دوراں اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ الگ نہیں کیے جاسکتے۔وہ اپنے عہد میں رونما ہونے والے واقعات ،سیاست، اخلاقی گراوٹ،ظلم و جبر کی طرف بے ساختہ طنزیہ اشارے کرتے ہیں جو فوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’میں نے ہمیشہ زمانے کی نبض کواپنی غزلوں میں منتقل کیا
اور جوش و اعتماد سے غزلیں پڑھیںدو ٹوک پڑھیںاور براہ
راست مخاطب کرکے پڑھیں‘‘
جہاںکہیں بھی زمانے کے غم سے ملاقات ہوئی اسے الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر غزل کا روپ دے دیا۔
جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا
یہی درد سر خریدا یہی روگ ہم نے پالا
یوں لگتا ہے دنیا کے ستم، سیاسی طوفان،سماجی ہیجان،انصاف کا خون اور انسانیت کی کمی سے ان کا دل زخمی ہوتا ہے ۔ان کا ضمیر ان کوجھنجھوڑ دیتا ہے ۔وہ ان بے چین جذبوں کو سمیٹ کر غزل کا روپ دینے میں یوں کامیاب ہوتے ہیں کہ پڑھنے والے کا دل بھی اس کیفیت کو محسوس کرتاہے۔۱۹۷۵ کی ایمرجنسی کے ہنگامی حالات میں انسانی حقوق کی پامالی پر ان کا یہ شعرضرب المثل ہے ۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نا خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
وہ محض طنز پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ کئی دفع بے مروتی،جوروجفا کے شکوے کے ساتھ ساتھ محبت کی تعلیم،حقیقت پسندی اور غم انسانیت کو بانٹنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔
بات گرچہ بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
ساتھ ہی اپنے ہمعصرروں کے لیے نئی راہیں ڈھونڈتے ہوئے بشارت بھی دیتے ہیں کہ۔۔
نہ ساتھ دینگی یہ دم توڑتی شمعیں
نئے چراغ جلائو کہ روشنی کم ہے
کلیم عاجزکی غزلوں میں سیاسی حالات اور اس سے ابھرتے نشیب و فراز،پریشانیاں،الجھنیں ،گھٹن کا احساس اس قدرپختہ اور بالیدہ ہے کہ ان کے عہد کی ایک مکمل تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔تحریک آزادی میںخوں ریزی کے ہوئے ننگے ناچ کی تصویر کشی اس دور کے تقریبا سبھی شعرا کے کلام میں ملتی ہے۔ فیض احمد فیض نے جہاں اس کا گلہ اس طرح کیا۔۔
داغ داغ اجالا شب گذیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
وہیںکلیم عاجز نے ان حالات کا بیان کچھ یوں کیا۔۔
یہ پکار سارے چمن میں تھی ،وہ سحر ہوئی وہ سحر ہوئی
مرے آشیاں سے دھواں اٹھا تو مجھے بھی اس کی خبر ہوئی
۔
اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو
لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے
غرض کہ کلیم عاجز کا کلام محض شاعری نہیں ہے بلکہ اپنے عہد کی زندہ وپائندہ تصویرکشی ہے۔ان کی شاعری سیاسی و ملی شعور سے عبارت ہے۔ جسے پڑھو تو اس وقت کے سیاسی حالات آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتے ہیں۔اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے وہ اپنے دوسرے شعری مجموعے کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ۔۔
’’میرے دونوں مجموعوں میں کوئی غزل ایسی نہیں جس کا تاریخی پس منظر نہ ہو۔
جس میں میری شخصیت نا ہومیں نے شاعری محض شاعری کے لیے کبھی کی ہی نہیں‘‘
یہ بات سچ ہے کہ انھوں نے شاعری سے آتش نمرود کو گلزار ابراہیم بنانے کا کام لیا ۔ لکھتے ہیں ’’میں نے خلل سے کنارہ کشی نہیں کی گوشے میں بیٹھ کر مئے ناب کی صراحی اور سفینہ غزل لے کر دل نہ بہلایابلکہ وہ کام کیا جو مجھے بے حد پسند آیابہت مرغوب اور محبوب نظر آیاجو کبھی کبھی دردکے مارے انسان دوست کرتے آئے اور آتش نمرود کو گلزار ابراہیم بناتے آئے۔۔‘‘
شاعر تو نہیں عاجز سائل ہے محبت کا
کشکول غزل لے کر آوازلگائے ہے
بقول کلیم الدین احمد:
’’ان کی غزلوں میں دل کی باتیں بھی ہیں اور سیاسی
باتیں بھی اور سیاسی باتیں غزل کی زبان میں ہیں۔
ان کے شعروں میں پھول بھی ہیں اور پتھر بھی،اور
پھول پتھر بن جاتے ہیں اور پتھر پھول بن جاتے
ہیں۔اس کام کے لیے بھی سلیقے کی ضرورت ہے۔‘‘
دراصل شاعری ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ انھوں نے شاعری کو اپنے خون جگر سے سینچا۔دل پہ گزرنے والے ہر حادثے کو شاعری بنادیا اور شاعری نے ان کوشاعر بنا دیا۔ اس بات کا اعتراف وہ کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
’’شاعری مجھ پر قابض میں شاعری پرقابض۔میں شاعری کا کھلونا
شاعری میرا کھلونا،شاعری کی نگاہ میں عظیم و مقدس،شاعری میری
نگا ہ میں عظیم و مقدس ،وہ میری جان جاناں میں اس کا جان جہاں
شاعری نے سب کچھ میرے قدموں پر ڈال دیا میں نے سب کچھ
شاعری کے قدموں پرڈال دیا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اشعار دیکھیں۔
اسے انجمن مبارک مجھے فکروفن مبارک
یہی میرا تخت زریںیہی میرا مرگ چھالا
۔
غزل جو سنتا ہے میری عاجز وہ مجھ کو حیرت سے دیکھتا ہے
کہ دل پہ گزری ہے کیا قیامت مگر جبیں پر شکن نہیں ہے
غزل ایک ایسی صنف ہے جس کی زبان جتنی سادہ و سلیس ہے اتنی ہی وہ کامیاب ہے۔چونکہ غزل کا ہر شعر مکمل اکائی ہوتا ہے ۔ہر شعر کی اپنی الگ کیفیت ہوتی ہے اس لیے شعر کی گہرائی سمجھنے کے لیے اگر آسان الفاظ کا چناوکیا جائے تو قاری کو شعر کے مفہوم سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور آسان الفاظ میں گہری بات کہہ جانا ایک آرٹ ہے۔ اس آرٹ سے کلیم عاجز بخوبی واقف تھے۔اس لیے ان کی بیشتر غزلوں میںعام اور روزمرہ کی زبان استعمال ہوئی ہے۔جہاں تک کلیم عاجزکے انداز بیان کی بات ہے تو ان کی شاعری کا خاص وصف سہل ممتنع ہے۔ یہ ان کا طرہ امتیاز ہے کہ عام بول چال اور گفتگو کے لہجہ کو غزلوں میں اس توازن اور چابکدستی کہ ساتھ برتا ہے کہ ادبیت اور لطافت کا دامن کہیں چھوٹنے نہیں پایا۔ان کا لب ولہجہ اپنے اندر اپنائیت ،نرمیت،معصومیت لیے ہوئے ہے۔ مثلا
پوچھے نہیں ہے آج جنہیں کوئی دیکھنا
کل وہ کہاں کہاں سے پکارے نہ جائیں گے
۔
میرا حال پوچھ کے ہم نشیں مرے سوزدل کو ہوا نہ دے
بس یہی دعا میں کروں ہوں اب کہ یہ غم کسی کو خدا نہ دے
بقول فراق :
’’اتنی دھلی ہوئی زبان،یہ کھلاوٹ،لب و لہجہ کا یہ جادو جو صرف انتہائے خلوص سے پیدا ہوسکتا ہے
اس سے پہلے مجھے کبھی اس موجودہ صدی میں دیکھنے یا سننے کو نہیں ملاتھا۔ میں ان کا کلام سن کر خود
اپنا کلام بھول گیا۔۔۔‘‘
غرض کہ یہ سہل پسندی اورنرم لہجہ کچھ حدتک میر تقی میر کی یاد دلاتا ہے ۔کلیم عاجز نے خود اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ میر سے اس قدر متاثر ہوئے کہ غالب کو بھول گئے۔فرماتے ہیں کہ’’میر کی شاعری میں مجھے ایک ہم آواز ملا۔پھر میں نے میر کوپڑھا اور اس کے بعد میر کی عظمت اتنی بڑھ گئی کہ غالب کی عظمت کا خواب ٹوٹ گیا۔۔‘‘ صرف انھوں نے ہی نہیں بلکہ ان کے ہمعصروں نے بھی ان کے مزاج کو میر تقی میر کے مشابہ ٹھرایا۔اس بات کی تصدیق ان کے اشعار سے ہوجاتی ہے۔
ہمیں دیکھ کے کہتے ہیں آج کل والے
وہ آگئے روش میر کی غزل والے
۔
اس قدر سوز کہاں اور کسی ساز میں
کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں
۔
ساز دل سے ٹوٹنے کے بعد بھی
ہلکی ہلکی سی صدا آتی رہی
میر اور عاجز کے لہجے میں یکسانیت کے باوجود ایک بنیادی فرق ملتا ہے ۔ میر کے یہاں یاسیت ،محرومیت،غم بیزاری ہے جبکہ عاجز کے لہجہ میں شکستگی تو ضرور ہے لیکن یاسیت نہیں ہے۔عاجز زندگی سے فرار نہیں چاہتے بلکہ اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا پسند کرتے ہیں۔وہ غموں سے بیزار نہیں لطف اندوز ہوتے ہیں۔مثلا
یوں خون دل میں ڈوب کے نکلی صدائے دل
جیسے کوئی چھلکتا ہوا جام آگیا
جلنے کا کام دل کو سکھایا اسی لیے
یہ کام آگیا تو بڑا کام آگیا
غرض کہ کلیم عاجز کی غزلوں کا مجموعی تاثر ہمیں نیا حوصلہ اور جذبہ عطا کرتا ہے۔ زندگی سے ہارنے کی تلقین نہیں کرتا بلکہ اس کے ہر پہلو کو برداشت کرنے کا سلیقہ عطا کرتا ہے۔ان کے یہاں دردمندی،دلکشی،سادگی،روانی،شدت جذبات ،نزاکت احساسات سبھی کچھ ہے ۔ان کے کلام کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کے جذبات و خیالات ایک ہی نہج میں بہتے ہیں۔مثلا
تجھے سنگدل یہ پتا ہے کیا کہ دکھے دلوں کی صدا ہے کیا
کبھی چوٹ تونے بھی کھائی ہے کبھی تیرا دل بھی دکھا ہے کیا
تو رئیس شہر ستمگراں میں گدائے کوچہ عاشقاں
تو امیر ہے تو بتا مجھے میں غریب ہوں تو برا ہے کیا
ان کی غزلوں میں تغزل جدید کا پرتو بھی ملتا ہے۔انداز فکر میں بھر پور جدت کے ساتھ ساتھ اندازبیان میں قدامت کلیم عاجز کا مخصوص آرٹ ہے جو ان کو دوسرے شعرا سے منفرد کرتا ہے۔بقول کنھیالال کپور:
بہار کی مردم خیز سر زمین سے ایک غزل گو ،ساون کی گھٹا
کی طرح اٹھا ہے اورآنافانا آسمان ادب میں چھا گیا ہے۔
وہ غزل نہیں کہتاجادو جگاتا ہے شاعری نہیں ساحری کرتا ہے‘‘
مختصر یہ کہ کلیم عاجز کا کلام درد دل کا ترجمان ہے۔ جہاں دردہے،محبت ہے،سوزدروں ہے،کسک اور چوٹ میں بسا ایک ساز ہے۔یہ جگ بیتی ہے اور آپ بیتی بھی۔ اس میں زندگی جینے کا سلیقہ ہے۔ہمت و حوصلہ کی تلقین ہے ۔یہ غم جاناں بھی ہے اور غم دورں بھی ۔کلیم عاجز کو خبر تھی کہ ان کے دل کی یہ آوازیں جنھیں وہ الفاظ کے سہارے غزل میں پرو رہے ہیں زمانے کابے حد قیمتی اثاثہ ہیں۔یہ وہ گدڑی کا لال ہے جسے رہتی دنیا یاد کرے گی ۔اس لیے کہہ گئے کہ۔۔
ابھی کلیم کو پہچانتا نہیں کوئی
یہ اپنے وقت کی گدڑی میں لال ہے پیارے