ہم ایک سوراخ سے ڈسے جا چکے ہیں تو کیا اب ایک دوسرے سوراخ سے ڈسے جائیں گے؟ ہم نے ورلڈ کپ اور شوکت خانم ہسپتال کو نظیر بنایا اور ایک کھلاڑی اور سوشل ورکر کو زمین سے سیاست کے آسمان پر لے گئے۔ ہم نے یونیورسٹی کو ملک سمجھا اور یہ باور کر لیا کہ جو یونیورسٹی بنا سکتا ہے وہ ملک بھی چلا لے گا۔
اب یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری چونکہ ایک اعلیٰ درجہ کے منتظم ہیں اور چونکہ انہوں نے اپنی تنظیم کا جال پوری دنیا میں پھیلا رکھا ہے اس لیے انہیں بھی آزمانا چاہیے۔ گویا یہ ملک ایک تجربہ گاہ ہے۔ تجربہ گاہ بھی ایسی جسے نئی ایجادات کے لیے نہیں، سائنس دانوں کا امتحان لینے کے لیے اور انہیں آزمانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے!
تنظیمی صلاحیتوں والی دلیل پر بھی بات ہو جائے گی پہلے شیخ الاسلام کے لقب پر غور کر لینا چاہیے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری بنیادی طور پر پاکستانیوں کے شیخ الاسلام ہیں۔ اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی! کچھ عرصہ پہلے جہاں تک یاد پڑتا ہے کسی عرب ملک (غالباً ازہر) کے علما نے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ شیخ الاسلام تو وہ ہو گا جسے پوری دنیائے اسلام کے علما شیخ الاسلام کہیں اور تسلیم کریں۔ ڈاکٹر صاحب جھنگ کے لہجے میں اردو کے دل نشین مقرر ہیں۔ ایک بار ان کا خطاب زبان فرنگ میں سنا۔ خاصی مولویانہ انگریزی تھی۔ عربی میں تقریر کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اس بارے میں راوی سکوت اختیار کرتا ہے۔
ہم عجیب و غریب قوم ہیں۔ حالی ہماری نفسیات جان گئے تھے؎
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
کبھی ہم کہتے ہیں کہ ورلڈ کپ جیتنے والے کو وزیر اعظم بنا دو، گویا ملک چلانا کھیل ہے اور وہ بھی کرکٹ کا۔ کہہ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں منہاجی سلسلے کو قائم کرنے والے کو ملک کی باگ ڈور سونپ دو۔ اگر اس دلیل پر جہاں بانی اور جہاں گیری کا نظام چلنا ہے تو پھر سب سے پہلے عبدالستار ایدھی کا حق بنتا ہے‘ جس نے فلاحی کارناموں سے دنیا بھر کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے اور ایک روایت کے مطابق کرۂ ارض کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس چلا رہا ہے۔ تو کیا اب ایدھی صاحب کو وزارت عظمیٰ سونپ دینی چاہیے؟
علامہ مشرقی کے داماد، ہفت زبان ڈاکٹر اختر حمید خان نے پہلے ’’کومیلا ماڈل‘‘ اور پھر ’’اورنگی پائلٹ پروجیکٹ‘‘ کے ذریعے پوری دنیا میں ثابت کر دیا کہ غربت میں پسے ہوئے عام آدمی کو کس طرح اپنے پائوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ سکینڈے نیویا کے اصحاب علم و نظر نے ڈاکٹر اختر حمید خان کو نوبل پرائز کے لیے نامزد کیا۔ فلپائن نے اپنا سب سے بڑا اعزاز دیا۔ امریکی یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں (جو ہم رحمان ملک جیسے نابغوں کو دیتے ہیں!) تو پھر کیا اختر حمید خان کو ملک کا سربراہ بنا دیا جائے؟
تنظیمی صلاحیتیں؟ خدا کے بندو! ہمارے مدرسے چلانے والے حضرات کا اس میدان میں کون مقابلہ کرے گا؟ کسی بھی امیر محلے میں ایک چھوٹا سا احاطہ بنتا ہے، جس میں پانچ دس آدمیوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ چند ماہ بعد چھت ڈال دی جاتی ہے۔ پھر وہ پھیلتے پھیلتے ایک عظیم الشان مسجد بن جاتی ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کس کی زمین تھی؟ جس کی بھی ہوتی ہے دبک کر بیٹھ جاتا ہے۔ اگر ریاست کی ہے تو پھر تو اپنا ہی مال ہے۔ چند ہفتوں بعد ساتھ ایک مدرسہ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ راتوں رات سینکڑوں میل دور کے دیہات سے ’’طلبہ‘‘ بھی آ جاتے ہیں۔ چند سال بعد یہ ایک بڑا دارالعلوم بن جاتا ہے۔ مہتمم صاحب اور ان کے صاحبزادگان گاڑیوں کے بیڑے کے مالک بن جاتے ہیں۔ اگر ’’تنظیمی‘‘ صلاحیتوں ہی کو سیاست کی بنیاد بننا ہے تو پھر ان حضرات سے زیادہ کون حق دار ہے‘ جو چندہ دینے والے سادہ دل مسلمانوں کو یہ بھی پتہ نہیں چلنے دیتے کہ اس چندے سے مسجد کے اخراجات پورے ہوں گے یا مدرسہ چلے گا یا حضرت صاحب کے گھر کا شاہانہ خرچ پورا ہو گا؟ تو پھر بڑے بڑے مدرسے چلانے والوں کو باری باری وزیر اعظم بنا دیجیے!
نہیں! دنیا بھر کے مخیر حضرات کی جیبوں سے مال نکلوانے کو ’’تنظیمی‘‘ صلاحیت نہیں کہتے، یہ کوئی اور صلاحیت ہے! ع
مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج
(یہاں صدقہ کے بجائے چندہ پڑھیے)
قبروں پر کھڑے ہو کر سادہ دل احمق عقیدت مندوں کو یہ یقین دلانا کہ میں قبر میں سوئے ہوئے شخص سے رابطے میں ہوں، ایک ہنر ہے جس کا ملک چلانے سے دور کا بھی تعلق نہیں!
اور پھر کمال کی سیاسی سوجھ بوجھ یہ دکھائی ہے کہ چودھری برادران سے معاہدہ کر رہے ہیں‘ جنہیں اس ملک کے عوام ایک بار نہیں، بیسیوں بار آزما چکے ہیں۔ چودھری صاحب کی وضعداری، مہمان نوازی اور روٹی شوٹی کھانے کھلانے والی شرافت اور خاندانی سخاوت مسلمہ ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کو کیا یہ معلوم نہ تھا کہ وہ مٹی پانے کے بھی ماہر ہیں؟ وہ جو چار شخص کیرم بورڈ کھیل رہے تھے اور دو ایک طرف تھے اور دو دوسری طرف تھے تو تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ بتائو! تم میرے پارٹنر ہو یا دوسرے فریق کو جتوانا چاہتے ہو؟ تو جو اصحاب آٹھ سال فوجی آمریت کے دست و بازو رہے ہیں، ان کے ساتھ اتحاد کرکے ڈاکٹر صاحب ہو نہ ہو ضرور شریف برادران کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں! انتہائی اپر کلاس اور انتہائی لوئر کلاس کی ترجیحات ہمیشہ پُراسرار ہوتی ہیں لیکن مڈل کلاس کے بارے میں یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اگر اسے قاف لیگ اور نون لیگ کے درمیان انتخاب کرنا ہی پڑا تو وہ بادل نخواستہ ہی سہی قاف لیگ کا رخ نہیں کرے گا! ٹہنی کے نیچے کھائی ہے، گہری کھائی اور دوسری طرف پہاڑی کی ڈھلان ہے۔ ڈھلان پر رینگ رینگ کر اوپر پہنچ جانے کا امکان تو ہے! کھائی میں گرنا تو ایک سو ایک فیصد یقینی ہلاکت ہے!!
کل ایک دوست ملے۔ پژمردہ اور افسردہ! سابق بیوروکریٹ، اعلیٰ پائے کے دانشور! الیکشن کے دن دارالحکومت کے معروف محلے آئی ایٹ کے پولنگ سٹیشن پر انہیں دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔ تعجب سے انہیں کہا تھا کہ حضرت! آپ جنم جنم کے کم آمیز! نہ صرف بیوروکریٹ …بلکہ عادات و خصائل میں خالص ’’صاحب‘‘! آپ عوام میں کیسے نکل آئے؟ کہنے لگے عمران خان کو ووٹ دوں گا۔ صرف وہی ہے پڑھی لکھی مڈل کلاس کی امید! کہنے لگے دونوں صاحبزادے، جو امریکہ سے ایم بی اے کرکے آئے تھے‘ رات دن تحریک انصاف کے لیے کام کرتے رہے اور اس بات کی بھی پروا نہ کی کہ انہیں کبھی ’’ممی ڈیڈی‘‘ کا طعنہ دیا جاتا تھا اور کبھی ’’برگر‘‘ کلاس میں شامل کیا جاتا تھا!
کل پژمردگی اور افسردگی کا سبب پوچھا تو پھٹ پڑے ’’عمران خان ہمارے اور ہمارے جیسوں کے ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ انہیں مدارس کے طلبہ نے تو کامیاب نہیں کرایا تھا، لیکن اب جب ہم انہیں مولانا سمیع الحق، سید منور حسن اور سراج الحق جیسے اصحاب کے ساتھ دیکھتے ہیں تو دل خون ہو جاتا ہے۔ پھر پاکستانی فوجیوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہو جائے، منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں لیکن فوج ذرا حرکت میں آئے تو خون آلود قمیض ڈنڈے پر لٹکا کر وہ آہ و فغاں کرتے ہیں کہ بھارت تو بھارت! اسرائیل میں بھی گھی کے چراغ جلنے لگتے ہیں۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے حق میں وہ وہ دلائل لاتے ہیں کہ اہل مدرسہ تک رشک کرنے لگے ہیں‘‘
از راہِ تفنن عرض کیا، اس دن آئی ایٹ کے پولنگ سٹیشن پر تو آپ بھنگڑا ڈالنے کے موڈ میں تھے! کہنے لگے، فضول باتیں نہ کرو، پھر ان کے چہرے پر ایک بادل سا اتر آیا، جو سفید تھا نہ سیاہ، بس شکست خوردگی کی بوندوں سے لدا ہوا… جیسے کہیں دور سے آواز آ رہی تھی…’’یار! وہ میری غلطی تھی… بہت بڑی غلطی!‘‘
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔