جب سب دُکھ ہمارے ہیں تو سب سُکھ نہ صحیح کچھ سُکھ ہمارے کیوں نہیں؟
جب سفر ہماری بہنوں کا مقدر ٹھہرے ہیں تو سروں پر چاپ ان کا مقدر کیوں نہیں؟
جب طویل انتظار ہماری بیٹیوں کا مقدر ٹھہرا تو ٹھورا ہی صحیح سُکھ کے پل ان کا مقدر کیوں نہیں
دکھ،پریشانی،اذیت،خوف،تو ہماری بہنوں کا اُوڑنا بچھونا ہی ہے پر سازوں پر جھومنا ان کا مقدر کیوں نہیں؟
سسئی جیسے سفر کی تو وہ ہیراک ہیں (عادی)ان کے پیر تو ان سفروں کے عادی ہو چکے جن سفروں میں جو تے نہیں ٹوٹتے دل ٹوٹتے ہیں جن سفروں میں پیر تو پیر پر دل بھی زخمی ہو جا تے ہیں
پر ان کے پیر چاپ پر رقص کے عادی کیوں نہیں؟!
وہ کیوں ہمیشہ اپنی شال کو شکستہ خوردہ پرچم ہی بنائیں اور وہ شال کیوں ہمیشہ سوالیہ؟نشان ہی بنی رہی؟
وہ اپنی شال کو سروں کے سُپرد کیوں نہ کریں؟
وہ کیوں ہمیشہ سسئی بنی رہیں جن کے جیون کے لیے لطیف نے کہا تھا کہ
”جئین کان جیڈیون مون وڈا وس کیا!“
وہ سُروں،سازوں،سنگیتوں کے بیچ کیوں نہ جئیں جہاں بس زندگی ہو زندگی میں درندگی نہ ہو!
وہ کیوں ہمیشہ روڈوں،رستوں،شاہراؤں پر نظر آئیں؟
وہ زندگی،رنگوں،سازوں،خوشبوؤں کے پنڈالوں میں کیوں دکھائی نہ دیں!
کیوں ہمیشہ ان کے ہاتھوں میں گم کیے افرادوں کی دکھتی مٹتی تصویریں ہوں کیوں ان کے ہاتھوں میں ان لکھے ان دکھے ان چٹے بینر ہوں؟
ان کے ہاتھوں میں وہ شال کیوں نہ ہو جو رقص پر آپ ہی جھول اُٹھے!
وہ کیوں ہمیشہ پریس کلبوں کے دروں پر نظر آئیں،ان کی آنکھوں میں آنسو ہوں جب وہ ہاتھ میں مائیک لیے کچھ کہنے کی کوشش کریں تو سب سے پہلے ان کی آہ نکلے،پھر سسکی نکلے پھر آنسو!
اگر کسی نے جمال ابڑو کی لکھی کہانی(پیرانی) پڑھی ہے تو بات یہاں تک ختم ہو جا تی ہے اگر کسی نے جمال ابڑو کی (پیرانی) نہیں پڑھی تو بات یہاں سے شروع ہوتی ہے
ان کے پھرپھراتے لزرتے لبوں سے جو آہ نکلتی ہے وہ ایسی ہی ہو تی ہے کہ
”ہائے منھنجی پیرانی!“
پر وہ کسی یونیورسٹی کے منچ میں شامل ہو کر کسی بلوچ دھرتی کے بلوچ گیتوں پر تتلیوں کی طرح محو رقص کیوں نہیں ہو سکتیں؟!
جب سب دکھ ان کے ہیں تو کچھ سکھ ان کے کیوں نہیں؟
ریاست نے تو ان بیٹوں کے پلوں سے درد بچوں کی طرح باندھ دیے پر کیا ہماری بیٹوں کے پلوں سے ہم کچھ ہی صحیح پر خوشیاں نہیں باندھ سکتے؟
ہماری بلوچ بیٹوں کے طویل سفر،آہ و بکازخمی پیر،دھول آلود جوتیاں،میلی مانگیں،ہماری ماؤں کی اندھی ہو تی،بے نور ہو تی آنکھیں،دھڑکتے دل،نیند سے عاری سیاہ ترین راتیں،شہر شہر دربدری،گھروں سے دوری،نیند نہ آنا اگر نیند آ بھی جائے تو ہلتے دروں پر اُٹھ بیٹھنا،کمیشنوں کے سامنے حاضر ہونا،تذلیل ہونا،کچھ یاد رہنا بہت کچھ بھول جانا،گم شدہ بیٹوں کی شکلیں بھول جانا،رونا،اداس ہونا چُپ ہوجانا پھر سے رونا!سرد راتوں کا طویل تر ہونا،تم نہیں جان پاؤ گے یہ سرد راتیں کیا ہو تی ہیں ان ماؤں سے پوچھو یہ سرد راتیں کیا ہیں جو رات بھر عبادت کی طرح روتی ہیں اور دن کو چُپ رہتی ہیں!
جن ماؤں کے ماتھوں پر سجدوں کے نشان نہیں
پر ان ماؤں کے پیر دھول آلود ہیں
اور ان ماؤں کے نینوں پر سدا رہنے سے آنسوؤں کی لکریں بن چکی ہیں
کسی درد کی طرح
زم زم کی پکار کی طرح
حاجرہ کی بے قرار دوڑ کی طرح
وہ مائیں عبادت گزار نہیں
وہ مائیں تہجد گزار نہیں
وہ مائیں صدا کی غم گین ہیں
ایسی غم گین جس کے لیے گلزار نے لکھا تھا کہ
”ایسی غم گین جیسے تیرے نمازی!“
کیا یہ سب بے معنیٰ ہے؟!!!!!
اگر اس کے کوئی معنیٰ ہے تو جب وہ بلوچ غیرت مند کہاں تھے جب مائیں مسافر بنی تھیں،جو آدھی رات کو مشکے سے چلتی تھیں اور دن کی روشنی میں شال کی گلیوں میں پہنچ کر یہ صدا دیتی تھیں کہ رات کون کہاں سے اُٹھا لیا گیا جب وہ مائیں اپنے لٹے بھمبور کے قصے بین کرتیں اور بتا تیں کہ ان کے پنہوں کو کون سے ہوت لے گئے جب یہ بلوچ غیرت مند کہاں تھے؟
مسافر،مائیں بہنیں،بیٹیاں تو کچھ تھیں جو دردوں کی ماری تھیں جو درد ساتھ لیے مسافر بنی تھیں شال کی گلیوں سے مورڑو کے شہر،مورڑو کے شہر سے شہر ِ اقتدار جب یہ سیکڑوں غیرت مند بلوچ کہاں تھے؟
جب حسیبہ کسی زخمی مورنی کی طرح چیختی تھی تو غیرت مند بلوچ کہاں تھے؟
جب دو بہنیں اپنے گم شدہ بھائی کی فوٹو لیے شال کی گلیوں میں قلندر بنی ہو ئی تھیں بلوچ غیرت مند کہاں تھے؟
جب سمی درد سے بولنا بھول جا تی ہے تو بلوچ غیرت مند کہاں تھے؟
میں ان سیکڑوں ماؤں کی تو بات ہی نہیں کر رہا جو زخمی مورنیوں کی طرح شال کی گلیوں میں اتریں
اور زخمی کونجوں کی طرح وہاں دفن ہو گئیں جہاں ان کے کچے مکاں تھے
جب کہاں تھے بلوچ غیرت مند؟!!!
غیرت مند بلوچوں نے ان خوابوں کو تو دیکھا ہی نہیں جو آنکھوں میں آنسوؤں کی طرح جلے
اور آنسو بن کر بہہ گئے
راہوں میں
شال کی گلیوں میں
پریس کلب کے دروں پر
سفرو ں میں
شاہراؤں میں
اور ماؤں کی میلی چادروں میں جذب ہوئے
ان خوابوں کا کیا
”اے شب کے پہرِ داروں
صبح جب دن چڑھے تو
میرے خوابوں کو
سورج سے ناپنا!!!!“
یہ بلوچ غیرت مند سورج سے دکھ کیا ناپتے پر اپنے ہاتھوں میں بھالے لیے ان بیٹیوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جو سازوں کو پسند کرتی ہیں جو رنگوں سے محبت کرتی ہیں جو ہاتھوں میں شال لیے خوشبو بنی ہوئی ہیں
جو اداس دیس کی معصوم تتلیاں ہیں
جو میٹھی زباں کے شیریں لب ہیں
جو سر بلند کی دھرتی کے عالی شان رنگ ہیں
یہ دھرتی بھی ہماری
یہ تتلیاں بھی ہماری
یہ غیرت بھی ہماری
یہ بیٹیاں بھی ہماری
تم بس اپنی غیرت کا چورن بیچو
پوری بلوچ دھرتی رقص میں ہے
کیوں کہ دھرتی کی کونجیں رقص میں ہیں
”یہ رقصِ رقصِ پہیم
یہ رقصِ روز ِ اول
یہ رقص آخری ہے
یہ رقص دار پر بھی
منصور نے کیا تھا
یہ رقصِ قونیا میں
درویش نے کیا تھا
تلوار ناچتی ہے
ہر بار ناچتی ہے
یہ رقصِ بے لباسی
یہ رقص سرمدی ہے
اس رقص میں ابھی چند
یہ رقصِ دلبری ہے
اس رقص میں قلندر
یہ رقص خانقاہی
یار کو ہے سجدہ
اور رقصِ بارگاہی
یہ رقصِ روز اول
بس یار کی گلی میں
یہ رقص آخری ہے
یہ رقص آخری ہے!“
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...