غالب شاعری میں ایہام پیدا کرتے ہیںاور اندازہ ہے کہ وہ امیر خسرو کے ایہام کا تصور پیش نظر رکھتے تھے۔ ایک فارسی شعر میں خسرو سے تعلق بیان کیا ہے، وہ بھی زبان کے تعلق سے۔
زبان ِ من بہ جہاں بعد یک ہزارو دویست
ظہور ِ خسرو و سعدی بہ شش صدو پنجاہ
یعنی سعدی و خسرو کے ایک ہزاراور دوسوسال (ہجری ) بعد میں دنیا میں آیا۔ وہ مجھ سے چھ سو برس پہلے آئے تھے۔ غالب 1212ہجری (1797 )میں جب کہ سعدی ( 606) ہجری اور خسرو 651ہجری (1253)میں پید اہوئے۔ غالب بہ طور شاعر اپنا تصور نہ تو اپنے معاصرین کے ساتھ کرتے تھے نہ پیش رووںکے خوشہ چیں کے طور پر،بلکہ عظیم پیش رووں کی صف میں کھڑا ہونا پسند کرتے تھے یا ان کے مقابل آنا۔انھیں اپنی دیوتائی تخلیقی صلاحیت پر کبھی شک نہیں ہوا تھا۔"میں اہل زبان کا پیرو اور ہندیوں میں سواے امیر خسرو دہلوی کے سب کا منکر ہوں "۔
عام طور پر ایہام سے شعر کا ذو معنی ہونا مراد لیا جاتا ہے(اور اسی سبب سے اسے،مصنوعی اور ناپسندیدہ بھی ٹھہرایا گیا)۔ امیر خسرو نے سات معانی سےعبارت ایہام کو ایجاد کرنے کا دعویٰ کیا۔دیباچہ غرۃ الکمال میںامیر خسروکا قول درج ہے:
اگر اس سے قبل ایہام کی صورت دو چہروں کے ساتھ جلوہ نما ہوتی تھی جو دیکھتا حیران ہوتا تھا ۔ خسرو کی طبع فکر نے ایسا ایہام ایجا د کیا جو آئنے سےزیادہ پسندیدہ ہے کیوں کہ آئنے میں ایک صورت ،ایک خیال سے زیادہ نظر نہیں آتی لیکن یہ ایسا آئنہ ہے کہ اگر تم ایک چہرہ اس کے روبرو لائو تو یہ سات اور روشن خیال دکھاتا ہے۔
خسرو کی آئنے اور لفظ کی بحث توجہ چاہتی ہے۔ایم ۔ایچ ۔ ابرام نے 1953 میں Mirror and Lampکے عنوان کی کتاب میںرومانوی ادبی تھیوری کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ابرام کی نظر میں آئنہ ، نقل کی اور چراغ ،تخیل کی نمائندگی کرتا تھا۔مغرب میں پہلے رومانویت اور پھر جدیدیت نے نقل کی بجائے تخیل کے ذریعے یکسر نئی حقیقت خلق کرنے کا ادبی نظریہ وضع کیا۔ امیر خسرو نے تیرھویں صدی میں شاعری کو آئنہ سمجھنے کی ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ کیا۔ آئنہ بس وہی منعکس کرتا ہے جو سامنے ہے۔ایک شے ، ایک عکس۔ ایک لفظ ،ایک معنی ۔ لیکن خسرو کہتے ہیں کہ شاعری ایک اور طرح کا آئنہ ہے جس میں ایک شے کے مقابل سات عکس پید اکیے جاتے ہیں(یہ ایک شے دراصل قاری ہے)۔واضح رہے کہ خسرو نے آئنے کی بجائے چراغ نہیں کہا،کیوں کہ وہ چیزوں کو تضاد سے نہیں، فرق سے پہچانتے ہیں۔ایک آئنے کا فرق دوسری قسم کے آئنے سے۔شاعری کا آئنہ ،سامنے کی چیزوں کو نہیں، خود اپنی وضع کی ہوئی چیزوں (معانی) کو منعکس کرتا ہے۔غور کیجیے: خسرو کس طرح ،حقیقت نگاری کے کینن (عام آئنے ) کی تردید کی مدد سےایک یکسر مختلف شعری کینن متعارف کروار ہے ہیں۔ یہاں بھی ایک دل چسپ اتفاق کی طرف دھیان جاتا ہے۔ ولیم ایمپسن نے 1925میں Seven Types of Ambiguity لکھی تھی۔ ایمپسن نے ابہام کی ،جب کہ خسر ونے ایہام کی سات قسمیں بتائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایہام اور ابہام کے مفاہیم ملتے جلتے ہیں۔ ابہام بھی الفاظ کے خاص طرح کے استعمال سے پیدا اکیا جاتا ہےاور ایہام بھی ۔اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ ایمپسن نے ابہام کو باقاعدہ تنقید ی تھیوری بنادیا ، ہم ایہام کے سلسلے میں یہ نہیں کرسکے۔
خسر و نے ایہام کی ان قسموں تک رسائی کا طریقہ بھی بتادیا ،جو مشکل سہی مگر ممکن ہے: " جس شخص کو مصرعوں میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کا راستہ معلوم ہے ، اس کے لیے یہ (راستے ) غایت درجہ کشادہ ہیں"۔غورکیجیے: شاعری میں ایہام موجود ہے ،مگر اسے دریافت صرف وہ قاری کرسکتا ہے،جسے شاعری میں داخل ہونے( شاعری کے اسرار کا ذوق یا آج کی زبان میں شعریات کا فہم ہے) اور باہر نکلنے کاراستہ ( شاعری کے معنی کی دریافت و تعبیر کا علم ہے ) ہے۔صاف لفظوں میںشاعر ی کے دیار میں داخل ہونے کے لیے شاعری کی شعریات کا فہم وذوق اور اس کی تعبیر کاعلم باقاعدہ شرائط کا درجہ رکھتے ہیں۔ نیز شاعری واحد معنی کی حامل نہیں ہوتی ۔اچھی شاعری کی زبان میں کہی سے زیادہ ان کہی ہوتی ہے اور عیاں سے زیادہ نہاں ہوتا ہے ۔واضح رہے کہ ان کہی اور نہاں کا ابلاغ زیادہ مئوثر اور قوی ہوسکتا ہے!
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ شاعری کو ایسا آئنہ بنانا کہ اس سے سات معانی منعکس ہوں ، طلسم ہے۔ اس مقام پر ہم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ غالب نے اپنے مشہور شعر(گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے/ جو لفظ کہ غالب مرے اشعارمیں آوے) میں گنجینہ معنی کو طلسم کیوں کہا تھا۔
]اپنی زیر طبع کتاب "جدیدیت اور نو آبادیات :"سے اقتباس[
نوٹ:اس اقتباس میں دو تین جملوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔