مسیحا بھی کیا غضب کے لوگ ہوتے ہیں ۔مسیحائی کے ساتھ ساتھ ان کا زوق مزاح بھی کمال ہوتا ہے جو جتنا بڑا مسیحا ہوگا اس کے مزاح کی حس بھی نقطہ عروج پر ہوگی ۔اب ہے تو عجیب سی بات کہ مسیحائی تو نرا سنجیدہ رویہ ہے پھر اس قدر سنجیدہ بندے میں مزاح کی حس کہاں سے آ گئی ۔تو آجاتی ہے مسیحاوں میں حس مزاح بھی آ جاتی ہے ۔تھوڑا سا اپنے زہن پر زور ڈالیں تو آپ کو یاد آئے گا کہ ہر بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پر ایک مسیحا کہتا تھا کہ گھبرانا نہیں ہے مشکل وقت جلدی دور ہوجائے گا۔کم وبیش چارسال کا انتہائی مختصر وقت پلک جھپکتے گذر گیا مگر مشکل دور ختم نہیں ہوا۔اس کے بعد سیاست نہیں ریاست پچانے کے لیے مسیحا میدان عمل میں آئے اور آتے ہیں پٹرولیم مصنوعات میں دل پر پتھر رکھ کر اضافہ کردیا۔
گھبرانا نہیں ہے کہ بعد دل پر پتھر رکھ کر مشکل فیصلے کرنے والوں کا جذبہ لائق تحسین ہے کہ کس طرح بے چارے اپنے نازک سے دل پر پتھر رکھ کر مشکل فیصلے کررہے ہیں مگر ان فیصلوں کے نتیجے میں جو عوام پر گذر رہی ہے اس کو کیا نام دیا جائے اس پر ابھی تک سوچ وبچار جاری ہے کہ اس کیفیت کو کیا کہا جائے ۔فی الوقت بھاڑ میں جائے یہ دو وقت کی روٹی کو ترستی ہوئی بھوکی ننگی عوام اصل پریشانی تو یہ ہے کہ ہمارے نازک مزاج بلکہ پھول جیسے مزاج کے حاکم نما مسیحا کب تک اپنے نرم ونازک سے دل پر پتھر رکھ کر ایسے مشکل فیصلے کرتے رہیں گے کہ جہاں مفتاح اسماعیل کے مطابق ان کی آنکھیں بھر آتی ہے اور وہ آبدیدہ ہو کر سمری پر ایسے دستخط کرتے ہیں جیسے اپنی موت کے پروانے پر دستخط کررہے ہوں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان فیصلوں سے کوئی بہتری بھی آئے گی یا نہیں ۔
بجلی کی کمی کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بجلی مہنگے تیل سے بنائی جارہی ہے اور مہنگا تیل خرید کر بجلی بنانا ممکن نہیں ہے تو لہذا بجلی کی پیداوار کم کردی ہے اس لیئے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اس ضمن میں دل پر پتھر رکھ کر تاجر برادری کو کہا گیا کہ وہ اپنی دوکانیں رات 9 بجے بند کردیں ۔اب دوکانیں تو رات 9 بجے بند ہوجاتی ہیں مگر لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی نہیں ہوئی ۔تو کوئ بتا دے کہ اس سے فائدہ کیا ہوا ۔
چلیں یہ بھی غیر ضروری سوال ہے کہ بجلی کب پوری ہوگی ۔سوال یہ ہے کہ تبدیلی سرکار کے دور میں جتنا قرض لیا گیا اور جتنا قرض اب ریاست بچانے کے لیے لیا جارہا ہے یہ قرض اترے گا کیسے ؟ ہمارے مسیحا دل پر پتھر رکھ کر عوام کو بتا ہی دیں کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ جو معاہدے سابقہ حکومت نے کیے اور جو معاہدے موجودہ حکومت کررہی ہےاس کے مطابق نا صرف بجلی ، گیس کے نرخوں میں اضافہ ہوگا بلکہ مزید قرض بھی لیا جائے گا اور ملک کے مجموعی قرض میں بھی اضافہ ہوگا۔
آج سے نیا مالیاتی سال شروع ہو رہا ہے ۔اب باتوں کا نہیں عمل کا وقت شروع ہوگیا ہے ان باتوں اور وعدوں پر عمل کا جو ہم نے مالیاتی اداروں سے کیئے ہیں۔پٹرول ، بجلی اور گیس کے نرخ مزید اوپر جائیں گے ۔اس کے بعد بھی ہم اس قابل ہوں گے کہ مزید قرض لے سکیں ۔اور پھر اس قرض کی نئی شرائط ہوں گی ۔ایک مشکل زندگی شروع ہوچکی ہے ۔معاشی معاملات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس مصیبت سے وقتی طورپر چھٹکارے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔قرض مزید بڑھے گا اور مہنگائی بھی اسی حساب سے بڑھے گی اب یہ نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے
لہذا اب جو بھی حکومت آئے گی وہ حسب روایت سابق حکومت کو لعن طعن کرتے ہوئے مزید مہنگائی کرئے گی اور معصوم بن کرکہےگی کہ دل پر پتھر رکھ کر مشکل فیصلے کررہے ہیں ۔ستم یہ ہے کہ ملکی معیشت کو یہ حاکم نہیں سنبھال سکتے ہزاروں ارب قرض لینے کے بعد بھی خزانہ جوں کا توں خالی ہے ۔اور اسی طرح یہ خالی رہے گا یعنی کشکول اب مقدر ٹھہرا۔مجبوری میں کاسہ اٹھانا بری بات نہیں ہے مگر پیشہ ور بھکاریوں کو تو ہم بھی راہ چلتے دھتکار دیتے ہیں اور طعنہ دیتے ہیں کہ شرم کرو ہٹے کٹے ہو کوئی کام کیوں نہیں کرتے ۔مگر وہ ہٹا کٹا بھکاری ہماری بات سن کر بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتا اور مانگنا جاری رکھتا ہے چاہے اس کی جیب میں موجود سکوں سے اس کا پیٹ بھر بھی سکتا ہو مگر وہ مانگتا رہے گا کہ کیونکہ اس کا مانگنا اس کی ضرورت کے تحت نہیں اس کی عادت کے مطابق ہوچکا ہے اور عادتیں اتنی جلدی کہاں ختم ہوتی ہیں
حرف آخریہ کہ گزشتہ تبدیلی سرکار کے ساڑھے تین سال بھی مشکل تھے موجودہ ایک سال بھی مشکل ہے اور آئندہ پانچ سال بھی مشکل ہوں گے اس کے بعد ہمیں ان مشکل حالات کی عادت ہوجائے گی ۔رہی بات کہ کیا قرض بھی اترپائے گا یا نہیں تو میرے معصوم لوگو قرض اتارنے کی جلدی کس کو ہے ہماری حکمران اشرافیہ کون سا یہ قرض اپنے لیئے لیتی ہے وہ یہ مشکل فیصلہ بھی عوام کی خاطر کرتے ہیں اور اس قرض کو اتارنا بھی عوام نے ہی ہے ۔
تو پھر آج کا آخری سوال یہ کہ اب کیا ہوگا ۔تو بڑا سادہ سا جواب ہے کہ کچھ نہیں ہوگا حالات فی الوقت جوں کے توں رہیں گے۔بس عوام نے مزید قربانیاں دینی ہیں ۔اور ملک وقوم کی خاطریہ قربانی کوئی اہمیت نہیں رکھتی بس زرا دل کو بڑا کرنا ہوگا کچھ حوصلہ کرنا پڑے گا آخر ہمارے نرم ونازک سے دل کے مالک حاکم نما مسیحا بھی تو دل پر پتھر رکھ کر مشکل فیصلے کررہے ہیں ۔
آخری بات یہ کہ مشرف کے ترقی یافتہ روشن خیال نعرے کے بعد گھبرانا نہیں ہےاور اب دل پر پتھر رکھ کے مشکل فیصلے کرنے والا سکرپٹ لکھتا کون ہے ۔بہرحال جو بھی ہے بندہ قابل ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...