برصغیر پاک وہند کی تاریخ بھی خوب رہی ہے۔ اگر اس کی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو سوائے مغلوں کے عہد کے کچھ سالوں جن میں اکبر کی بادشاہت کی وسط مدت شامل ہے سکون ملتا ہے تاہم اسے سے پہلے اور بعد میں حصول اقتدار اور حصول طاقت کی ایک ایسی جدوجہد شروع ہوئی جو جاری تھی جاری ہے اور جاری رہے گی۔1858 میں ملکہ برطانیہ نے ہندوستان پر براہ راست حکومت کا اعلان کیا اور 1878 میں ملکہ عالیہ نے اپنے لیے ایمپریس آف انڈیا کا لقب چنا۔یہ عہد بنیادی طورپر ہندوستانیوں کی جدوجہد کا عہد ہے۔ جو ہندوستانی شاہی دربار تک رسائی کی جدوجہد میں کامیاب ہوئے تو انہیں گولڈن بک آف انڈیا کے مطابق شاہی اعزازات اور القابات سے نوازا گیا۔ان القابات کی تعداد کم وبیش 200 کے قریب تھی جبکہ جوطبقہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھا اس کے لیے صرف ایک ہی ٹائیٹل تھا اور وہ تھا غدار کا لقب۔
برطانوی عہد کے اختتام پر دیگر شاہی القابات وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئے اوراب توشائد لوگوں کو ان عظیم المرتبت القابات والوں کے نام بھی یاد ناہوں مگر یہ بھی تاریخ کا حسن ہے کہ ہر سال بھگت سنگھ کی یاد میں پروگرام ہوتے ہیں جن میں جدوجہد آزادی کے اُن آشفتہ سروں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی مٹی کی محبت میں پھانسی کے پھندوں کو ہنسی خوشی چوم لیا ۔برطانوی عہد ختم ہوا اور برصغیر تقسیم ہوگیا۔برصغیر کے لوگوں کو ان کی خواہشات کے مطابق خطہ ارضی مل گئے جہاں انہوں نے اپنے نظریات کے مطابق زندگی گذارنی تھی
آزادی کے بعد برٹش راج کی نشانیوں کو مٹانے کا سلسلہ شروع ہوا۔لاہور کے مال روڈ پر موجود ملکہ کے دیوہیکل مجسمے کو اٹھا کر لاہور کے عجائب گھر میں رکھ دیا گیا۔اس مجسمہ کی منتقلی سے عوام نے سمجھا کہ اب برٹش راج کا خاتمہ ہوگیا مگر ایسا نہیں ہوا۔ہندوستان اور پاکستان کے بالادست طبقات کے اندر جو سوچ برٹش راج کے اندر پیدا ہوئی وہ بدستور پروان چڑھتی رہی ۔ہمہ وقت اقتدار میں رہنے اور وسائل سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس بالادست سیاسی اشرافیہ سے جو بن پڑا انہوں نےوہ کیا اور ببانگ دہل کیا۔ان کی راہ میں جو آڑئے آیا اس کو غدار کا لقب دے دیا گیا۔
کہتے ہیں کہ اگر کسی ہرے بھرے درخت پر قتل کی دفعہ 302 لکھ دی جائے تو وہ درخت بھی کچھ مدت میں سوکھ جاتا ہے اسی طرح ہمارے ہاں اگر کسی کی سیاسی زندگی کا خاتمہ کرنا ہوتو اس پر ہندوستان سے دوستی کا الزام لگا دو۔یہ الزام بھی درخت پر لکھے دفعہ 302 جیسا تیر بہدف کام کرتا ہے ۔اس کے آزمودہ ہونے کے سبب اس کا استعمال بھی بے دریغ کیا گیا۔اس کی ابتدا ملک بنتے ہی اس وقت ہوگئی تھی جب پہلے وزیراعظم لیاقت علی خا ن نے حسین شہید سہروردی کو غدار کہا۔
اس کے بعد تو گویا ایک طوفان آگیا اور پوری قوم ہی غدار غدار کے اس کھیل میں شریک ہوگئی۔دلچسپ امریہ ہے کہ جس سیاست دان کو بڑی شدومد کے ساتھ غدار کہا گیا وہی غدار کچھ مدت بعد ملک وقوم سے وفاداری کا حلف اٹھا کر محب وطن حاکم بن گیا۔اور جیسے ہی اقتدار سے باہر ہوا تو ایک بار پھر غداروں میں صف میں کھڑا ہوگیا۔گویا اقتدار کے شاہی محلات سے جو باہر ہو اوہ غدار ہوا اور جو ان محلات کے اندر داخل ہوگیا وہ محب وطن ٹھہرا۔
ایوب خان کے صدارتی انتخابات میں مخالف امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا یاد رہے یہ وہی فاطمہ جناح ہیں جنہوں نے ملک بنانے کے لیے دن رات ایک کیا تھا مگر غدار ثابت ہوئیں اور اس غداری کے سبب الیکشن بھی ہار گئیں کیونکہ عوام کسی غدار کو ووٹ کیسے دے سکتی تھی۔یہی نہیں بلکہ عہد ایوبی میں بلوچ رہنما نوروز خان اور اس کے بیٹوں کو اسی غداری پر سزاے موت دے دی گئی۔مینگل براداران، غوث بخش بزنجو ، خیر بخش مری اورنواب اکبر بگٹی بھی غدار قرار پائے۔
مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کے سفر کے دوران مولانا عبدالحمید بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمن کو غدار قرار دیا گیا ۔حتیٰ کہ شیخ مجیب الرحمن کو 1971 میں ایک مقدمے میں سزاے موت کا حکم دے دیا گیا تاہم ذوالفقارعلی بھٹو نے برسراقتدار آکر اس سزا کو فی الفور ختم کیا۔غدار شیخ مجیب الرحمن کے بنگلہ دیش کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اسلامی سربراہی کانفرنس میں بطور سربراہ مملکت شرکت پر اس غدار کو اکیس توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔
جی ایم سید جیسی شخصیت جنہوں نے سندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں قرار داد کی منظوری کے لیے دن رات محنت کی کو بھی غدار کہا گیا اور ایک مدت تک گھر میں نظربند رکھا گیا۔سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان بھی اہل خانہ کے ہمراہ غدار قرار پائے۔ضیا آمریت میں جام صادق علی اور ملک مصطفیٰ کھر بھی را کے ایجنٹ ڈکلیئر ہوئے۔محترمہ بے نظیر بھٹو سکیورٹی رسک اور نوازشریف ہندوستان کے حامی قرار دئیے گئے۔
1947 کے بعد کی ملک کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہم پر غداروں نے ہی حکومت کی ہے۔جس کو غدار کہا گیا وہی حاکم بن کر ہماری قسمت کے فیصلے کرتا رہا۔غداری کی سند دینے میں ہم اتنے وسیع القلب ہیں کہ ہم نے مشرقی پاکستان میں رہنے والی پوری قوم ہی من جملہ غدار قرار دے کراپنا فرض منصبی احسن طریقے سے سرانجام دیا۔
غدار غدار کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔کل کے تخت نشین آج غدار ہیں تو آج کے حاکموں کی کل باری لگنے والی ہے۔کیونکہ ہوا چلی تو چراغ سب کے بجھیں گے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ غداروں میں سے آئندہ انتخابات کے بعد کس غدار کو محب وطن کاسرٹیفکیٹ دے کر ملک وقوم کی خدمت کا حلف اٹھوایا جاتا ہے اور موجودہ محب وطن حکمران اشرافیہ کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔جو بھی ہے یہ تو طے ہے کہ اب تک کی تاریخ کے مطابق ہم پر غداروں نے ہی حکومت کی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم مانیں یا نا مانیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...