قدرت نے سب کچھ بنایا۔ آسمان زمین چرند پرند درخت پودے اور پھر ان سب کو تباہ برباد کرنے کے لئے حضرت انسان بنایا۔ اور فر شتے سر کھجاتے رہ گئے۔ لیکن احکام خداوندی میں کس کو دخل ۔ اور چونکہ یہ سب ایک ہی ہاتھ سے تشکیل پایا اس لئے ان میں اقدارِ مشترکہ کا پایا جانا لازم ٹھہرا۔ فلاں شیر کی مانند جرّی ہے ۔ فلاں گیڈر کی مانندبزدل ہے ۔فلاں مگرمچھ کے آنسو روتا ہے۔ انسانوں کو جانوروں کی خصوصیات سے مماثلت دینا پرانی ریت ہے۔
کبھی کبھار گروہوں اور جماعتوں کو بھی جانوروں اور دیگر اشیا سے مماثلت دی جاتی ہے تاہم ان حالات میں موازنے کی درستگی کی کوئی ضمانت نہ ہے۔ مثلاً کچھ جماعتیں شیر کو اپنے نشان کے طور پر پیش کرتی ہیں حالانکہ شیر ایک ایسا کاہل اور سست الوجود لیکن خونخوار جانور ہے جو سوائے خود سے کمزور جانوروں کو چیرنے پھاڑنے، مزید شیر بنانے اور دھوپ سینکنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتا۔ عموماً پہلے دونوں امور میں شیرنی کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اور تمام عمر کوشاں رہتا ہے کہ وہ بادشاہ رہے چاہے اس کی بادشاہت میں جنگل لق و دق صحرا ہی کیوں نہ بن جائے۔ شیر گنجا بھی ہو جائے تو شیر ہی رہتا ہے۔ دوسری جانب تیر کسی بدن کو چیر پر دوسری جانب نکل جانے کے علاوہ مزید کیا کر سکتا ہے؟ تاہم اڑتے تیر کے بارے میں حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کہاں جا کر پیوست ہو جائے گا۔ کیا تلوار نے کبھی کسی کو سایہ فراہم کیا ہے یا کسی نے تلوار پر کھانا پکا کر کھایا ہے ؟ بہرحال یہ امور سیاسیات سے متعلق ہیں اور یہ مضمون صرف حیاتیات یعنی بایولوجی کا احاطہ کرتا ہے ۔
انسانی گروہوں کی مختلف جانوروں سے مماثلت پر تحقیق کے بعد کچھ موٹی موٹی چیدہ چیدہ باتیں تو اظہر من الشمس تھیں جیسا کہ سپاہی ہمیشہ شیر ہوتا ہے۔ سیاستدان مگر مچھ ہوتے ہیں اور صنعتکار لومڑی۔ غریب غربا بھیڑ بکریاں ہوتے ہیں جنہیں شیر مگر مچھ اور لومڑی حسب منشا روٹی نان یا چاولوں کے ساتھ تناول فرماتے ہیں۔ کچھ گروہ الوّ ہوتے ہیں جنہیں رات کی تاریکی میں بھی وہ سب دکھائی دیتا ہے جو باقیوں کو دن کی روشنی میں بھی نہیں دکھائی نہیں دیتا۔ میری تحقیق کا دائرہ کار قدرے مختصر ہے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ شوہر کو کس جانور سے تشبیہ دوں اور بیویوں کو کس۔۔۔ میرا مطلب ہے کس ذی روح سے مماثلت دوں ؟ شوہروں کے لئے مسئلہ مشکل نہ تھا ۔ بھانت بھانت کے نام تھے کہ ذہن میں آتے ہی جاتے تھے۔ مثلاً کسی بھی حالت میں معصوم اور بے ضررمیمنا، سال کے ساڑھے گیارہ مہینے بے کار بھینسا، مرغا جس کے پورے بدن پر کلغی یا رنگین پَروں کے علاوہ مفید کچھ نہیں ہوتا،کولہو میں جتا بیل جسے ادراک ہی نہیں ہوتا کہ اس کی آنکھوں پر لگے کھوکھوں کے دوسری جانب بھی ایک کائنات موجودہے۔ یا ہاتھی جو ایک ہی جگہ کھڑا جھومتارہتا ہے اور کانوں سے مکھیاں اڑانے کا کام لیتا ہے۔ کہتے ہیں ہاتھی کی یادداشت بہت ہوتی ہے جو بیوی کی سالگرہ دیگر اہم تاریخیں یادرکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔
اور بیویاں کیا ہیں ؟ مورکی مانند رنگین، فاختہ کی مانند امن پسند، ہرنی کی مانند پھرتیلی، کوئل کی مانند خوش الحان۔۔۔ لیکن جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ موازنے کی درستگی کی کوئی ضمانت نہ ہے اس لئے میرے مذکورہ بالا الفاظ کو خرافات سے زیادہ اہمیت نہ دینا ہی مناسب ہو گا۔ اوّل تو مور مذکر ہے اور مورنی کا رنگوں سے دور پار کا کوئی واسطہ نہ ہے۔ فی زمانہ فاختہ کے ساتھ جو حشر ہوتا ہے اس سے سب آگاہ ہیں۔ ہرنی کی پھرتیاں اس وقت تک ہیں جب تک چیتا جست لگا کر اس تک پہنچ نہیں جاتا۔ اور بات رہی خوش الحانی کی۔۔۔ معذرت خواہ ہوں، آپ سب سمجھدار ہیں۔
اساتذہ، محققین، زنانہ درزیوں، رنگسازوں اور جوتوں اور چرمی بیگوں اور گوٹہ کناری، لیس وغیرہ کے دکانداروں جیسے ماہرین ِ صنف ِ لطیف سے سیر حاصل گفتگو اوربازاروں میں گھنٹوں گاڑی میں اہلیہ کے انتظار کے دوران شدید غور و فکر کے بعد بالآخر یہ راز آشکارہ ہو ہی گیا کہ شوہر اور بیوی کو کس کس جانورسے تشبیہ دی جا سکتی ہے اور ساتھ ساتھ جسمانی و روحانی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ قارئین چاہیں تو سٹاک ہولم میں نوبل انعام کمیٹی کو میری نامزدگی کی پیشگی اطلاع پہنچا سکتے ہیں۔
شوہر گینڈا ہے اور بیوی ناگن۔۔۔
یہ بتانے کے بجائے کہ شوہروں میں گینڈوں والی کون سی خصلتیں ہیں اور بیویوں میں ناگنوں والی کون سی خوبیاں ہیں عوام الناس کی عمومی فہم و فراست کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب ہو گا کہ گینڈوں کے اطوار اور ناگنوں کی خاصیتیں بیان کی جائیں اور جمہوری اقدارپر عمل درآمد کرتے ہوئے قارئین کو حق خود ارادی سے فیصلہ کرنے دیا جائے۔
گینڈا گھاس کھاتا ہے۔ اس کے سامنے گوشت کے پارچے بھی رکھ دیئے جائیں تو چہرے پر اس کے تأثرات سے یوں لگتا ہے جیسے گھاس کھا رہا ہو۔ گھاس البتہ جیسی بھی ہو اپنی امّاں کی گھاس کو گاہے بگاہے یاد کرتا ہے خصوصاً اس وقت جب گینڈی بڑے اہتمام سے گھاس اس کے سامنے لا رکھتی ہے۔ گھاس سے اس کی رغبت کا یہ عالم ہے کہ اکثر و بیشتر اپنی عقل کو بھی گھاس چرنے بھیج دیتا ہے۔ اکثر اوقات اکیلا گھاس کھاتا ہے تاہم کبھی کبھار دوسرے گینڈوں کے ساتھ چرنے نکل جاتا ہے اورشام کو دیر سے واپس لوٹتا۔ گینڈی گھاس کی ڈھیری سامنے رکھے رات دیر تک انتظار کرتی ہے۔ گینڈے کی یہ رات خوشگور نہیں گزرتی۔ گینڈے کی کھال اپنی مضبوطی کی بنا پر جانی مانی جاتی ہے۔ شکاریوں کے نیزے بھالے تیر بندوق وغیرہ اس پربے اثر ہوتے ہیں۔ گینڈی کی لعن طعن اور طنز کے تیر بھی اس پر سے یوں پھسل کر گرتے ہیں جیسے افریقی میدانی علاقوں میں بارش کے قطرے۔ تاہم ڈھیلی ڈھالی کھال کی تہوں کے درمیان ایسی جگہیں ہوتی ہیں جہاں سے اسے شدید تکلیف پہنچائی جاسکتی ہے اور گینڈی محض چند سال کے ساتھ کے بعد ان مقامات سے بخوبی آگاہ ہو جاتی ہے۔
گینڈے کی ناک پر ایک خوفناک نوکیلا سینگ ہوتا ہے اور گینڈے کےلئے باعث فخر ہوتا ہے۔ بڑے سینگ والے گینڈے اپنے سینگ پر اتراتے ہیں اور چھوٹے سینگ والے تلملاتے ہیں۔ گینڈوں کی زبان میں ایک کہاوت مقبول عام ہے ،'حجم سے فرق پڑتا ہے '۔ تاہم علم حیوانیات کے ماہرین کے مطابق یہ سینگ برائے نام سینگ ہوتا ہے۔ دراصل گینڈے کی آنکھوں سے بہہ نکلنے والی رطوبت جسے ہم آسان زبان میں آنسو بھی کہہ سکتے ہیں جو اس کی تھوتھنی کے بالوں میں جمتی ہے اور رفتہ رفتہ سوکھ کر ایک سینگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ گینڈا آنسو کیوں بہاتا ہے یہ سوال ابھی تک جواب کا متلاشی ہے تاہم غالب امکان ہے کہ کسی ایک گینڈی کے ساتھ زندگی گزارنے کے فیصلے سے پہلے کے زمانے کی نوجوان دبلی پتلی گینڈیوں کی یادیں اس میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ناک پر موجود اسی سینگ کی وجہ سے گینڈے کو ناک کی سیدھ میں راستہ دکھائی نہیں دیتا اور اسکے لئے صراط مستقیم پر چلنا دشوار ہوتا ہے، جہاں کوئی راہ چلتی گینڈی دکھائی دی اور موصوف اشارہ دئیے بغیر دائیں بائیں مڑ لئے۔ زندگی کا بیشتر حصّہ بھاری پتھر کی مانند گزارتے ہیں اوّل تو ہلتے نہیں اور اگر ہل پڑیں تو رکتے نہیں۔ اگر ایک مرتبہ چل دیں تو اپنے سامنے آنے والی ہر شے کو روندتے جاتے ہیں۔ رکتے ہیں تو اپنے مقررہ مقام سے کہیں دور جا پہنچتے ہیں۔ نہ رک سکنے کی اس کمزوری کو صلاحیت گردانتے ہیں اور اسے اصول کا نام دیتے ہیں۔ انہیں خدا داد صلاحیتوں کی بنا پر اکثر گہری کھائیوں، گڑھوں میں اوندھے منہ گرے پائے جاتے ہیں۔
دوسری جانب ناگن ایک انتہائی پرفسوں، سحر انگیز اور دلفریب مخلوق ہے۔ سائنس دان سوچتے رہ گئے کہ ایک ایسی مخلوق جو ہاتھوں، پیروں، پنجوں، ناخنوں سے عاری ہے لاکھوں سالوں سے کیونکر خاتمے سے بچی رہی۔ خیر سائنسدان تو اس راز پر سے پردہ نہیں اٹھا سکے کہ دنیا بھر کے جری، جنگجو، طاقتور سپہ سالار بڑی بڑی سلطنتیں فتح اور فوجیں تاراج کرنے کے بعد گھر واپس لوٹتے ہیں تو دہلیز عبور کرتے ہی میاؤں میاؤں کیوں کرنے لگتے ہیں۔ بہر کیف یہ معاملہ ہماری اس بحث سے خارج ہے۔ کھردرے گینڈے کے برعکس ناگن نرم و ملائم اور بالوں سے پاک ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ بالو ں سے پاک دکھائی دیتی ہے۔ دنیا بھر میں پائے جانے والے گینڈے یکسا ں شکل و صورت کے حامل ہوتے ہیں جبکہ ہر ملک کی ناگنیں رنگ برنگی اور مختلف انواع و اقسام کی ہوتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق ناگن جتنی رنگین ہو گی اس کا زہر اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ نسبتاً کم رنگین ناگنیں کم زہریلی ہوتی ہیں ۔
تیز نگاہوں اور لچک دار بد ن کے باعث اپنے آگے پیچھے اوپر نیچے دائیں بائیں ہر جانب گہری نگاہ رکھتی ہے۔ اپنی تیکھی زبان کی مد د سے نہ صرف اپنا دفاع کر سکتی ہے بلکہ آنے والے خطروں سے بھی آگاہ ہو تی ہے۔ اس کی زبان دو رخی ہوتی ہے اس لئے ہر آواز کے ایک سے زائد مفہوم لازم ہیں۔ اکثر خاموش رہتی ہے اور یہی خاموشی اس کا بڑا ہتھیار ہے۔ ضرورت کے وقت پھنکارتی ہے اور شدید خطرے سے مڈھیڑ کی صورت میں سسکارتی ہے اور خود سے کہیں بڑے اور طاقتور دشمن کو شکست دیتی ہے۔ اس کے آنے جانے کی کوئی خبر نہیں ہوتی اور اکثر ناگ راجہ اپنی ناگن کو وہاں پاتے ہیں جہاں ان کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ جس وقت ناگ راجہ ناگن کی پھنکار کا مطلب بھانپنے کی کوشش کررہےہوتے ہیں اس وقت ناگن یہ بھی جان چکی ہوتی ہے کہ ناگ راجہ کیا کہنے والے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ناگ کو مارنے والے کی تصویر ناگن کی آنکھوں میں محفوظ ہو جاتی ہے تاکہ بعد ازاں شکرئیے کا پیغام ارسال کیا جا سکے۔
مندرجہ بالا تحریر سے قطعاً مقصد گینڈوں کی تضحیک یا ناگنوں کی تحسین نہ ہے۔ یہ مقالہ مکمل طور پر تحقیقی ہے تاہم بیان کردہ خصوصیات میں کوئی ایک یا ایک سے زیادہ اوصاف خود میں پانے والے قارئین راقم کے بجائے قدرت سے رابطہ کریں ۔