غیرت مند چھری اور کمبل کے نیچے پڑی چیخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرتگالی ادیب حوزے ساراماگو کے ناول ،،، اندھے لوگ ،، میں سارے کا سارا شہر اندھا ہوجاتا ہے ۔ کھانا کھاتے ۔ چوری کرتے ، کار چلاتے ۔ آنکھوں کا علاج کرتے ، ا سٹیج پہ اداکاری کرتے اور ہم بستریاں کرتے کرتے لوگ اندھے ہو جاتے ہیں ۔۔ تقریبا سارا شہر اندھا ہوجاتا ہے جو بچ گئے وہ اندھا ہونے کے منتظر ہیں ۔۔ وہ سب اندھے ہو جاتے ہیں ۔۔ شہر میں جو سب سے پہلے اندھا ہوتا ہے اس کی دوست اس کو کہتی ہے ،،، میں نہیں سمجھتی کہ ہم اندھے ہوگئے تھے بلکہ ہم اندھے ہیں ، ہم دیکھ سکتے ہیں ۔۔ایسے اندھے جو دیکھ سکتے ہیں مگر دیکھتے نہیں ،،
یہ سب اُس نے اس لیے کہا کہ وہ اندھے ہو گئے تھے مگر گونگے اور بہرے نہیں ہوئے تھے ۔ انہوں نے اپنی آواز کو اپنی آنکھیں بنا لیا تھا ، انہوں نے اپنے کانوں کو اپنی آنکھیں بنا لیا تھا ۔۔ اور پھر اپنی انہیں آواز بنی آنکھوں اور انہیں کان بنے آنکھوں سے انہوں نے اس اندھے پن کی بیماری پہ قابو پا لیا
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اندھے ہی نہیں ہم گونگے اور بہرے بھی ہو چکے ہیں ۔۔ معاشرے کا ہر حکیم ہمیں اندھے گونگے اور بہرے بنانے میں دن رات ہماری مدد کرنے میں جُتا ہوا ہے ۔ معاشرے کا سب سے بڑا حکیم ٹی وی چینل ہماری رہی سہی بصارت ، آواز اور گویائی کو بھی ختم کرنے میں نئے نئے نسحے آزماتا رہتا ہے ۔ اخبارات اندھے ، بہرے اور گونگے ہونے کا مفت اپریشن کرانے کے اشتہار چھاپ رہے ہیں اور ہم اندھے گونگے اور بہرے صرف یہ اشتہار پڑھنے کے لیے اخبار خریدنے کی قطار میں لگے ہوئے ہیں
ہماری آ نکھیں ، ہماری زبانیں اور ہمارے کان اس وقت اچانک صحت مند ہو جاتے ہیں
جب ممتاز قادری کے جنازے کو ٹی وی پہ نہیں دیکھایا جاتا ہے ۔۔
ہماری زبانیں کان اور آنکھیں اس وقت جاگ پڑتی ہیں جب کرسچن آسیہ بی بی پانی لینے جاتی تو ہماری آنکھوں کو اس کے گھڑے میں توہیں ِ رسالت کا ملا پانی نظرآجاتا ہے۔۔
ہماری زبانیں ، کان اور آنکھیں اس وقت پوری قوت سے جاگ پرتی ہیں جب اندھے گونگے اور بہرے لوگ اپنی جہالت کی کدال سے بابری مسجد کی اینٹ کو اکھاڑ رہے ہوتے ہیں ۔۔
مگر ہم اندھے گونگے اور بہرے ہوجاتے ہیں جب کراچی میں ایک مسجد کی سیڑھیوں پہ چند گھنٹے پہلے پیدا ہونے والے بچے کو لوگ بھاری بھاری پتھروں سے سنگسار کر رہے ہوتے ہیں
ہم اندھے گونگے اور بہرے ہو جاتے ہیں جب لاہور کے قریب ایک کرسچن میاں بیوی کو جہالت کی آگ کے بھٹے میں پھینک دیا جاتا ہے۔۔ آگ کا وہی بھٹہ جہاں یہ میاں بیوی ساری عمر کچی اینٹوں کو پکانے کے لیے اس بھٹے میں رکھتے رہے اور ہم اندھے گونگے اور بہرے لوگوں نے انہیں اینٹوں سے اس میاں بیوی کو سنگسار کر کے اسی آگ کے بھٹے میں پکنے کے لیے پھینک دیا
ہماری زبانیں ۔ کان اور آنکھیں پوری قوت سے جاگ جاتی ہئں جب ہماری بیٹی یا بہن کسی سے فون پہ بات کر رہی ہو تی ہے اور اس کے کان کسی کی آواز سن رہے تھے
ہم شاید سوئے رہتے مگر ہمیں یہ جاگتی چھری جگا دیتی ہے جس کو غیرت کی دھار سے تیز کیا گیا ہوتا ہے
ہم شاید سوئے رہتے مگر ہمارے باپ کی اواز ہمیں جگادیتی ہے جب ہم اپنی بہن پہ غیرت والی چھری سے وار کرتے ہیں تو پمارا باپ ہر وار پہ کہہ رہا تھا ،، شابش بیٹے میں نے تجھے معاف کیا ،، اور زور سے میرے بیٹے میں نے تجھے معاف کیا
ہماری بہن اوربیٹی بولتی رہتی ہے چیختی رہتی ہے مگر ہم صرف اپنے باپ کی آواز سن رہے ہوتے پیں جو کہہ رہا ہوتا ہے،، شابش بیٹے میں نے تجھے معاف کیا ،، اور زور سے بیٹے میں نے تجھے معاف کیا
اور ۔۔۔۔ اور پھر ہم اپنی بہن کی چیخ کو بیچ چوراہے پہ لے آتے پیں تاکہ اگر کوئی اور بھی اس کی آواز سن رہا ہو تو اس کو بھی اس غیرت والی چھری سے خاموش کر دیں
چوراہے پہ اس چیخ پہ پڑا کمبل بول رہا ہوتا ہے ، اس چیخ کے ہاتھ بول رہے ہوتے ہیں اس کے سر کے بال بول رہے ہوتے ہیں ۔۔ مگراس چیختی آواز کے قریب صرف ہمارے فون جاگ رہے ہوتے جس پہ ہم اپنی بیٹی یا بہن کی آخری چیخیںوں کو ریکارڈ کر کے اور اس کو فیس بک پہ لگانے مصروف ہوتے ہیں
اس سب میں ایک آنکھ جاگ رہی تھی ایک زبان بول رہی تھی۔۔ اوراس کا کان بہرا نہیں ہوا جب اس بیٹی کا باپ کہہ رہا تھا میں نے اپنے بیٹے کو معاف کیا
آو آج فیصلہ کریں ہم اس غیرت مند چھری کے ساتھ ہیں یا
چوراہے میں کمبل کے نیچے پڑی اس چیخ کے ساتھ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“