وہ ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر لیٹی ہوئی تھی۔ بے پناہ درد سے اس کا منہ نیلا اور پھر پیلا ہو رہا تھا۔ پورے بدن پر کپکپی طاری تھی ارد گرد گاڑیوں کا سمندر تھا۔ کوئی گاڑی حرکت نہیں کر رہی تھی۔ باپ نے بے بسی سے اسے دیکھا۔ پھر رکی ہوئی گاڑیوں کے بے کنار سمندر کو دیکھا۔ ماں اسکی ہتھیلیاں مل رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آخری ہچکی لی۔ سائرن کی آوازیں آئیں۔ کہیں دور سے تیز رفتار گاڑیوں کا طوفانی قافلہ گزر رہا تھا۔
خدا خدا کر کے ٹریفک کا ٹھہرا ہوا دریا رواں ہوتا ہے۔ ٹیکسی جناح ہسپتال پہنچتی ہے۔ ’’افسوس! آپ کچھ دیر پہلے پہنچتے تو جان بچ سکتی تھی‘‘ ڈاکٹر مظلوم اور مجبور باپ کو بتاتے ہیں۔
یہ دلخراش واقعہ 29 مارچ2006ء کو پیش آیا۔ ظل ہما کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی ہونہار طالبہ تھی۔ اس دن کراچی شہر میں صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف آئے ہوئے تھے۔ انکی جان کی حفاظت کیلئے کراچی کے راستے بند کر دیئے گئے تھے۔ جو گاڑی جہاں تھی وہیں روک دی گئی تھی۔ ظل ہما کے پیٹ میں درد اٹھا اور اسکے ماں باپ اسے ٹیکسی میں لٹا کر ہسپتال کی طرف بھاگے لیکن راستے تمام بند تھے۔ وہ راستے میں ہی دم توڑ گئی۔
اس سے پہلے سات جنوری کے دن پانچ افراد جنہیں دل کا دورہ پڑا تھا اور ہسپتال لے جائے جا رہے تھے، راستے میں موت کے گھاٹ اتر گئے کیوں کہ وی آئی پی کی حفاظت کیلئے ٹریفک بند تھی۔
بارہ ستمبر2010ء کو چلڈرن ہسپتال لاہور کے دروازے پر گوجرانوالہ کے فاروق کابچہ دنیا سے چل بسا۔ فاروق کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں وزیر اعلیٰ آئے ہوئے تھے، اسے ہسپتال کے اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا ۔
اور یہ تو گذشتہ ہفتے کا واقعہ ہے کہ پنجاب کے گورنر سیالکوٹ جارہے تھے۔ انکی گاڑیوں کے قافلے کی زد میں ایک ساٹھ سالہ بوڑھی عورت آ گئی اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ دو ہفتے پیشتر سرگودھا میں ایک وزیر کی گاڑی نے ایک شخص کو ٹکر ماری۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ ان سارے واقعات اور ان جیسے بے شمار دوسرے واقعات کے نتیجے میں جو پاکستانی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ اسکا کوئی حساب کتاب ہوا؟ کیا جن لوگوں کی وجہ سے ٹریفک روکی گئی، ان پر کوئی مقدمہ چلا؟ کیا جن افسروں نے شہریوں پر یہ عذاب مسلط کیا، انہیں سزا ملی؟ کیا کوئی ایف آئی آر درج ہوئی؟ اگر پاکستان کے ان شہریوں کی جان کی قدر و قیمت کچھ نہیں تھی تو مجھے بتائیے کہ امریکی یا کوئی بھی غیر ملکی کسی پاکستانی کی زندگی کو قیمتی کیوں سمجھے؟
آٹھ سال پرویز مشر ف حکمران رہا۔ وہ جب بھی کراچی گیا، ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئیں۔ ایم کیو ایم سمیت کسی نے ہلکا سا احتجاج تک نہ کیا۔ او پر کی سطور میں کراچی یونیورسٹی کی جس طالبہ کا ذکر کیا گیا ہے، اسکے قتل پر تو گورنر اور ناظم تک جو ’’مڈل کلاس‘‘ پارٹی کے رہنما تھا، تعزیت کیلئے مظلوم مقتولہ کے گھر نہیں گئے۔ وزیراعظم جب بھی لاہور تشریف لے جاتے ہیں ٹریفک گھنٹوں بند رہتی ہے، یاسر عرفات لاہور آئے تو ٹریفک روک دی گئی اور پہروں رکی رہی، قصور کی ایک عورت نے فورٹریس سٹیڈیم کے سامنے سوزوکی ڈبے میں بچے کو جنم دیا اور اس وقت کی پنجاب حکومت کیخلاف ایف آئی آر کٹوانے دنیا سے رخصت ہو کر خدا کے حضور پہنچ گئی۔ ہمارے ملک میں انسانی جان کی اتنی بھی حرمت نہیں جتنی ایک مکھی یا ایک کاکروچ کی ہوتی ہے۔ اسکے باوجود ہم یہ چاہتے ہیں کہ امریکی، بھارتی اور اسرائیلی ہمارے شہریوں کی جانوں کو قیمتی گردانیں، ہمارے قوانین کا احترام کریں اور وہی کام جو پاکستانی دن میں کئی بار کرتے ہیں اور ان کا بال کوئی نہیں بیکا کر سکتا، اگر کوئی غیر ملکی کرے تو اسے چوک پر پھانسی دے دی جائے!
نہیں! ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا دنیا میں ہوا ہے نہ کبھی ہو گا۔ دنیا صرف ان لوگوں کا احترام کرتی ہے جن کا انکے اپنے ملک میں احترام کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی صرف اس ملک میں قانون کی پابندی کرتے ہیں جس ملک کا حکمران طبقہ قانون کی پابندی کرتا ہے ‘ جس ملک میں پورا پورا دن مریض ہسپتال نہ پہنچ سکیں، بچے سکولوں سے گھروں میں واپس نہ آ سکیں‘ جس ملک میں عام شہری گاجر مولی کی طرح کٹتے ہوں اور اسمبلی کے ارکان کیلئے محفوظ سرنگیں بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہوں، اس ملک کے باشندوں کو قتل کرنے پر کسی ڈیوس ریمنڈ کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ غیرت ایک ایسا مادہ ہے جو یا تو موجود ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ غیرت موسمی پرندہ نہیں جو ایک موسم میں حاضر ہو جائے اور دوسرے موسم میں اڑ کر دور چلا جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ قاتل پاکستانی حکمران خود ہوں تو غیرت سو جائے اور قاتل غیر ملکی ہوں تو غیرت بیدار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اخباری اطلاعات کیمطابق گوری چمڑی والے قاتل کیلئے کھانا فائیو سٹار ہوٹل سے آتا ہے، وہ پولیس جو اپنے ہم وطنوں کو تفتیش کے دوران ہلاک کر دیتی ہے، اسے ’’سر‘‘ کہہ کر خطاب کرتی ہے اور ابھی تک ایک رمق اس سے نہیں اگلوا سکی!
کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، مسئلہ واضح ہے اور آسان۔ اسے سمجھنے کیلئے فلسفے کی ڈگری درکار ہے نہ بین الاقوامی تعلقات کی ، کوئی پی ایچ ڈی ہے تو وہ بھی اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے اور کوئی ان پڑھ ہے تو وہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ جس دن پاکستانیوں کے پاکستانی قاتل پکڑ کر لٹکائے جائینگے۔ جس دن سات سات سالہ بچیوں پر کتے چھوڑنے والوں کو پکڑا جائیگا، جس دن’’عوامی‘‘ نمائندے قانون کے دائرے کے اندر داخل کئے جائیں گے اور جس دن ہر پاکستانی کی جان اتنی ہی قیمتی ہو گی جتنی صدر، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی، اس دن کسی ڈیوس ریمنڈ کی ہمت نہیں ہو گی کہ کسی پاکستانی کو گولی مارے اور پھر گاڑی سے اتر کر اسکی تصویریں بنائے۔ اور اگر ایسا ہوا بھی تو اسے پھانسی کے پھندے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی۔