اب یہ تعداد اور یہ مقدار کچھ اتنی زیادہ بھی نہیں تھی۔ صبح، پھر چاشت کے وقت، پھر دوپہر کے کھانے کے فوراً بعد، پھر سہ پہر کو، پھر مغرب کے لگ بھگ، پھر رات کے کھانے کے فوراً بعد، پھر رات کو ایک یا دو بار!
ڈاکٹر صاحب کو جو دوست بھی ہیں، یہ تعداد اور یہ مقدار خوش نہ آئی۔ بریگیڈیئر ڈاکٹر شاہد رانا کا اپنا ہی سٹائل ہے۔ لہجہ نرم اور دھیما مگر ایڈوائس سنجیدہ اور اٹل۔ ’’یہ تو زیادہ ہے!‘‘ اور پھر انہوں نے وہ ایڈوائس لڑھکائی جو مریض کو خوش نہ آئی۔ ’’پانچ بجے شام کے بعد چائے نہیں پینی‘‘۔
منیر نیازی نے کہا تھا ع
نہ میں پڑھی نماز تے نہ میں جام شراب دا پیتا
جام شراب کا تو کیا پیتے کہ عمر خیام تھے نہ غالب! ہم تو عدمؔ بھی نہ تھے۔ رہی نماز، تو وہ بھی بے رنگ، بے ذائقہ! سوز نہ گریہ! جیسے چھلکا ہو اور مغز نہ ہو! جیسے قالب ہو اور روح نہ ہو! بس یہ ہے کہ حاضری دے رہے ہیں۔
زندگی میں یہ ایک ہی تو رنگینی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے پرہیز کی نذر کر ڈالی! فراغتی و کتابی و گوشۂ چمنی تو اب میسر نہیں، لے دے کر رات ہوتی ہے اور کوئی دامنِِ دل کھینچنے والی کتاب یا کوئی نظروں کو جکڑ لینے والی فلم اور ساتھ ایک سستی، کم داموں والی پیالی میں چائے، ایک کے بعد دوسری! اس کے علاوہ رنگینی کون سی تھی؟ تمباکو نوشی نہ مے گساری، تمباکو نوشی کا شوق کچھ دن یونیورسٹی کے دنوں میں ہوا مگر انگلیوں سے جو بو آتی تھی، اس نے بد دل کر دیا۔
ڈاکٹر صاحب کی دلیل تھی کہ پانچ بجے شام کے بعد چائے رات کو بار بار اٹھائے گی، یوں نیند پوری نہ ہو گی! مگر ڈاکٹر صاحب سے کون پوچھے کہ کون سی نیند؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ یونیورسٹی کے زمانے سے بہت پہلے شب بیداری کی عادت پختہ ہو چکی تھی۔ پھر یونیورسٹی پہنچے تو وہ کوئی عام یونیورسٹی نہ تھی، ڈھاکہ یونیورسٹی تھی جسے مغربی بنگال کے ہندو طنز سے مکہ یونیورسٹی اور مشرقی بنگال والے آکسفورڈ آف ایسٹ کہتے تھے۔ رت جگے ڈھاکہ یونیورسٹی کے وجود میں رچے بسے تھے۔ یہ ملک کی واحد یونیورسٹی تھی جس کی (عظیم الشان) لائبریری چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ رات کے دس گیارہ بجے پڑھاکُو طلبہ آنا شروع کرتے۔ سفید کرتوں سفید پاجاموں میں ملبوس، پیروں میں چرم کی سیاہ چپلیں۔ ناشتے کا وقت ہوتا تو انگڑائی لیتے اور اٹھتے۔ اسی لائبریری کی لمبی مستطیل میزوں کے گرد بیٹھ کر بنگالی دوستوں سے طویل بحثیں ہوئیں۔ ’’ڈھاکہ یونیورسٹی لائبریری دی اک شام‘‘ کے عنوان سے چار سطروں کی پنجابی نظم بھی اسی زمانے میں ہوئی:
باہر ہوا دیاں چیکاں، اندر پکھے گھوں گھوں کردے
لیچی تے اِملی دے پَتر شیشیاں تے پے تردے
مٹی دے بُت، لکڑی دی میزاں دے آسے پاسے
یا پتھر دے کتبے نے قبراں دے آسے پاسے
یوں بھی ہوا کہ کمرۂ طعام سے عشائیہ کھا کر نکلے، برآمدے میں دوست مل گئے۔ باتیں شروع ہو گئیں، تھوڑی دیر کے بعد وہ موضوع آ گیا جس نے آنا ہوتا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان عدم مساوات، مشرقی پاکستان کی آبادی کو گھٹانے والا ون یونٹ اور مارشل لا کے نہ ڈھلنے والے سائے، ہم لنگی پوش وہیں کھڑے کھڑے صبح کر دیتے!
ایک بار تو امتحان میں فیل ہونے سے بال بال بچے۔ ایم اے کے پہلے سال کا فائنل امتحان تھا۔ دوسرے دن بینکنگ اور پبلک فنانس کا پرچہ تھا۔ سرِشام یونیورسٹی لائبریری سے ظہور نظر کی نظموں کا نیا چھپا ہوا مجموعہ ’’ریزہ ریزہ‘‘ ہاتھ آ گیا۔ نظموں نے ایسا جکڑا کہ صبح تک کتاب کا تین چوتھائی حصہ حفظ ہو چکا تھا۔ پروگرام ذہن میں یہ طے کیا تھا کہ پرچہ گیارہ بجے شروع ہو گا، ناشتے کے بعد دو گھنٹے مل جائیں گے جو تیاری کے لیے کافی ہیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں امتحانی پرچوں کا وقت تین گھنٹے نہیں بلکہ چار گھنٹے ہوتا تھا۔ گیارہ بجے سے تین بجے تک وقت مقرر چلا آ رہا تھا اور کیا نظمیں تھیں ظہور نظر کی!
اے دلِ زار و زبوں…اے دلِ ویران و خموش…آ ترا خون کریں…آ تجھے بے تاب کریں
ایک نظم ’’التجا‘‘ تھی:
بیتی رُت…بیتے دنوں کی راہ میں…اے ہوائے وادیٔ امروز! آہستہ چلو
اور ہاں وہ نظم جس کا عنوان ’’حفظِ مراتب‘‘ تھا:
لیکن اُس نے …عجب انداز میں صرف اتنا کہا…اس بھری بزم میں ہم دونوں کو سب جانتے ہیں…اپنی توہین نہ کر، میرا تماشا نہ بنا…تیرا غم تیرا ہے…میرا، میرا…مجھ کو نزدیک نہ کر!…میرے نزدیک نہ آ
صبح ناشتے کے بعد پبلک فنانس کی کتاب کھولی ہی تھی کہ کمرے کے کھلے دروازے میں بھائی آصف زمان انصاری نمودار ہوئے، آپ راجشاہی یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ کہنے لگے ’’میرے امتحان تو ختم ہو گئے، سوچا ایک دو دن کے لیے تمہارے پاس ڈھاکہ آ جائوں!‘‘ اسے کہتے ہیں ’تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ‘ ، وہ دو گھنٹے جو بچا کر پرچے کی تیاری کے لیے رکھے تھے، انصاری سے گپ شپ میں اور چائے پینے پلانے میں کٹ گئے۔ اب کمرۂ امتحان میں بیٹھے ہیں اور پڑھا ایک لفظ نہیں! پرچہ سامنے آیا تو ٹیکنیکل قسم کے سوال تو حل کرنے کا سوال ہی نہ تھا۔ مُڑ جُڑ کر مضمون نگاری کی لت کام آئی۔ جنرل نیچر کے سوالوں کے جواب لکھے اور ملک کی بینکاری اور پبلک مالیات کو ترقی دینے کی ایسی ایسی تجاویز پیش کیں کہ ممتحن کو پاس کرتے ہی بنی! مضمون نگاری کی یہی لت مقابلے کے امتحان میں مدد کو آئی۔ سو نمبر کا
essay
لکھنا تھا۔ 74نمبر آ گئے۔ صرف ایک صاحب تھے جن کے نمبر اِس پرچے میں اِس نالائق سے زیادہ تھے۔
پھر ازدواج کی دہلیز پار کی! بَری میں شب بیداری بھی ساتھ آئی! یاد ہے اُن دنوں
Gone with the wind
پڑھ رہا تھا۔ بیگم کی رات کو جب بھی آنکھ کھلتی دیکھتیں کہ ٹیبل لمیپ جل رہا ہے اور پڑھ رہا ہوں۔ صبح حیران ہو کر پوچھا: ’’رات بھر جاگتے رہے؟‘‘ کہا ’’ہاں! پڑھتا رہا، نیند آئی ہی نہیں!‘‘ خیر ناشتہ کیا، ویسپا نکالا اور دفتر پہنچ گئے۔ بیگم توقع کر رہی تھیں کہ ’’لڑکا‘‘ شام کو گھر آئے گا تو سو جائے گا۔ مگر دن کو سونے کا سوال ہی نہ تھا۔ دوسری رات پھر پڑھتے اور جاگتے گزری۔ اگلی صبح بدستور تازہ دم اور پھر دفتر! تین دن اور تین راتوں کے بعد ایک رات اور دن کا کچھ حصہ سو بھی لیتے تھے۔ گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی میں بی اے کا زمانہ تھا۔ ہم دو دوست مشاعروں کے لیے بھیجے گئے۔ پہلا مشاعرہ بورے والا تھا، دوسرا اسلامیہ کالج لاہور میں ’’شمعِ تاثیر‘‘ کا مشاعرہ! سرمد صہبائی نے کہ گورنمنٹ کالج لاہور سے تھے اور ہم سے سینئر، غزل میں پہلا انعام لیا۔ کہاوت یہ تھی کہ لاہور سے باہر انعام نہیں جا سکتا مگر تیسرا انعام لے ہی لیا۔ لیکن یہ تذکرہ ضمنی ہے۔ بات یہ بتانا ہے کہ روانہ ہونے سے پہلے پنڈی میں سوئے تھے۔ ملتان، بورے والا پھر لاہور تک کے سفر کے دوران نیند سے پرہیز رہا، واپس پنڈی پہنچ کر ہی آنکھ لگی۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
بہ شغلِ انتظارِ مہ وشاںن در خلوتِ شب ہا
سرِ تارِ نظر شد رشتۂ تسبیحِِ کوکب ہا
کہ راتوں کی تنہائی میں چاند جیسے لوگوں کا انتظار کرتے رہے، اس شغل میں نظر کا تار وہ دھاگہ بن گیا جس میں ستارے تسبیح کے دانوں کی طرح پرو دیئے گئے۔
’’برگِ نے‘‘ میں کمال کی ایک غزل ناصر کاظمی نے ہم جیسے شب بیداری کے مارے ہوئوں کے لیے لکھی ہے؎
دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
تھک گئے ناقہ و سارباں، تھم گئے کارواں
گھنٹیوں کی صدا سو گئی سو رہو سو رہو
دور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم گئے
چاند میں سو گئی چاندنی سو رہو سو رہو
گھر کے دیوار و در راہ تک تک کے شل ہو گئے
اب نہ آئے گا شاید کوئی سو رہو سو رہو
سست رفتار تارے بھی آنکھیں جھپکنے لگے
غم کے مارو گھڑی دو گھڑی سو رہو سو رہو
ہمارے دوست، انگریزی کے صاحبِ طرز ادیب پروفیسر معظم منہاس کہا کرتے ہیں کہ مرنا اچھی بات نہیں، یہ بھی کیا کہ انسان آنکھیں بند کر کے پڑا رہے۔ سو کچھ کو سونا بھی پسند نہیں۔ سونے سے مفر بھی کہاں ہے؟ زندگی بھر نہ ہونے والے بھی آخرکار سو جاتے ہیں ع
عِوَضِ یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز!
غالب نے مے نوشی چھوڑی مگر کہاں چھوڑی۔ ایک دن اعتراف کر ہی لیا؎
غالب چھُٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں
تاہم چائے نوشی کا ابر آلود دن اور چاندنی رات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق تو اُس موسم سے ہے جو اندر ہے اور ہر دم بدلتا ہے۔ ایک شام ڈاکٹر صاحب کی ہدایت پر سختی سے عمل کیا۔ کل رات کے کھانے کے بعد بغاوت کر دی۔ آج دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ ذوقؔ نے تو ڈاکٹر صاحب کو نسخہ لکھنے سے ہی روک دیا تھا ؎
نسخہ پر لکھنے نہیں پاتا ہوالشافی طبیب
کہتا ہے بیمار بس کر! مجھ کو بالکل ہے شفا
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“