آپ نے آج تک یہی پڑھا ہوگا کہ درخت انسان کے دوست اور ماحول کے محافظ ہیں لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہمارے محافظ اور دوست ہم سے روٹھ کر ہمارے مخالف ہوتے جارہے ہیں۔ہمارے گردونواح میں پائے جانے والے تمام درخت ہمارے لیے مفید نہیں ہوتے بلکہ کئی درخت انسانی صحت پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں اور حیاتیاتی آلودگی کا باعث بن رہے ہیں۔سائنسی ماہرین کے مطابق یہ وہ پودے ہیں جو مختلف مقاصد کے لیے کسی ایک خطے سے دوسرے خطے میں لے جاکر لگائے جاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق پودوں پر مختلف آب و ہوا کے مختلف اثرات پڑتے ہیں یعنی جس پودے کو امریکا کی زمین اور آب و ہوا موافق ہو اسے کسی دوسرے خطے میں منتقل کیے جانے سے اس پودے کانئے ماحول کے ساتھ” کراس ری ایکشن “ہوسکتا ہے۔دنیا میں ایسی سینکڑوں مثالیں پائی جاتی ہیں کہ بظاہر معصوم نظر آنے والے پودے کو کسی نئے خطہ میں منتقل کرنے پر وہاں کے انسانوںاور پودوں کے لیے غارت گر بن گئیں۔اس کی ایک بڑی مثال آسٹریلیا کاLeuca Mela درخت ہے جسے فلوریڈا میں زیر زمین پانی کی سطح کو کم کرنے کے لیے منتقل کیا گیا لیکن اس نے مقامی پودوں میں گھس کر پانچ لاکھ ایکڑ رقبہ کو برباد کر دیا۔ پاکستان میں متعدد جگہوں پر ایسے درخت جابجا نظر آتے ہیں جنہیں ماحول اور نوع انسانی پر پڑنے والے اثرات کو بلا سوچے سمجھے یہاں لگادیا گیا ہے۔ہمارے ملک میں غیر ملکی پودوں کا باقاعدہ ریکارڈ دستیاب نہیں لیکن ایک اندازہ کے مطابق یہاں 700 سے زائد بدیسی پودوں کی اقسام موجود ہیں جن میں سے کئی اقسام مقامی پودوں اور جانوروں کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔اسلام آباد کو سرسبز بنانے کی غرض سے اس علاقہ میں گل توت لگایا گیا لیکن چند ہی سالوں میں یہ اپنے تیز تر پھیلائو کے باعث مقامی انواع کے لیے خطرہ بن گیا۔پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل کے مطابق اس خطہ میں الرجی میں مبتلا ہونے والے 45 فیصد افراد گل توت سے ہی متاثر ہوتے ہیں۔آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ کیکرمقامی درخت نہیں ہے بلکہ اس کا آبائی وطن ویسٹ انڈیز اور میکسکو ہے۔پاکستان میں بغیر کسی تحقیق اور منصوبے کے اس کا فضائی چھڑکائو کیا گیا جس کی وجہ سے ببول، شیشم اور کئی مقامی جڑی بوٹیوں بری طرح متاثر ہوئے۔اسی طرح جنوبی امریکہ سے درآمد شدہ واٹر فرن اور گل بکائولی اپنے جارحانہ پھیلائو اور منفی خواص کے باعث سندھ کے آبی ایکو سسٹم کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے بہاول پور میں شجر کاری مہم کو فروغ دیا جارہا ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں لگائے جانے والے درخت کونو کارپس کے ہیں۔ کونو کارپس کا ناکام تجربہ کراچی میں سٹی ناظم مصطفی کمال کے دور میں کیا جاچکا ہے جب 25لاکھ کونو کارپس افریقہ سے در آمد کیے گئے۔ یہ درخت کراچی میں پولن الرجی اور دمہ کا باعث بن رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق کونو کارپس ہماری مقامی آب و ہوا کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں۔ کونو کارپس د وسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔پاکستان کے مختلف شہروں میں سڑکوں کے کناروں پر اس درخت کو تیزی سے کاشت کیا جارہا ہے جو مستقبل میں ماحولیاتی اور صحت کے مسائل کا باعث بنے گا۔اس سے پہلے سڑکوں اور نہروں کے کناروں پر حکومت کی طرف سے یوکلپٹس اور چائنا پاپولر بے دریغ کاشت کیے جاتے تھے جن کے گرے ہوئے پتوں نے مقامی پودوں کی نشونما کونابود کر دیا۔ماہرین کے مطابق سفیدہ کا درخت چوبیس گھنٹوں میں ساڑھے سترہ لٹر پانی جذب کر کے فضا میں چھوڑتا ہے جس کی وجہ سے فضا میں نمی کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے۔نمی کی بڑھتی ہوئی مقدار انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہونے کے علاوہ فصلوں پر کیڑے مکوڑوں کے حملے کا بھی باعث بن رہی ہے۔ غیر مقامی پودوں کے نباتاتی حملہ کا مسئلہ 1950ئ میں ہی سائنسدانوں نے محسوس کرلیا تھا لیکن اس کے بارے میں زیادہ آگہی اب ہورہی ہے۔ 1992ئ میں منعقدہ سی بی ڈی âC.B.Dá کی ارتھ سمٹ کے کنونشن میں دستخط کرنے والے 161 ممالک نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایسے بدیسی پودے جن سے ایکو سسٹم اور مقامی انواع کو خطرہ ہو ان کی درآمد کو کنٹرول کیا جائے۔ 1996ئ میں مونٹریال میں ہونے والے ورلڈ کانگرس کے اجلاس میں بھی اس مسئلہ کو اجاگر کیا گیا۔ دو سال بعد کیلی فورنیا میں آئی یو سی این نے ایک عالمی اقدام شروع کیا۔ قدرت نے مختلف خطوں کے لیے مختلف نباتاتی انواع تخلیق کی ہیں، ہر ایک کی اپنے خطہ کے حوالے سے کوئی نہ کوئی افادیت ضرور ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ان کے وہی فوائد ددوسرے خطوں میں بھی سامنے آسکیں۔ماہرین نباتات یہ دلچسپ اور حیرت انگیز انکشاف کرتے ہیں کہ اگرچہ پودوں کے دماغ اور اعصابی خلیات نہیں ہوتے لیکن بعض اقسام کے پودے اپنی حدود ملکیت میں کسی کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتے یعنی اس سلسلے میں باقاعدہ خود غرض ہوتے ہیں۔جب غیر ملکی پودے کسی اور جگہ کاشت کیے جاتے ہیں تو اکثر ناموافق آب و ہوا اور آپس کے مزاج میں مماثلت نہ ہونے کے سبب تصادم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا کسی دوسرے خطے کی نباتات کو اپنے ہاں متعارف کرانے سے پہلے اس پر تجربات کیے جانے چاہئیں اور ان کے نقصانات اور فوائد کا تجزیہ کیا جانا چاہیے اگر فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوں تو پھر ان نباتاتی انواع کو اپنے ملک میں اگانے سے گریز کرناچاہیے۔پاکستان میں زراعت اور باغبانی کے ماحول کو فصلوں اور باغات کے لیے زیادہ سے زیادہ موافق بنانے کے لیے دیگر کئی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہر علاقے میں ماحول موافق اور ماحول دوست درخت اور پودے لگانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں یا کسی بھی شہر میں درخت یا پودے لگاتے ہوئے اس علاقے یا شہر کے فطری ماحول کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔حکومت کو چاہیے کہ زرعی ماہرین کی نگرانی میں ایک ٹیم تشکیل دی جائے جس کی زیر نگرانی ماحول دشمن پودوں کی جگہ مقامی آب و ہوا کے مطابق شجر کاری کی جائے۔ یہ نظام اتنا مربوط اور منظم ہونا چاہیے کہ غیر مقامی پودوں کی کہیں بھی شجرکاری کرنے سے پہلے اس کا مقامی ماحول کے مطابق جائزہ لیا جائے اور ماہرین کی تصدیق کے بعد ہی شجرکاری کی جائے۔
“