اُستادِ محترم اطہر ہاشمی صاحب مرحوم یہ بات سمجھاتے سمجھاتے اللہ کو پیارے ہوگئے کہ عوام مذکر ہیں، انھیں مذکر ہی رہنے دیا جائے، مؤنث نہ کیا جائے۔ مگر ہمارے مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ ماشاء اللہ اب ہر شعبے میں ’’زبردست‘‘ ہوگئے ہیں۔ اردو کی ایک کہاوت ہے ’’زبردست کا ٹھینگا سر پر‘‘۔ سو، ذرائع ابلاغ نے خود عوام کو بھی زبردستی باور کرا دیا ہے کہ ہوتے ہوتے وہ مؤنث ہی ہوگئے ہیں۔ چناں چہ عام لوگ بھی اپنی عام بول چال میں اب عوام کو مؤنث ہی بولنے لگے ہیں۔ جہاں مرے پر سَو دُرّے، وہیں ایک دُرّہ مزید یہ کہ صرف تبدیلی ٔ جنس ہی عمل میں نہیں آئی، یہ اسمِ جمع اب صیغۂ واحد میں بھی بدل گیا ہے۔ جس پر’’عوام حیران بھی ہوتی ہے، پریشان بھی ہوتی ہے، مگر مؤنث سے مذکر بنتی دکھائی دیتی ہے نہ واحد سے جمع ہوتی نظر آتی ہے‘‘۔ جمع ہونے کا کوئی فائدہ بھی نظر نہیں آتا۔
وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ کم ازکم 1967ء تک ہمارے سیاسی رہنما بھی عوام کو مذکر ہی مانتے اور گردانتے تھے۔ چناں چہ بھٹو صاحب نے سنِ مذکور میں جب پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اپنے منشور میں یہ دل فریب نعرہ لگایا ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘۔ جب کہ آج اسی جماعت کے صدر نشین (چیئرپرسن) بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ’’طاقت کا سرچشمہ ہماری مؤنث عوام ہے‘‘۔ یقین نہ آئے تو ان کی عوامی تقریریں سن لیجیے۔ یوں بھی سیاسی تاریخ (صرف ہماری نہیں، پوری دنیا کی سیاسی تاریخ) یہ بتاتی ہے کہ طاقت کے سرچشموں کا ٹھینگا ہمیشہ عوام کے سر پر رہا ہے۔
ہمارے ایک دوست جو حسنِ اتفاق یا سوء اتفاق سے، ہر طرح کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے عوام سے مایوس سیاسی رہنما بھی ہیں، ہماری تشویش پر جل بُھن کر کہنے لگے: ’’میاں! تم مذکر مؤنث کو رو رہے ہو، مجھ سے پوچھو تو ہمارے ملک کی عوام مخنث ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہر ایک کے پیچھے ٹھمکتے، ناچتے، گاتے اور تالیاں پیٹتے چل پڑتے ہیں‘‘۔
بات یہ ہے کہ اردو زبان میں انگریزی کی ’’پبلک‘‘ ہمیشہ مؤنث ہی کہی گئی۔ ہوگی تب ہی تو کہی گئی۔ مگر مغرب سے مرعوب ’’اِبلاغیوں‘‘ نے مغرب کی ’’پبلک‘‘ پر قیاس کرکے ہماری ملت کے عوام کو بھی مؤنث کر ڈالا۔ حالاں کہ حکیم الامت علامہ اقبالؔ بھی یہ تنبیہ کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہوگئے کہ ’’اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر‘‘۔
اس مرحلے پر ہمیں اپنے ایک ابدالی دوست یاد آگئے۔ شاعرانہ مزاج رکھتے تھے۔ مری کی سیر کو گئے تو ملکۂ کوہسار کے حسن سے بہت متاثر ہوئے۔ فی البدیہہ شعر کہہ دیا:۔
اے مری کی فضا، اے حسیں دل رُبا
جسم پنڈی چلا، روح یہیں رہ گیا
دوسرے مصرعے کی روانی میں جو رُکاوٹ ہے (اور رُکاوٹ کا سبب یہ کہ’ح‘ گر رہی ہے) اُسے نظر انداز کرتے ہوئے عرض کیا:۔
’’ابدالی صاحب! روح تو مؤنث ہے۔ آپ نے اسے مذکر کر ڈالا‘‘۔
ڈپٹ کر بولے: ’’یَرا!یہ ابدالی کا روح ہے۔ مؤنث کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
لفظ ’’عوام‘‘ استعمال کرنے والوں کو معلوم ہو کہ یہ لفظ ’’عموم‘‘ سے ماخوذ ہے۔ عامّہ کی جمع ہے۔ جب ہم ’’عوام‘‘ کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد عام انسانوں کا گروہ ہوتا ہے۔ عام آدمی کو عامۃ النّاس کہا جاتا ہے۔ عوام بھی دراصل ’’عوام النّاس‘‘ ہی کی تخفیف ہے۔ اس کے مقابلے میں جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ ’’خواص‘‘ ہے جو خاصّہ کی جمع ہے۔ خاصّہ اُس وصف یا صفت کو کہتے ہیں جو کسی سے مخصوص ہو۔ مثلاً (ایک دوسرے پر) ’’ہنسنا صرف انسان کا خاصّہ ہے‘‘۔ اسی سے لفظ خاصیت بھی بنا ہے، جو مؤنث ہے اور اس کا مطلب ہے: طبیعت، اثر، خصلت، عادت وغیرہ۔ ص پر تشدید لگائے بغیر ’’خاصہ‘‘ لکھا یا بولا جائے گا تو امرا اور سلاطین کا کھانا بن جائے گا۔ سحرؔ کا یہ شعر دیکھیے:۔
مطبخِ شاہی کے خاصے کا نہیں بھوکا فقیر
خوانِ یغما بھیج دے کھانے کھلانے کے لیے
(یغما مالِ غنیمت کوکہتے ہیں) ایک لفظ ’’خاصا‘‘ (یا ’’خاصی‘‘) بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے اوربالعموم کثرت ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ عموماً ’’اچھا‘‘ (یا ’’اچھی‘‘)کا سابقہ لگایا جاتا ہے۔ مثلاً: ’’اچھا خاصاکھانا تو موجود ہے۔ تم کہتے تھے تھوڑا ہے‘‘۔ صحت مند اور تندرست و توانا کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے داغؔ نے شکوہ کیا:۔
میں تو مرتا ہوں، وہ یہ کہتے ہیں
اچھا خاصا ہے، بھلا چنگا ہے
صاف صاف، کھلے کھلے یا پورے اور مکمل کے معنوں میں بھی بولتے ہیں۔ مثلاً امیرؔ مینائی کا گلہ بھی سن لیجیے:۔
بے دھڑک دیکھو نکیرین چلے آتے ہیں
اچھی خاصی یہ سڑک ہے، مری تُربت کیسی؟
یوں تو عوام کی طرح لفظ ’’خواص‘‘ بھی مذکر ہے، لیکن بادشاہوں اور نوابوں کی خاص منہ چڑھی کنیزوں کو بھی خواص کہا جاتا تھا۔ حکیم صاحبان بھی جڑی بوٹیوں کے خواص اکثر بیان کرتے رہتے ہیں۔ (یہ خواص خاصیت کی جمع ہے۔)
بات عوام سے چلی اور خواص تک پہنچ گئی۔ عوام کے مقابلے میں جن لوگوں کو خواص کہا جاتا ہے وہ ممتاز، برتر اور خاص لوگ ہوتے ہیں، بالعموم عوام میں گھلنا ملنا پسند نہیں کرتے۔ مگر میرؔ صاحب کو دیکھیے کہ انھوں نے خواص و عوام کو پکڑ کر ایک ہی شعر میں لا باندھا:۔
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
گفتگو پر یاد آیا کہ ٹیلی وژن پر ہونے والی گفتگو میں عوام ہی نہیں خواص سے بھی ایک فقرہ اکثر سننے کو ملتا ہے:
’’اگلے روز ایک صاحب کہہ رہے تھے…‘‘
جب کہ کہنے والے کی اس سے مراد گزشتہ روز یا پچھلے دنوں ہوتی ہے۔ اگرچہ لفظ ’’اگلا‘‘ دونوں معنوں میں مستعمل ہے، گزشتہ کے معنوں میں بھی اور آئندہ کے معنوں میں بھی۔ مگر دونوں معنوں میں استعمال کا موقع متعین ہے۔ ماضیِ بعید یعنی سابقہ، گزشتہ اور پچھلے زمانوں یا لوگوں کا ذکر مقصود ہو تو اس موقع پر اگلے زمانوں، اگلے وقتوں یا اگلے لوگوں وغیرہ کہا جاتا ہے۔ غالبؔ کا مشہور شعر ہے:۔
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
ماضی سے حال تک کا سب حساب کتاب چکانا ہو تو کہا جاتا ہے: ’’آج میں تمھارا اگلا پچھلا سارا حساب بے باق کردوں گا‘‘۔
تاہم زمانۂ حال یا ماضیِ قریب کا ذکر ہو تو گزشتہ کے لیے ’’پچھلا‘‘ اور آئندہ کے لیے ’’اگلا ‘‘استعمال ہوگا۔ اقبال ساجدؔ معترف ہیں:۔
پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں
اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا
عرفانؔ صدیقی اس شعر میں کسی نہر یا ندی کے کنارے کھڑے ہو کر اُس کو سمجھا رہے ہیں:۔
تُو انھیں یاد آئے گی اے جوئبار اگلے برس
اب تو لوٹے گی پرندوں کی قطار اگلے برس
کرار ؔنوری بستر پر لیٹ کر صبح فردا سے ملتمس ہیں:۔
لکھنا ہے پچھلے دن کا بھی افسانا خواب میں
اے ہونے والی صبح نہ آجانا خواب میں
(ضرورتِ قافیہ کے تحت ’’افسانہ‘‘ کا املا تبدیل کرکے ’’افسانا‘‘ لکھا گیا ہے)انورؔمسعود کی پیش گوئی ہے:۔
اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے
پھلوں سے مہنگے چھلکے ہوں گے
ہاں ترتیبِ زمانہ بتانے کا موقع ہو تب تو’’اگلے روز‘‘کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً:
’’جس روز آپ سے پہلی ملاقات ہوئی، اُس سے اگلے روز ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ تو انتہائی کمینہ شخص ہے‘‘ ۔
لیکن پچھلے دنوں یا گزشتہ روز کے معنوں میں ’’اگلے روز‘‘ کہنا یا لکھنا محاورے اور روزمرہ کے خلاف ہے۔ایسے موقع پر درست فقرہ یوں ہوگا: ’’گزشتہ دنوں ایک صاحب نے بتایا…‘‘یا ’’پچھلے دنوں اُنھی صاحب سے پھر ملاقات ہوئی…‘‘
یہ باتیں یاد دلانے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ لوگ اب اگلا پچھلا سب بھولتے جا رہے ہیں۔