سائنسدان اس ستارے کو سالوں سے ہبل ٹیلی سکوپ کے ذریعے دیکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ ستارہ کہاں پر ہے۔ یہ ایک دور افتادہ کہکشاں میں تھا جسکا نام NGC 6946 تھا۔ مگر فلکیات کی دنیا میں یہ کہکشاں، ” آتشباز کہکشاں” (Fireworks Galaxy) کے نام سے مشہور ہے۔ وجہ یہ کہ یہاں کئی ستارے اپنے انجام پر زبردست اور روشن دھماکے سے پھٹتے ہیں جسے سپرنووا کہا جاتا ہے۔سورج سے کئی گنا بڑے ستارے عموماً اپنے اختتام پر ایسے ہی سپر نووا بنتے ہیں۔
کئی سالوں سے اس کہکشاں میں سائنسدان ایک روشن ستارے کو دیکھ رہے تھے۔ اسے نام دیا گیا تھا N6946-BH1۔ چلئے ہم یاد رکھنے کے لیے اسے نام دیتے ہیں “غفور بھائی”۔ تو “غفور بھائی” کو سائنسدان بڑے عرصے سے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے کہ اُنکے بقول یہ اپنی عمر کے آخری حصے میں تھا۔ یہ ستارہ سورج سے ماس میں تقریباً 25 گنا زیادہ تھا۔ ماہرین فلکیات کا خیال تھا کہ یہ بھی سپرنووا اور پھر نیوٹران سٹار یا بلیک ہول بنے گا۔
مگر 2015 میں جب انہوں نے اس ستارے کی دوبارہ تصویر لی تو یہ غائب تھا۔ زمین سے 2 کروڑ نوری سال دور “غفور بھائی” جو ابھی 2009 تک سورج سے بھی لاکھوں گنا زیادہ روشن تھے ، اب کہیں موجود نہ تھے۔ بائیں طرف تصویر 2007 میں ہبل ٹیلی سکوپ سے لی گئی جس میں ایک روشن ستارہ نظر آ رہا ہے جبکہ دائیں طرف 2015 کی تصویر ہے جہاں ستارہ غائب ہے۔
تو “غفور بھائی” کہاں گئے؟ اب تک سائنسدانوں کا ماننا تھا کہ اس طرح کے ستارے بلیک ہول بننے سے پہلے سپرنووا ضرور بنتے ہیں مگر یہاں تو یہ ستارہ چپ چاپ بنا کچھ خبر دئے بلیک ہول میں تبدیل ہو گیا۔ یہ غالباً پہلا موقع تھا جب سائنسدانوں نے جانا کہ کوئی ستارہ سپرنووا بنے بغیر بھی بلیک ہول بن سکتا ہے۔ غفور بھائی بھی غالباً اب بلیک ہول ہیں۔اگر ایسا ہے تو یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ماہرین فلکیات نے کسی ستارے کو بلیک ہول بنتے دیکھا یے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...