غالب کے محلے کا نام جس سے سنا بَلّی ماراں ہی سنا۔ اس تلفظ سے کانوں کی آشنائی گلزارکی غالب پر ڈراما سیریل سے بھی ہوئی جس کا آغاز گلزار کی آواز میں غالب پر ان کی نظم سے ہوتا ہے جس کی پہلی لائن ہے:
بلی ماراں کے محلے کی وہ پیچیدہ دلیلوں کی سی گلیاں
معروف تاریخ دان ڈیل رمپل نے اپنی کتاب City of Djinns میں بِلّی ماراں کا ترجمہ street of the cat killers لکھا تو ایک علمی مجلے میں اس کی پھبتی اڑائی گئی۔لیکن اب لگتا ہے کہ ڈیل رمپل کا ترجمہ صحیح تھا۔اس کی وجہ وہ معلومات ہیں جو ممتاز سکالر، عربی زبان کے عالم ، اردو کے معروف شاعر اور نثر نگار ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کے ذریعے ہمارے علم میں آئیں۔
کرونا کی آمد سے پہلے رضوی صاحب سے ریڈنگز میں جو ملاقات ہوئی اس میں انھوں نے مثالوں سے واضح کیا کہ غالب کے محلے کا نام، ان کی دانست میں ،بِلّی ماراں ہے بَلّی ماراں نہیں۔ اس پر میں نے ان سے درخواست کی آپ ان سب باتوں کو لکھ ڈالیں ،اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔کچھ دن بعد رضوی صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ انھوں نے بِلّی ماراں کے ساتھ ساتھ چند اور الفاظ جنھیں عام طور پر غلط قرار دیا جاتا ہے ان کے بارے میں مضمون لکھ کر ’الحمرا ‘ میں اشاعت کے لیے بھیج دیا ہے۔ وہ مضمون جون کے شمارے میں تغلیطِ تغلیط ‘ کے عنوان سے چھپا ہے ۔اس عنوان کی شرح خورشید رضوی صاحب کے الفاظ میں کچھ یوں ہے:
’’ تغلیط ‘‘ کا مطلب ہے غلطی سے منسوب کرنا یا غلط قرار دینا۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کو غلط قرار دیا جاتا ہے وہ درست ہوتی ہے اور غلطی نکالنے کا یہ عمل خود غلط ہوتا ہے۔ گویا تغلیط خود اس لائق ہوتی ہے کہ اس کی تغلیط کی جائے۔‘‘
ڈاکٹر خورشید رضوی نے مضمون میں بِلّی ماراں کے بارے میں لکھا:
’’ دلّی کا محلہ، جس میں غالب رہتے تھے، ” بِلیماراں “ کہلاتا ہے۔ اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ اسے بالکسر ” بِلی ماراں“ بولنا غلط ہے۔ کیونکہ یہ اصل میں ” َبلّی ماراں“ بالفتح ہے۔ بلّی لمبی لکڑی یا بانس کو کہتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد کشتی چلانے کا چپُو سمجھا جاتا ہے۔ وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہاں ایک زمانے میں کشتیاں چلانے والے ملاح رہتے تھے َبلّی ماراں سے وہی مراد ہیں۔
تاہم ادبی شواہد بالکسر ”بِلّی ماراں“ کے حق میں ہیں۔ میر صاحب نے موہنی بلّی کے مرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے:
قصہ کوتہ موہنی آگے موئی
یک قیامت جان پر اُس بِن ہوئی
صبر بِن چارہ نہ تھا، آخر کیا
ِبلّی ماروں میں اُسے گڑوا دیا
ظاہر ہے کہ یہاں بِلّی کو لفظی مناسبت سے بلّی ماروں میں دفن کرنے کا مضمون لایا گیا ہے۔
غالب میر مہدی مجروح کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
”اہلِ اسلام میں صرف تین آدمی باقی ہیں۔ میرٹھ میں مصطفی خاں، سلطان جی میں مولوی صدر الدین خاں، بلّی ماروں میں سگِ دنیا موسوم بہ اسد….“
ظاہر ہے یہاں بلّی، کُتے اور شیر کی مناسبت سے فائدہ اُٹھایا گیا ہے۔
جون 1854ءمیں ہر گوپال تفتہ کو لکھتے ہیں:
”ہاں آپ نے سرنامے پر ”چاہ گرمابہ“ لکھا۔ میں یہ نہیں لکھ سکتا۔ کس واسطے کہ یہ ”حمام کے کنویں“ کی مٹی خراب کر کر اس کو ”چاہ گرمابہ“ لکھا ہے۔ اسماءو اعلام کا ترجمہ فارسی میں کرنا، یہ خلاف دستور تحریر ہے۔ بھلا اس شہر میں ایک محلّہ بلّی ماروں کا ہے۔ اب ہم اس کو ”گُربہ کُشاں“ کیوں کر لکھیں؟ یا املی کے محلّے کو ”محلّہ تمرہندی کس طرح لکھیں؟“
میر غلام حسنین قدر بلگرامی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
”ایک جگہ سے مجھ کو خط آیا۔ چونکہ میں بلّی ماروں کے محلّے میں رہتا ہوں، اس نے پتا لکھا کہ ”در محلّہ گُربہ کُشاں“ واہ فارسی۔“
ان سب شواہد سے یہ ثابت ہے کہ محلے کا نام ”ِبلّی ماروں کا محلّہ“ بالکسر ہی تھا۔ وجہ تسمیہ البتہ تحقیق طلب ہے۔ ضروری نہیں کہ معلوم ہو سکے۔ مظفر علی سید مرحوم نے ایک روز کی گفتگو میں کہا تھا کہ یہاں سانسی رہتے تھے جو بلّیاں کھاتے تھے۔ معلوم نہیں سیّد صاحب کا ماخذ کیا تھا مگر بات دل کو لگتی ضرور ہے۔ میں نے ایک زمانے میں نثار احمد فاروقی صاحب مرحوم سے بھی…. جنہوں نے دلّی میں ایک عُمر گزاری…. معلوم کیا تھا کہ آج دلّی میں عام آدمی مثلاً رکشے والا کیا بولتا ہے؟…. انہوں نے ِبلّی ماراں، بالکسر ہی بتایا۔‘‘
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...