علماء کے کسی فور م پر ایسا پہلی بار ہوا ہے!
پاکستان علماء کونسل کے زیراہتمام ’’ ہم آہنگی کانفرنس‘‘ میں غیرت کے نام پر قتل کو خلافِ اسلام قرار دیاگیا ہے۔ کانفرنس میں شامل علماء کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ جو لوگ غیرت کے نام پر بیٹیوں کا قتل اسلام میں جائز سمجھتے ہیں ان پر حکومت تین تین مقدمات قائم کرے۔ ایک قتل کا… دوسرا فساد پھیلانے کا… اور تیسرا اسلام کو غلط رنگ دینے کا!
لیکن کیا اہلِ مذہب کی اکثریت اس سے اتفاق کرے گی؟ غالباً نہیں! اکثر و بیشتر میں اتنی ہمت نہیں کہ اتفاق کرنے کی صورت میں اس کا اظہار بھی کرسکیں۔
مارچ 2005ء میں کشمالہ طارق نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف پارلیمنٹ میں بل پیش کیا تھا تو جاگیرداروں اور وڈیروں کے شانہ بشانہ ایم ایم اے کے علماء کرام نے بھی بل کی مخالفت کی تھی اور یوں بل ا پنی موت آپ مر گیاتھا!
کوئی مانے یا نہ مانے، حقیقت یہ ہے کہ مذہبی طبقے کو عورت سے چڑ ہے۔ عورت کو جو آزادی اسلام نے عطا کی ہے‘ نام نہاد علماء وہ آزادی دینے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ اس ضمن میں بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ مقامی ثقافتی اقدار کو اسلام کے نام پر تحفظ فراہم کرتا ہے۔ نیم خواندہ مقتدی اور معتقدین میں اتنی ہمت کہاں کہ حضرت صاحب سے دلیل مانگیں یا ریفرنس کا‘ حوالے کا پوچھیں ! عام طور پر جو دلائل دیے جاتے ہیں وہ اس قبیل کے ہوتے ہیں:
یہ این جی اوز کی شرارت ہے۔
یہ یہودیوں کی کارستانی ہے۔
ہم غیر اسلامی ایجنڈے کو نہیں چلنے دیں گے۔
عملی صورت احوال یہ ہے کہ اسلام کے نام پر بنائی گئی اس مملکت میں عورت کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے، اس کا اسلام سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں!
آپ نے جب سے ہوش سنبھالا ہے جمعہ کی نماز سے قبل مولوی صاحب کے ارشادات سن رہے ہیں۔کیا آپ نے آج تک کسی مولوی صاحب کو یہ بتاتے سنا ہے کہ لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ اس کی بطیب خاطر رضا مندی لازم ہے۔ اگر آپ کو ایسی کوئی تلقین یاد پڑتی ہے تو آپ خوش قسمت ہیں!
روزنامہ ’’ عرب نیوز‘‘ جدہ سے نکلنے والا ایک موقر اخبار ہے۔ سعودی عرب کا سب سے بڑا اشاعتی ادارہ ’’ سعودی ریسرچ اینڈ پبلشنگ کمپنی‘‘ اس وقت تیس کے قریب اخبارات و جرائد نکال رہا ہے اور ’’ عرب نیوز‘‘ ان میں سے انگریزی زبان کا سب سے بڑا نمائندہ ہے۔ ایک لحاظ سے عرب نیوز سعودی حکومت کی ترجمانی بھی کرتا ہے۔ ’’عرب نیوز‘‘ میں ایک طویل عرصہ سے اسلام سے متعلق سوالوں کے جوابات دیے جارہے ہیں۔ یہ جوابات کتابی صورت میں ’Our Dialogue‘ کے نام سے شائع ہوکر پوری دنیا میں پڑھے جارہے ہیں اور انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ ’’عرب نیوز‘‘ میں سعودی حکومت کے سعودی عالم دین سے ایک سوال کیاگیا(سوال نمبر 371) کہ ایک شخص نے ایک لڑکی سے شادی کا وعدہ کررکھا تھا۔ جب اس نے اپنے ماں باپ کو لڑکی کے گھر بھیجا تو انہوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ لڑکی کو زدو کوب کرنا بھی شروع کردیا۔ تاہم لڑکی ماں باپ کے دبائو اور مارپیٹ کے باوجود وہیں شادی کرنا چاہتی ہے۔ چونکہ فریقین سعودی عرب میں رہتے ہیں اس لیے کیا یہ ممکن ہے کہ لڑکا اور لڑکی اسلامی عدالت کے ذریعے شادی کرسکیں؟ جواب میں وضاحت کی گئی ہے کہ جب بھی مقامی رسم و رواج کا اسلامی تعلیمات سے تصادم ہوتا ہے تو بدقسمتی سے لوگ اسلامی تعلیمات کے بجائے رسم و رواج کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ جہالت ہے۔ اس کے بعد سعودی عالم تحریر کرتے ہیں:
’’ اگر کوئی لڑکی ماں باپ کی زیادتی کا شکار ہوتو اسلام اسے اپنا معاملہ اسلامی عدالت میں لے جانے کی سہولت فراہم کرتا ہے، جج اس بات پر غور کرے گا کہ ماں باپ کا انکار جائز ہے یا انکار کی وجوہ ٹھوس نہیں ہیں۔ اگر وہ قائل ہوجاتا ہے کہ ماں باپ کا انکار بلاجواز ہے تو جج خود لڑکی کا ولی بن جاتا ہے اور اس کی شادی وہاں کردیتا ہے جہاں سے تجویز آئی ہے اور جہاں وہ کرنا چاہتی ہے۔ کسی جائز وجہ کے بغیر انکار کرنے کے بعد والد لڑکی کا ولی نہیں رہ سکتا۔‘‘
چند دن پیشتر لاہور ہائیکورٹ کے دروازے پر ایک حاملہ خاتون کو اس کے باپ اور بھائیوں نے اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا۔ عالمی پریس میں بھی خبر چھپ گئی۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ سنگدل سے سنگدل شخص بھی اس کا جواز پیش نہیں کرسکتا، لیکن آفرین ہے ہمارے مذہبی طبقہ پر… یہاں بھی وہ اپنے اس عزم سے پیچھے نہیں ہٹا کہ عورت کا کسی صورت ساتھ نہیں دینا۔ جنوب سے ایک روزنامہ نکلتا ہے جس نے سیاست کی پتلون پر مذہب کی عبابھی اوڑھی ہوئی ہے۔ گمنام پولیس افسر کا(جانے اس کا وجود ہے بھی یا نہیں) کندھا استعمال کرتے ہوئے یہ مذہبی اخبار لکھتا ہے…’’ یہ ایک سیدھا سادا قتل کا واقعہ تھا۔ ملزمان پہلے سے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اینٹوں کو آلۂ قتل کے طور پر استعمال کیا، لیکن ہمارے میڈیا نے حسب سابق غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے سنگساری کا واقعہ بنا ڈالا‘ جس کے باعث این جی اوز نے یہ واویلا کیا اور بین الاقوامی سطح پر بھی حکومت پر دبائو بڑھا۔ اسی لیے برطانوی وزیر خارجہ نے بھی واقعہ کی مذمت کی۔‘‘
تعجب ہے اگر اینٹوں سے قتل سنگسار نہیں ہے تو کیا ہے؟ چونکہ ارادہ قتل کا تھا اس لیے اینٹیں بھی استعمال ہوگئی ہیں تو این جی اوز کیوں واویلا کریں؟ یعنی اگر این جی اوز یا بین الاقوامی پریس تک بات پہنچ جائے تو ہر حال میں سنگسار (یا قتل) کا دفاع کیاجائے گا!! یہ وہی بات ہے کہ ہماری اپنی طشتری ہے۔ ہم اس میں مٹھائی ڈال کر کھائیں یا غلاظت، تمہیں کیا!
ایک محترم عالم دین نے اس سلسلے میں ’’احتیاطی تدابیر‘‘ بھی تجویز کی ہیں جو قابل ستائش ہیں۔ تاہم ان میں دو خاصی دلچسپ ہیں۔ فرماتے ہیں ’’اگر ریاست جنسی جرائم میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دے تو معاشرہ خودبخود اخلاقی جرائم سے پاک ہوسکتا ہے‘‘۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اگر والدین کو یقین ہوجائے کہ ان کی بہن یا بیٹی کی بدچلنی پر قانون حرکت میں آئے گا تو بہت سے لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے باز آسکتے ہیں‘‘۔
یعنی بدچلنی کی سزابہن یا بیٹی کو ملے ، مرد کی خیر ہے! بیٹا زنا کرتا رہے تو اس سے غیرت متاثر نہیں ہوتی!
پھر فرماتے ہیں ’’والدین اور سرپرستوں کی اجازت کے بغیر نکاح کی حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ لڑکی کی اجازت کے بغیر جبراً اس کو نکاح پر مجبور نہیں کیا جاسکتا لیکن آپ ؐ کے فرامین اور آپ ؐ کے قریبی رفقا کے طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ قرون اولیٰ کی عورتوں کو والدین اور سرپرست ہی گھر سے الوداع کرتے تھے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی قانون کی رو سے لڑکی کی رضا مندی کے بغیر جبراً اسے نکاح پر مجبور نہیں کیاجاسکتا… تو اگر ایسا جبر کیا جائے تو کیا یہ نکاح جائز ہوگا؟ کیا لڑکی کو بے زبان جانور کی طرح جس کھونٹے پر باندھیں ، وہ خاموشی سے بندھ جائے؟ لڑکی کے انکار کی صورت میں زبردستی نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ ان سوالوں کے واضح جواب کیوں نہیں دیے جاتے ؟؟
’’ احتیاطی تدابیر‘‘!! خوب تدابیر ہیں ! لیکن یہ کیوں نہیں تلقین کی جاتی کہ ماں باپ لڑکی کی پسند ناپسند کی خیال رکھیں۔ جس شادی پر لڑکی رضا مند نہیں، اس سے احتراز کریں اور جو مرد علیحدگی کے بعد بیوی کو اذیت دینے کے لیے لٹکائے رکھتے ہیں اور ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت طلاق دینے سے لیت و لعل کرتے رہتے ہیں، انہیں اس شیطانی منصوبہ بندی اور غیر انسانی اذیت رسانی سے روکا جائے۔
لیکن یہ سب کچھ کھل کر کہا جائے تو ’’دکانیں‘‘ بند ہوجائیں گی۔ چندے والی صندوقڑیاں خالی رہنے لگیں گی۔ مسجد کمیٹی کے ارکان ناراض ہوگئے تو صاحبزادے کو وراثت میں مسجد کی امامت اور خطابت کیسے ملے گی؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“