جرمنی میں اردو کی صورتِ حال۔۔۔مزید وضاحت
نوائے وقت کے شمارہ ۲۲ستمبر ۲۰۱۹ء میں جناب آرین ہوف کا مضمون ’’جرمنی میں اردو کی صورتحال‘‘ ابھی پڑھا۔یہ لنک مجھے جناب آرین ہوف نے آج ہی ای میل سے بھیجا ہے۔انہوں نے میرے جس مضمون کے جواب میں خامہ فرسائی کی ہے اس کے بارے میں عرض کر دوں کہ میرا مضمون ’’جرمنی میں اردو کی بقا اور سماجی و ثقافتی حیثیت کا مسئلہ‘‘روزنامہ نوائے وقت کے اوورسیز ایڈیشن کی ۲۲ فروری اور یکم مارچ ۲۰۱۹ء کی دو اشاعتوں میں دو قسطوں میں شائع ہوا تھا۔تب یکم مارچ ۲۰۱۹ء کو ہی میں نے جناب آریان ہوف کو ای میل کے ذریعے اپنے مضمون کے دونوں لنک بھیج دئیے تھے۔اس وقت ان کی طرف سے میرے مضمون پر ان کی کوئی اختلافی رائے مجھے نہیں ملی۔اگراختلاف تھا تواظہار میںاتنی تاخیر کیوں؟(ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا)
دو ہلکی سی وضاحتیں شروع میں کر دوں،مغربی دنیا میں اردو زبان و ادب کی صورتِ حال پر میں ۱۹۹۹ء سے لکھتا چلا آرہا ہوں۔اب تک سات مضامین چھپ چکے ہیں،اسی سلسلے کا یہ آٹھواں مضمون ہے۔جب میں جرمنی کے حوالے سے زیرِ بحث مضمون’جرمنی میں اردو کی بقا اور سماجی و ثقافتی حیثیت کا مسئلہ‘‘ لکھ رہا تھا تو اپنا وہ پہلا سارا لکھا ہوا بھی میرے سامنے تھا۔ایسی صورت میں ایک بات انسان کے ذہن میں تو واضح ہوتی ہے لیکن بعض اوقات تحریر میں پوری طرح واضح نہیں ہوپاتی۔میرے اس جملہ نے ہلکی سی غلط فہمی پیدا کی ہے کہ ’’ بعض احباب عام طور پر یہ تاثر دیتے ہیں کہ جرمنی کی بعض یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم دی جا رہی ہے۔‘‘یہاں اردو کی تعلیم کی جگہ’’ ایم اے اردو کی تعلیم‘‘ لکھا جانا چاہئے تھا۔دراصل انہیں دنوں میں برلن کے عارف نقوی نے انڈیا میں’’صبحِ نو‘‘ دہلی میں اور بشریٰ ملک صاحبہ نے ’’اخبارِ اردو‘‘ اسلام آباد میں آن ریکارڈ یہ فرمایا تھا کہ جرمنی میں ایم اے اردو کرائی جاتی ہے۔میں نے بالواسطہ طور پر انہیں کو یہ جواب دیا تھا۔ایم اے کا میرے جملے میں نہ لکھا جانا میرا سہو ہے۔اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب میں نے آریان ہوف سے فون کے ذریعے استفسار کیاکہ آپ نے ایم اے اردو کیاہے تو انہوں نے بتایا کہ نہیں یہاں تو ایم اے اردو نہیں ہوتی۔ ہاں ساؤتھ ایشین سٹڈیز میں دوسری زبانوں کے ساتھ اردو بھی شامل ہوتی ہے۔ اور میری میل کے جواب میں اسی روز یہ لکھا:
’’محترم حیدر صاحب آداب
آپ کے ای میل کا بہت شکریہ۔مجھے آپ سے فون پر بات کر کے بہت خوشی ہوئی۔جیسے میں نے فون پر بتایا میں نے ہائیڈلبرگ سے ساؤتھ ایشین سٹڈیز میں ایم اے کیا۔لیکن اردو ہمیشہ میری ترجیح رہی۔آپ کی کتابوں کا لنک بھیجنے کا بھی بہت شکریہ۔میں انہیں ضرور پڑھنا چاہونگا۔کیا آپ کبھی ہائیڈلبرگ آنے کا ارادہ رکھتے ہیںتو آپ سے ضرور ملنا اور تفصیل سے بات کرنا چاہونگا۔آپ کا مخلص آریان‘‘
۲۲ فروری ۲۰۱۹ء کی ای میل آریان ہوف بنام حیدرقریشی
دوسری وضاحت یہ کہ یونیورسٹی میں پاکستانی ہوں یا یورپی لوگ دونوں کی اردو سے عدم دلچسپی کا میں نے ذکر کیا تھا اس لیے ان کا الگ الگ ذکر کرنا ضروری نہ تھا۔میں اپنے پہلے مضامین میں ان کا الگ الگ ذکر کر چکا ہوں۔مثلاََ نو سال پرانے مضمون کا یہ اقتباس دیکھ لیں۔
’’ابھی حال ہی میں۱۶ ؍مئی کو جرمنی کے شہربون میں ایک مشاعرہ ہوا تھا۔اس میں اڑھائی سو کے لگ بھگ حاضرین تھے۔اس تقریب میں بون یونیورسٹی کے ڈاکٹر ویسلر نے اعلان کیا تھا کہ ہماری یونیورسٹی میں یہ طے کیا گیا ہے کہ اگر اردو پڑھنے کے خواہشمندآٹھ طالب علم مل جائیں تووہاں اردو پڑھانے کا انتظام موجود ہے۔اس اعلان کے بعد کسی میں سنجیدہ دلچسپی ہوتی تو اب تک آٹھ کی بجائے سولہ افراد داخلہ لے چکے ہوتے۔لیکن اردوسے ہماری خالی خولی محبت ظاہر ہو گئی کہ دو ماہ کے لگ بھگ عرصہ گزر گیا کسی نے یہ معلوم کرنے کی تکلیف بھی نہیں کی کہ یہاں اردو سیکھنے کے لیے داخلہ لینے کا کیا طریق کار ہے۔برطانیہ ہو یا جرمنی یا باقی کی مغربی دنیا سب میں عاشقان اردو کا یہی حال ہے ۔ سب زبانی کلامی دعوے ہیں،عملی صورت صفر ہے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی احباب کی اولاد تو اردو سیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی،لیکن خود مغربی دنیا کی نئی نسل میں سے اتنے طالب علم نکل آتے ہیں جو اردو سیکھنے میں تھوڑی بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں ایسے یورپی طلبہ کی ایک معقول تعداد دیکھنے میں آجاتی ہے۔‘‘(مطبوعہ ماہنامہ’’ اخبارِ اردو‘‘اسلام آباد،شمارہ :ستمبر ۲۰۱۰ء)
لمبی چوڑی بحث میں گئے بغیر میں آریان ہوف کے اس بیان پر رُکتاہوں’’ہماری کلاسز میں پاکستانی نژاد طلبہ کی بہت بڑی تعدادبے شک نہ ہولیکن ہر سال چند ایسے طلبہ ضرور داخلہ لیتے ہیں جن کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے۔‘‘ اور ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ یہ بتا دیں کہ اس سال ساؤتھ ایشین انسٹی ٹیوٹ ہائیڈل برگ میں اردو کی کلاسز میں کتنے طلبہ نے داخلہ لیا اور ان میں کتنے پاکستانی ہیں؟۔سچ سچ صحیح تعداد بتا دیں توبس اسی سے اردو کے اس فروغ کا علم ہو جائے گا جو ہمیں آرین ہوف بتا رہے ہیں۔
آرین ہوف نے اردو جاننے والے جو چند اہم جرمن نام گنوائے ہیں وہ سب قابلِ احترام ہیں۔ان سب نے اردو،ہندی زبانوں میں مناسب مہارت حاصل کر کے اپنی اچھی ملازمتیں حاصل کیں۔لیکن جو عام طلبہ ہوتے ہیں ان کی اردو کی مہارت زیادہ سے زیادہ پرائمری جتنی ہی ہوتی ہے۔میری اس بات کا آرین ہوف بے شک انکار کریں لیکن حقیقت یہی ہے۔
آرین ہوف نے جو مضمون چھ ماہ کے بعد لکھا ہے،مجھے اس کے عقب میں ایک واضح سیاست دکھائی دے رہی ہے۔میں نے گزشتہ برس نصرت بخاری صاحب کے لیے گئے ایک انٹرویو میںان کے پہلے سوال کے جواب میں ہی یہ عرض کیا تھا۔
’’سوال : آپ نے جرمن لٹریچر کا مطالعہ کر رکھا ہوگا۔اردو ادب(تخلیق و تنقید)اور جرمن ادب میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
جواب: مجھے جرمن زبان بالکل نہیں آتی۔بول چال کی حد تک بس اتنی آتی ہے کہ خریداری کر سکوں،کہیں آتے جاتے ہوئے سفر کر سکوں۔سو میں نے جرمن زبان میں جرمن لٹریچر کا کوئی مطالعہ نہیں کیا ہوا۔تھوڑا بہت کچھ پڑھا ہے اور کچھ معلومات حاصل کی ہے تو ترجمہ شدہ اردو میں۔ہرمن ہیسے کے ناول ’’سدھارتھ‘‘سے میں اردومیںترجمہ کے ذریعے واقف ہوا تھا اور اس پراپنی رائے کا مناسب اظہار بھی کیا تھا۔جن جرمن اسکالرز سے تھوڑی بہت سلام دعا ہوئی ہے،مجھے وہ ہمارے پاکستانی ادیبوں کی ذہنی سطح کے لوگ ہی لگے۔گویا عمومی طور پر ہم سے زیادہ بڑے نہیں ہیں۔وہ جوبڑے جرمن مفکرین ہیں ،ان کے مقام و مرتبہ کو تو ساری دنیا مانتی ہے لیکن جو عام سطح ہے جرمن لکھنے والوں کی تو وہ بس ہمارے جیسی ہی ہے۔باقی جرمن معاشرے اور ہمارے معاشرے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔سو اپنے اپنے معاشرے کے اثرات دونوں طرف اپنے اپنے اندازمیں ہیں۔‘‘(انٹرویوسوال:نصرت بخاری۔۔۔۔۔جواب: حیدرقریشی)‘‘
یہ انٹرویو اردو جاننے والے بعض جرمن احباب کو بھی بھیجا تھا۔مجھے افسوس ہے کہ میری یہ صاف گوئی کسی جرمن شخصیت کر گراں گزری۔ویسے تو ایک عرصہ سے میں مغربی دنیا کی اردو سے وابستہ شخصیات میں سے ماسکو کی ڈاکٹر لدمیلا کا مداح ہوں اور گاہے بگاہے ان کا ذکر میرے مضامین میں آتا رہتا ہے۔میری انٹرویو والی صاف گوئی کے ساتھ شاید ڈاکٹر لدمیلا کے تئیں زیادہ ادبی محبت بھی کسی شخصیت کو گراں گزرتی رہی ہے۔چنانچہ ایسی ہی ایک شخصیت کی یہ سٹوری بھی سامنے آئی ہے۔پاکستان سے ایک صاحب نے اپنے پوسٹ ڈاکٹرل پروجیکٹ کے لیے خاکہ بنا کر بھیجا۔اس میں جرمنی کے دوسرے ادیبوں کے ساتھ میرا ذکر بھی تھا۔اس پر یہاں کی ایک علمی شخصیت نے انہیں لکھا:
Moreover several research papers have already been submitted on Haider Qureishi's work. For any meaningful
project you could perhaps limit the material to be studied and formulate precise questions to be discussed in the study.
میں ایسا لکھنے والی شخصیت کا نام نہیں دے رہا لیکن یہ ای میل ۱۰ جنوری ۲۰۱۹ء کو بھیجی گئی تھی۔اس سے میرے انٹرویو والی بات سچ ثابت ہوئی کہ ’’جن جرمن اسکالرز سے تھوڑی بہت سلام دعا ہوئی ہے،مجھے وہ ہمارے پاکستانی ادیبوں کی ذہنی سطح کے لوگ ہی لگے۔گویا عمومی طور پر ہم سے زیادہ بڑے نہیں ہیں۔وہ جوبڑے جرمن مفکرین ہیں ،ان کے مقام و مرتبہ کو تو ساری دنیا مانتی ہے لیکن جو عام سطح ہے جرمن لکھنے والوں کی تو وہ بس ہمارے جیسی ہی ہے۔باقی جرمن معاشرے اور ہمارے معاشرے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔سو اپنے اپنے معاشرے کے اثرات دونوں طرف اپنے اپنے اندازمیں ہیں۔‘‘
آخر میں آرین ہوف کی توجہ اپنے پہلے مضمون میں درج اردو کے دو ممتاز اسکالرز جناب پروفیسر رالف رسل اور شمس الرحمن فاروقی کے بیانات کی طرف دلانا چاہوں گا۔انہیں ان کے بارے میں بھی ویسے ہی شدید رویہ ظاہر کرنا چاہئے تھا جیسا میرے بارے میں کیا ہے۔آرین ہوف کو یاد دلانے کے لیے دونوں اقتباس پھر سے پیش کر رہا ہوں۔
’’ہمارے بعض دوستوں نے ’اردو کی نئی بستیاں‘ کا نعرہ ایجاد کیا ہے۔خدا ہی جانے کہ یہ نعرہ کسی سنجیدہ مطالعے اور حقائق و اعدادو شمار پر مبنی ہے یا بھولے بھالے اردو والوں کو رجھانے کے لیے ایک سیاسی سٹنٹ ہے‘‘
’’اصل سوال یہ ہے کہ اردو کا تھوڑا بہت وجود جو بیرونی ممالک میں کہیں کہیں نظر آتا ہے وہ قائم رہے گا یا نہیں؟اور اگر قائم رہے گا تو کیا اتنے بہت سے لوگوں کی مادری زبان اور اولین زبان کی حیثیت سے قائم رہے گا کہ اس میں ادب تخلیق ہو سکے؟مجھے دونوں باتوں میں بہت شک ہے‘‘۔
(’’اردو کی نئی(؟)بستیاں(؟) اور اردو کا پھیلاؤ‘‘از شمس الرحمن فاروقی(مطبوعہ اخبارِ اردو اسلام آباد شمارہ اگست ۲۰۰۸ ء )
’’اردو کے مخدوش مستقبل کی ذمہ داری میرے خیال میں بڑی حد تک خود اردو داں حضرات پر ہی ہے جنہیں زبان کے متعلقات کا صحیح عرفان و ادراک ہی نہیں تھا اور اسی لیے وہ لوگ اپنی نئی نسل کو اردو کی تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کر سکے۔ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے مسلمانوں کی بات تو جانے دیں تعلیم یافتہ اردو داں حضرات کے نزدیک بھی اردو کے فروغ کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کی طرح فضول روایتی،ادبی و شعری نشستیں برپا کرنا اور مشاعرے منعقد کرنا ہے اور یہ لوگ ہنوز یہی کر رہے ہیں۔ان کے اس رویے کے سبب نئی نسل کا اردو سے رشتہ بہت دور کا اور تعلق بہت واجبی سا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔‘‘
(پروفیسر رالف رسل کے خیالات،انٹرویو از اطہر فاروقی۔۔۔۔مطبوعہ روزنامہ’’ اخبارمشرق‘‘ کلکتہ۔بحوالہ ماہنامہ انشاء کلکتہ۔شمارہ جون ۱۹۹۴ء۔ص ۸۶)
وما علینا الاالبلاغ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Haider Qureshi
Rossertstr.6,
65795 Hattersheim,
Germany.
E Mail