کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔….۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفہیم خواہ شعر کی ہو یا کسی اور فن پارے کی ،اس کےلیےایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ہم اس فن پارے کے اندر موجود معنی نکال کر لاتے اور بیان کرتے ہیں نہ کہ ہم باہر سے کوئی معنی اس میں ڈال سکتے ہیں۔
اس سے اگلی بات یہ ہے کہ تفہیم کے لیے کسی فن پارےمیں اترنے کی کلید اس کے متن یا اس کے تعمیری عناصر سےہی ہاتھ آتی ہے۔
اور تفہیم کا عمل فن پارے کی ظاہری سطح سے آغاز ہو کرتہ در تہ اس کے معنوی امکانات تک ہمیں پہنچاتا ہے۔
ان ضوابط کو سمجھ لینے کےبعد ان کی روشنی میں غالب کے مندرجہ بالا شعر کو دیکھتے ہیں۔
١۔دشت کی ویرانی دیکھ کر گھر یاد آیا کیونکہ گھر بھی ویران ہے۔
یعنی غالب پہلے ایک ویرانی۔۔۔گھر کی ویرانی۔۔۔دیکھ چکا ہے سو دشت کی ویرانی نے اسے پہلےدیکھی گئی ویرانی یاد دلا دی ہے۔
٢۔شعر کے فردِ اولیٰ میں تشبیہہ بھی موجود ہے۔
یہ ویرانی یعنی جو ویرانی سامنے ہےکسی اور ویرانی جیسی ہے۔
مصرع کی تنظیم بھی دو ویرانیوں کو لیے ہوئے ہے۔
"ویرانی سی ویرانی"
اور یوں ایک ہی اوبجیکٹ کی دو الگ الگ تصویریں ابھر آتی ہیں۔
٣۔ویرانی سی ویرانی ۔۔۔بے حد اجاڑ پن۔۔یہاں یہ تاثر تکرارِ لفظی سے پیدا ہوا ہے جس میں ."سی"اور "ہی" کے صوتی امر کو دخل ہے۔گویا ویرانی ہی ویرانی ہے۔
4.
اب پہلے مصرع کے پہلے لفظ "کوئی"پر ذرا زور دے کر پڑھیں۔جس طرح کہا جائے کہ
"وہاں۔۔ کوئی ۔۔رش تھا"
اسے ۔۔کوئی۔۔مار پڑی
وغیرہ
اس زاویے سے شدید ویرانی کا تاثرتکرارِ لفظی کے علاوہ پیدا ہواہے۔
5.
بے انتہا ویرانی ۔۔۔ویرانی ہی ویرانی۔۔۔ کو دیکھ کر مجھے تو گھر یاد آگیا ہےجیسےچھٹی کا دودھ یاد آتا ہے۔
گھر۔۔جسے شاعر چھوڑ کر اب دشت میں موجود ہے، کی رونق یاد آگئی ہے۔
جیسے کسی مصیبت یا مشکل میں اچھا وقت یا یاد آئے۔
یہ پہلو کہ دشت میں آکرشاعرجب ویرانی، تنہائی سے دوچار ہوا تواسےیاد آیا کہ اس سے گھر بہتر تھا ۔
اس سطح سے مزید جن سطوح کے در وا ہوتے ہیں ان میں "دشت"اور "گھر"کے الفاظ کی صورت میں لفظی و معنوی تضاد سامنے کی چیز ہے۔
ایک پہلو یہ ہے کہ یہ ویرانی، ویرانی نہیں ہے بلکہ ویرانی سی ہے، اصل ویرانی تو گھر میں تھی ،ہم گھر چھوڑ کر ویرانی کی تلاش میں دشت آئے تھے مگر یہاں آ کر پتہ چلا کہ یہ تو گھر کی ویرانی کے مقابل نہیں ۔
یہ سب تفہیم کے ہنر کا کمال نہیں بلکہ شاعر کا وہ کمال ہے جو زبان کے استعمال پر قادر ہونے سے جنم لیتا ہے اور اسے ہم کثیر المعنویت سے تعبیر کرتے ہیں۔
یہی وہ اوجِ کمالِ فنِ شعر ہے جس نےمیر کو خدائے سخن اور مرزا اسداللہ خان کو غالب علیٰ کُلِ غالب کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
دنیا چار دن کی ہے، زندگی دو دن کی، عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن، مرنا تو ایک دن ہے ہی، موت تو ایک نہ ایک دن آنی ہی آنی ہے۔
مندرجہ بالا جملوں میں دنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی ناپائیداری کا ذکر ہے۔لیکن آپ نے دیکھا ان تمام جملوں میں، مصرعوں میں اس زندگی کے خاتمے، دنیا کے ناپائیدار ہونے یا موت آنے کے ذکر کے ساتھ ایک لفظ ضرور استعمال ہوا ہے،
اور وہ ہے۔۔دن۔۔۔
دن اگرچہ وقت کی طرف اشارہ ہےاور زمانی اکائی ہے۔لیکن زمانی اکائیاں تو اور بھی ہیں ۔یہ ایک الگ بحث ہے سو شعر کی طرف آتے ہیں ۔
ان تمام مذکورہ جملوں، مصرعوں میں موت کے حوالے سے دن کا تذکرہ ہے۔غالب نے بھی شعر میں اسی رائج مقولے، یا جملے پر ایک طرف طنز بھی کیا ہے اور مزاح کا پہلو بھی نکالا ہے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔یعنی موت دن کے وقت آئے گی تو پھر مجھے رات کو تو موت کا کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے جس کے باعث مجھے نیند نہیں آتی۔
شعر میں دن اور رات کے متضاد الفاظ پر زور کے کر پڑھیں تو پہلی قرات میں ہی یہ معنی گرفت میں آجاتے ہیں۔
اب نیند کا رات بھر نہ آنا، موت کا وقت مقرر ہونا اور ان دونوں باتوں کا آپس میں جلی اور خفی ربط کی جستجو یقیناََ شعر کے مزید افق آفاق کی سیر کرائے گی۔
موت کو ابدی نیند اور نیند کو عارضی موت کہا جاتا ہے۔نیند آرام و سکون سے تعبیر ہے اور موت ہمیشہ کے آرام و سکون کا استعارہ ۔
اب موت اور نیند کو اس تناظر میں دیکھیں تو یہ معنی برامد ہوں گے کہ ہمیشہ کے سکون کا پیغام تو موت لائے گی اور اس کا مقرر وقت ہے اس سے پہلے وہ قرار میسر نہیں آئے گا لیکن یہ کیا کہ عارضی قرار یعنی نیندکا وقت بھی مقرر ہے کہ رات نیند کے لیے ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ مجھے وہ بھی میسر نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
اس شعر میں سطح پر موجود معنی وہی ہیں جو ہمیں نہم جماعت میں بتائے گئےتھے یا ہم نے امدادی کتب سے پڑھےتھے۔
لیکن یہ غالب ہے اور اس کا شعر بس اتنا سا نہیں ہو سکتا۔
بہرکیف شعر میں اترنے کے لیے ہم پہلا قدم اسی زینے پہ رکھیں گے کیونکہ شعر کے اندر اترنے کا رستہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
١۔تلمیح استعمال کی گئی ہے۔یعنی حضرت عیسیٰ کو اللہ نے معجزہ عطا کیا تھا کہ وہ بیمار کو شفا دے دیتے تھے، اندھے کو بصارت یاب کردیتے تھے، مردے کو زندہ کردیتے تھے۔سو شاعر کہتا ہے کہ میرے درد، دکھ کا علاج ابنِ مریم ہی کوئی ہو جو کرے اس کے علاوہ کوئی یہ کام نہیں کر سکتا۔
اس پہلو کوسامنے رکھیں تو ۔۔دکھ۔۔جس کا بظاہر ذکر نہیں ہے،کو سمجھا جا سکتا ہےکہ شاعر کو کون سا ایسا دکھ ہے جس کی دوا کے لیے وہ ابنِ مریم کا منتظر ہے۔
کوڑھی کو شفایاب کرنا۔۔۔
اب اس مرض۔۔کوڑھ۔۔سے انسان کے،جسمانی اور روحانی دونوں طرح کے کوڑھ پن میں سے کسی ایک یادونوں کا اشارہ مل جاتاہے۔
اندھے کو بصارت عطا کرنا:اب یہ اندھا پن، کور پن ظاہری بھی ہو سکتا ہے اور باطنی بھی ۔دونوں امکانات موجود ہیں ۔
ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا کرے کوئی
کی روشنی میں
دیدہء دل کی بصارت کا نہ ہونا ایک دکھ ہے جس سے نجات کوئی اور نہیں ،صرف ابنِ مریم ہی دلا سکتا ہے۔
مردے کو زندہ کرنے کی بات مندرجہ بالا دو باتوں سے اب واضح ہے۔
شاعر اپنے دکھ کی دوا کے لیے کسی ابنِ مریم کا منتظر یاخواہش مندہے۔
٢۔ابنِ مریم ہوا کرے کوئی ۔۔۔ کوئی ابنِ مریم ہے تو ہو
میں اس کا کیا کروں،کوئی ایسا بھی ہے کیا جو میرے دکھ کی
دوا کر سکے۔
یہ اکتاہٹ بھرا لہجہ ہے جیسے کسی کے کہنے پر یا بتانے پر زچ ہو کر شاعر نے یہ کہا ہے۔
مزید اس سے متصل پہلو یہ ہے کہ کوئی ابنِ مریم ہے تو ہو مگر میں تو اسے تب مانوں جب وہ مجھے شفا دے۔
٣۔ اب ردیف کے آخری لفظ"کوئی "کو دیکھیے تو دونوں مصرعوں میں یہ دو الگ الگ شخصیات کے وجود کے لیے ہے ۔یعنی ابنِ مریم تو کوئی اور ہے یا ابنِ مریم ہونے کا دعویٰ تو کسی اور کو ہے اور میرا علاج کوئی اور کرے۔
مزید یہ امکان بھی شعر میں موجود ہے کہ جو کوئی میرے دکھ کی دوا کرے گا میں اسے ابنِ مریم تسلیم کر لوں گا۔جس طرح کوئی شرط لگائی جائے کہ کوئی یہ کام کردے تو میں اسے یہ انعام دوں گا۔
۴۔
یہ شعر نعتیہ بھی ہے۔
دوسرا مصرع میں کوئی ۔۔۔۔۔ پہلے مصرع کے کوئی سے بڑا ہو تو مطلع میں دو بار کوئی آنے کا سب سے مسلم جواز مہیا ہو گا۔ یہ تو ہے قرینہ ۔۔۔۔ اب دوسرا کوئی حضرت عیسیٰ
کے بعدکیوں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔
اس لیےابنِ مریم جسمانی شفا کا استعارہ ہے تو ہمارے لیے قابلِ احترام ہے مگر ہمارا دکھ جسمانی نہیں۔ ہمارا دکھ تو روحانی ہے۔ مولائے اعلا سے بچھڑنے اور اس کے فراق میں جلنے کا دکھ ۔ہمارا دکھ تو کوئی ایسا ہی دور کر سکتا ہے جو اس قرب کا حامل ہو کہ ہمیں بھی اپنے محبوب سے ملا دے۔ تو ظاہر ہے وہ کون ہے سوائے ذاتِ محمد کے ۔۔۔ ۔اب دوسرے مصرع کا کوئی پہلے مصرع کے کوئی سے بڑھ گیا بلکہ مسلم ہو گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
ہے کہاں۔۔۔ کس طرف ہے، ۔مکانی وقوع کا استفسار ہے۔
ہے کہاں۔۔انکار کا لہجہ ہے یعنی وجود ہہی نہیں رکھتا۔
تمنا کا دوسرا قدم۔۔ یعنی تمنا ایک قدم رکھ چکی ہے۔
تمنا کا دوسرا قدم۔۔پہلا قدم جو کسی اور کا ہے اب تمنا جو قدم رکھے گی یا رکھ چکی ہے وہ دوسرا قدم ہے ۔لیکن کہاں
جستجو کا دوسرا پاؤں رکھنے کی جگہ یا جستجو کا اگلا پڑاؤ کون سا مقام ہے یارب۔کیوں کہ یہ ساری کائنات تو ایک نقشِ پا ثابت ہوئی ہے۔
حیرت بھرا لہجہ ہے۔
جب یہ ساری کائنات ایک نقشِ پا ثابت ہوئی ہےیا یوں کہیے کہ یہ کائنات تو اتنی ہے کہ اس پہ ایک پاؤں رکھیں تو اس کے نقش جتنی ہے تو ہم اپنی جستجو کا اگلا قدم کس طرف رکھیں، کہاں رکھیں۔
استفسار و استفہمام ہے۔
تمنا کو مجسم کردیا ہے۔اور انکار کے لہجے میں دیکھیں تو معنی یہ ہوں گے کہ تمنا کا دوسرا قدم تو ممکن ہی نہیں ۔
کیونکہ ہم نے۔۔جو سراپا تمنا ہیں۔۔ایک قدم رکھا اور ساری کائنات مسخر کرلی۔تو اب تمنا کہاں قدم رکھے۔
جب ہمارے آگے یہ دشتِ امکاں یعنی کائنات ایک نقشِ پا ہے تو تمنا کے آگے اسی کی کیا حیثیت ؟
شاعر تمنا کے تعاقب میں، یا جستجو کی تلاش میں نکلا اور ساری کائنات تمنا کے قدم کا ایک نشان ثابت ہوئی تو حیرت سے سوال کیا کہ یارب جستجو نے اگلا قدم کہاں رکھا ہے یا کس طرف گئ کہ یہ دشتِ امکان جس کے ایک قدم کا نشان ہے۔
یہاں سے معنی کے کئی جہان کھل جاتے ہیں۔جس میں آج کے کائنات کے متعلق سائنسی مباحث بھی سمٹ آئے ہیں۔
سبحان اللہ
جب ہمارے لیے۔۔جن کی جستجو بھی خاص نہیں۔۔۔یہ کائنات ایک نقشِ پا جتنی ہے تو تمنا یا جستجو کے آگے اس کی حیثیت ہے۔
۔۔۔۔یہاں تمنا مجسم
personified
ہے۔
دوسرا پہلو ۔۔۔ہم سراپا تمنا ہیں اور کائنات ہمارے ایک قدم کے نقشِ پا جتنی ہے تو اب ہماری تمنا یا جستجو کی اگلی منزل، یا اگلا قدم کہاں پڑے گا ہوگا؟
(حیرت بھرا لہجہ ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر غالب کے اوپر بیان کردہ شعر کو ان کے اس شعر کے ساتھ رکھ کر پرکھا جائے کہ:
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضہء مُور آسمان ہے
(غالب)
تو غالب کا نظریہء کائنات اور نظریہء جبر و قدر کھل سامنے آتا ہے کہ تمنا کے قدم کہاں پڑیں جب اس کی کائنات کی وسعت ایک چینوٹی کے انڈے جتنی ہے۔
یا یہ کائنات کتنی وسیع ہو سکتی ہے جس میں آسمان چیونٹی کے ایک انڈے جتنا ہے۔سو ہم جو سراپا جستجو تھے ان پر یہ کائنات کی تنگی ایک ستم ہے۔
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔