غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں ماہانہ ادبی نشست
گزشتہ روز غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں ماہانہ ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا۔نشست کی صدارت ڈاکٹر جی آرکنول نے کی۔ انھوں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ کنور مہندر سنگھ بیدی نے جوش کا پر اثر مرثیہ لکھا تھا۔بچوں کے ادب پر علامہ اقبال نے بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔پرندے کی فریاد،ماں کا خواب، ایک گائے اوربکری،مکڑا اور مکڑی سب بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں ایک نظم بچے کی دعا تو بہت مقبول ہوئی ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر عقیل احمد نے خواجہ حسن ثانی نظامی پر ایک پرچہ پڑھتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب دہلی کی تہذیب کے ثنا خواں تھے۔خاص طور سے دہلی کی زبان کی سادگی اور سلاست کے و ہ نہ صرف معترف تھے بلکہ اس پر عمل پیرا تھے۔اس موقع پر چشمہ فاروقی نے ”ادب اطفال موجودہ دور میں ایک جائزہ“ کے عنوان سے مضمون پڑھا۔ شعرا نے اپنے اشعار پیش کئے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ؎
اب تو ہر دیوانہ بھی رکھتا ہے اک چالاک دل
تھا جو غالب کا دل نادان یارو کیا ہوا
جی آر کنول
دیوان خاص و عام وہ موجود ہیں ابھی
ہوتے تھے جن میں ذوق کبھی شمع انجمن
متین امروہوی
جو ہیں خود میری بربادیوں کا سبب
پوچھتے ہیں وہی تم ہو کیوں نوحہ خواں
احمد علی برقی اعظمی
انا بن کر تری ہستی کو ظالم توڑ نہ ڈالے
خودی سے آخرش میں نے کہا ایسا نہیں ہوتا
نسیم بیگم نسیم
لبوں سے ٹوٹ گئے گفتگو کے سب رشتے
وہ دیکھتا ہے تو بس دیکھتا ہی رہتا ہے
سیماب سلطان پوری
نشۂ ہستی کو اور دستِ ہنر کو دیکھ کر
پھیر کر نظریں کہا، ہے دستکاری،واہ وا
شاہد انور
زلف بردوش ادھر سے جو کبھی تو نکلے
راستے میں ہر اک سمت سے خوشبو نکلے
سرفراز احمد فراز
میں ٹوٹ کر بکھر گیا فرقت میں آپ کی
اتنا سا ہے فقط میری آوارگی کا سچ
سمیر دہلوی
وبا ختم کردے مرض ختم کردے
الہٰی میں ایسی دوا چاہتا ہوں
اسلم جاوید
شمع کو یوں آدھار پانا پڑا ہے
کہ اپنا بدن ہی گلانا پڑا ہے
ارن شرماصاحب آبادی
مزاج وقت کچھ ایسا بدلتے دیکھا ہے
فضائے سرد کو شعلے اگلتے دیکھا ہے
کاوش اکبر آبادی
نشست میں عزیزہ مرزا اور سنینا نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔سامع کی حیثیت سے انعام پیٹر چرنجیت،فرقان علی اور عربی اور اردو کے طالبعلموں نے شرکت کی۔بشریٰ بیگم نے نشست کو فیس بک پربراہ راست نشر کیا۔آخر میں سکریٹری کے شکریہ کے ساتھ نشست ختم ہوئی۔