(قسط نمبر دس)
مسجدالحرام میں تہہ خانے کا حصہ قابو کہلاتا تھا۔ باغیوں سے باقی مسجد کا قبضہ چھڑوا لیا گیا تھا۔ اس تہہ خانے میں باغی مورچہ بند تھے، تیار تھے اور خطرناک تھے۔ ملٹری کمانڈ نے ایم 113 بکتربند گاڑی پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا۔ بن لادن کمپنی نے گاڑی نیچے لے جانے کا ایک راستہ بنایا تھا جہاں سے تعمیراتی عملہ نیچے جایا کرتا تھا۔ بکتربند گاڑی میں بارہ سعودی فوجی سوار تھے۔ انہوں نے اس راستے سے نیچے جانا تھا۔ باغیوں نے راستہ روکنے کے لئے ٹرک کھڑا کر دیا تھا۔ بکتربند گاڑی کے ڈرائیور نے اس کو ٹکرا کر سائیڈ پر کرنے کے لئے ایکسلریٹر دبایا۔ ٹکر ہوئی اور ایک زبردست دھماکا۔ باغیوں نے یہ پھندا لگایا ہوا تھا۔ آگے کے شعلوں نے بکتربند گاڑی کو لپیٹ میں لے لیا۔ کھانستے اور بے حال فوجیوں نے نکل کر چھلانگیں لگانا شروع کیں ۔ گھات لگائے ہوئے باغی اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ فوجی کے باہر نکلتے ہی گولیاں اس کو چھلنی کر دیتی تھیں۔ کارپورل جنازی کی ٹانگ پر تین جگہ گولیاں لگیں۔ انہوں نے ہاتھ میں پکڑا گرینیڈ باغیوں کی سمت اچھالا۔ ہونے والے دھماکے کا فائدہ اٹھا کر وہاں سے نکل گئے۔ وہ زندہ بچ جانے والے واحد فوجی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تہہ خانے میں زبردست لڑائی جاری تھی۔ اوپر اب سعودی فوج کا کنٹرول تھا۔ 28 نومبر کو چند سعودی فوجیوں نے حجرِ اسود کے سامنے نماز ادا کرتے ہوئے ٹی وی کے لئے فلم بنوائی۔ اس کلپ کو دکھاتے ہوئے سعودی حکومت نے دعویٰ کیا کہ صورتحال کنٹرول میں ہے۔ مسجد کو پہنچنے والا نقصان اس فلم میں سے ایڈٹ کر دیا گیا۔ اٹلی سے لے کر ٹوگو تک کے سربراہانِ حکومت کے مبارک باد کے پیغامات شاہ خالد کو موصول ہونے لگے۔
حقیقت یہ تھی کہ باغی ابھی مضبوط تھے اور پرعزم تھے۔ سعودی بھاری جانی نقصان اٹھا رہے تھے۔ حکومت کو پتا تھا کہ ہر گھنٹہ قیمتی ہے۔ حکومت کی رِٹ کمزور کر رہا ہے۔ فوجی ہسپتال زخمیوں سے بھر چکے تھے۔ فوج کو مدد کی ضرورت تھی۔ اور بہت جلد مدد کی ضرورت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مدد کو کھلے عام بھی نہیں لیا جا سکتا تھا۔ تہران ریڈیو پہلے ہی سعودی عرب، مراکش اور بحرین کے خلاف نشر کرتا رہا تھا۔ “یہ کھوکھلی بادشاہتیں تو اپنی حفاظت کے قابل بھی نہیں”۔ سوویت خبررساں ایجنسی بھی یہی کچھ چھاپ رہی تھی۔ سوال یہ کہ مدد کس سے لی جائے، کیسے لی جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فطری انتخاب اردن تھا۔ سعودی عرب کے طرز کی بادشاہت، جو اگرچہ اس سے چھوٹی بھی تھی اور غریب بھی۔ مگر اس کی ملٹری تربیت یافتہ بھی تھی اور تجربہ کار بھی۔اس کے کمانڈوز کو برطانوی سپیشل فورس نے تربیت دی تھی۔ انہیں گوریلا جنگ کامیابی سے کرنے کا تجربہ تھا۔ چند سال قبل یاسر عرفات کی قیادت میں تنظیمِ آزادی فلسطین اردن کی ریاست سے ٹکرائی تھی۔ اردن نے خونی خانہ جنگی میں فلسطینی گوریلا جنگجووٗں کا صفایا کر دیا تھا۔ اردنی عرب بھی تھے۔ وہ اگر مکہ میں داخل ہوتے تو کوئی پہچان بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ کسی اور ملک کی فوج ہے۔ اردن کو اپنے پڑوسی ملک سعودی عرب کے مشکل میں گھِر جانے پر پریشانی بھی تھی۔
اردن کے شاہ حسین نے سعودی بادشاہ سے رابطہ کیا اور عسکری مشن میں معاونت کی پیش کش کی۔ ان کے کمانڈو امان ائیر پورٹ پر تھے۔ صرف ایک اشارہ چاہیے تھا اور اگلے ہی لمحے وہ مکہ کی فلائٹ پر ہوتے۔ لیکن یہ انتظار کرتے ہی رہ گئے۔
دونوں بادشاہوں کی ملاقات بڑے رکھ رکھاوٗ سے ہوئی۔ ایک دوسرے سے اچھے الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ صورتحال پر رنج کا اظہار کیا گیا لیکن اردن کی عسکری مدد؟ یہ ممکن نہیں تھا۔ اس کی وجہ 1924 تھی۔ وہ سال، جب شاہ خالد کے والد نے شاہ حسین کے پردادا پر حملہ کیا تھا۔ شریفِ مکہ اور حجاز کے بادشاہ پر۔ اس سال مکہ پر قبضہ ہاشمیوں سے سعود کے پاس آیا تھا۔ شاہ خالد نے صاف گوئی سے یہ بتا دیا کہ نجد اور حجاز کی اس پرانی لڑائی کے تناظر میں وہ یہ مدد قبول نہیں کر سکتے۔
سعودی نکتہ نظر سے ہاشمی فوج کا حجاز میں واپس آنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ ایک سعودی افسر کے مطابق، “اگر ہاشمی مسجد الحرام کو چھڑوانے کا کریڈٹ لے جاتے تو ڈر تھا کہ وہ کبھی واپس نہ جاتے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے مقابلے میں مغربی ممالک سے ایسی مدد لینے میں خطرہ نہیں تھا۔ پہلی درخواست امریکی حکومت سے کی گئی۔ سی آئی اے کے آپریٹو طائف کے مرکز سے مکہ پہنچے۔ یہ اپنے ساتھ آنسو گیس اور دوسرے دھویں کے کیمیکل ہیلی کاپٹر کے ذریعے لے کر آئے۔ ان کی یہ مدد بالکل ناکام رہی۔
یہ شیل زیرِ زمین بھول بھلیوں میں گرائے گئے۔ سخت جان جنگجووٗں نے اپنے آپ کو پرانے گدوں اور گتے کے ڈبوں سے دیواریں بنا کر محفوظ کر لیا۔ پانی میں بھگوئے ہوئے سر کے کپڑے منہ پر باندھ کر سانس میں مشکل نہ ہوئی۔ اوپر جو لوگ ان کو پھینکنے آتے، وہ باغیوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے۔ فزکس کے قوانین بھی باغیوں کے حق میں تھے۔ امریکیوں کے مہیا کردہ گیس ہوا سے ہلکی تھی اور اوپر اٹھتی تھی۔ یہ جلد ہی تہہ خانے سے نکل کر مسجد کی راہداری میں بھر جاتی۔ سعودی فوجی گیس ماسک کا استعمال نہیں کر رہے تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں الٹیاں کرنے والے اور بے حال ہونے والے باغی نہیں، سعودی فوجی رہے۔
شہزادہ ترکی نے بھانپ لیا۔ ان کو زیادہ قابل لوگوں کی مدد درکار تھی۔ اگلا فون فرانس کیا گیا۔ ان کو فرانس کی بہترین سپیشل فورس کی مدد کی ضرورت تھی۔ وہ فورس جو وسطی افریقہ سے جبوتی تک اہم کارنامے کر کے دکھا چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانس کے کمانڈو براستہ قبرص سعودی عرب میں طائف پہنچے۔ ان کو لینے آنے والے جرنل نے جب فرانس سے آنے والے اس سپیشل طیارے سے کمانڈوز کو اترتے دیکھا تو انکا دل بیٹھ گیا۔ جہاز سے صرف تین لوگ اترے تھے۔ مزید کمک حاصل کرنے کے لئے اگلا فون پاکستان کیا گیا۔
ان کمانڈوز کے لیڈر بیرل کو سب سے پہلی حیرانی سعودی فوج کا پست مورال اور بے نظمی دیکھ کر ہوئی۔ اس صورتحال میں کسی کے پاس نقشہ تک نہیں تھا۔ بیرل نے ایک دیوار سے مسجد کی بڑی تصویر اتار کر جب آپریشن کی پلاننگ کے لئے سرخ نشان لگانے شروع کئے تو سامنے بیٹھے افسروں میں کھسر پھسر شروع ہو گئی۔ بیرل اس وقت حیران ہوئے جب ملٹری حربوں کا ایک سب سے بنیادی حربہ بھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ یعنی باغیوں کو ایک جگہ لڑائی میں مصروف کرنا اور اصل اور بڑا حملہ کسی اور جگہ سے کرنا۔ اس روز کی پلاننگ کے ساتھ ہی بیرل نے فرانسیسی حکومت سے عسکری سامان منگوانے کی درخواست کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب 2 دسمبر کو خصوصی فرانسیسی طیارہ سعودی ائیر پورٹ پر لینڈ کیا تو اس میں سات ٹن کارگو تھا۔ اس میں تین سو کلوگرام سی بی گیس تھی۔ گیس ماسک تھے، گولیوں سے محفوظ رہنے کے لئے ڈیڑھ سو جیکٹیں تھیں، گیس ہٹانے والے ڈسپرسر تھے اور گرینیڈ تھے۔ یہ کارگو 3 دسمبر کی صبح مکہ پہنچ گیا۔ آخری بڑے حملے کی تیاری مکمل تھی۔
ساتھ لگی تصویر ان تین فرنچ کمانڈوز کی سعودی افسر کے ساتھ