آج 24.10.2019کوآریان ہوپف نے ای میل سے نوائے وقت کراچی کا 22.10.2019کا لنک بھیجا ہے۔اس میں پچھلی بحث کے تناظر میں امتہ المنان طاہرہ کا مضمون شائع ہوا ہے ’’جرمنی میں اردو کی صورتِ حال‘‘۔اس مضمون میں گفتگو کو جرمنی میں یونیورسٹیوں میں اردو کی تدریس تک محدود رکھنے کی کو شش کی گئی ہے اس لیے میں بھی اسی موضوع تک محدود رہوں گا۔امتہ المنان طاہرہ کے مضمون کے خاص خاص نکات یہ نکلتے ہیں۔
۱۔حیدرقریشی کے بقول:یہاں پڑھائی جانے والی اردو کا معیار پرائمری سطح کا ہے۔
۲۔جب جرمنی میں اردو پڑھانے والے دو اساتذہ نے یہ کہا کہ یہاں ایم اے اردو پڑھائی جاتی ہے تو حیدر قریشی کو انہیں جھٹلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
۳۔اس کی وجہ غالباََ یہ ہے کہ ایم اے KLM (کیمونیکیشن،لٹریچر اور میڈیا)میں اردو کی جو تعلیم دی جاتی ہے وہ ایم اے کی سطح کی ہے۔
۴۔حیدر صاحب کو اگر یہ معلومات درست نہیں لگی تھیں تو ان کا فرض تھا کہ پہلے اس ادارے سے اس بیان کے بارے میں مزید پوچھتے۔
۵۔یہ بجا ہے کہ حیدر صاحب نے اپنا شک دور کرنے کے لیے آریان ہوپف کو فون کیا تھا۔
۶۔حیدرنے آریان ہوپف کو چیلنج کر دیا کہ اس سال اردو کی ریگولر کلاسز میں کتنے طلبہ نے داخلہ لیا۔۔۔۔معلومات حاصل کرنے کا یہ نہایت ہی نامناسب طریقہ ہے۔
۷۔ریگولر کلاسز کے علاوہ سال میں ایک مرتبہ تین ہفتے کا اردو کورس بھی ہوتا ہے۔اس میں پندرہ سے بیس طلبہ تک داخلہ لیتے ہیں۔
امتہ المنان طاہرہ کی ان ساری باتوں کے جواب میں اپنا موقف واضح کروں گا۔بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ یہاں ایم اے اردو کی تعلیم دی جاتی ہے یا نہیں۔میں نے اس کی تردید کی تھی اور ایک بار پھر تردید کرتا ہوں کہ ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہے۔ہاں میری دعا ہے کہ آریان ہوپف اور امتہ المنان طاہرہ کی کاوشوں سے سچ مچ ایسا ہونے لگ جائے۔یہ ہم اردو والوں کے لیے بے حد خوشی کی بات ہو گی۔
۱۔میں نے جب یہ کہا کہ یہاں پڑھائی جانے والی اردو عام طور پر پرائمری سطح کی ہے تو اس میں کسی کو کم تر جتانا ہر گز نہیں تھا۔پاکستان میں ایک بچے کو پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے میں چھ سال لگتے ہیں۔یہ عام بول چال اور تھوڑی بہت لکھت پڑھت کے لیے مناسب تعلیم ہو جاتی ہے۔یہی یہاں جرمنی میں پڑھائی جانے والی اردو کی صورتِ حال ہے۔اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔
۲۔جرمنی میں اردو پڑھانے والے دو اساتذہ غلط طور پر کہیں کہ جرمنی میں ایم اے اردو پڑھائی جاتی ہے تو میں غلط کو درست کیوں مان لوں؟۔ابھی تک جو نہیں ہے وہ نہیں ہے۔دو اساتذہ چھوڑ دس اساتذہ بھی غلط بات کہیں گے تو وہ غلط ہی رہے گی۔
۳۔KLM میں اردو کی جو تعلیم دی جاتی ہے وہ ایم اے کی سطح کی ہوگی ،لیکن کیمونیکیشن،لٹریچر اور میڈیا میں ایم اے کو ایم اے اردو نہیں کہیں گے۔انگلینڈ میں ایم اے انگریزی میں ایک پرچہ فلسفے کا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں کسی بھی ایم اے انگریزی کو ایم اے فلسفہ نہیں کہیں گے۔یہی معاملہ ایم اے KLM کا ہے۔
۴۔مجھے یہ معلومات درست نہیں لگی تھیں اور میں نے اسی لیے آریان ہوپف کو ای میل بھی بھیجی اور ان سے فون پر بھی بات کی۔انہوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ یہاں اردو جزوی طور پر تو ہے لیکن ایم اے اردو نہیں ہوتا۔
۵۔نمبر ۵ میں امتہ المنان طاہرہ نے خود ہی اپنے نمبر چار کی تردید کر دی ہے۔
۶۔میں نے جب رواں سال میں اردو کے ریگولر طلبہ کی تعداد پوچھی تھی تو مجھے بخوبی علم تھا کہ اردو کے طلبہ صرف دو ہیں۔چار اساتذہ اور دو طلبہ۔۔۔۔اب یہ تعداد سامنے آگئی۔یہ تعداد مجھے خود امتہ المنان طاہرہ نے ہی بتائی تھی۔27 جولائی 2019 ء کو فرینکفرٹ میں ایک ادبی گیٹ ٹوگیدر میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔میں نے کرسٹینا جی کا حال پوچھا،انسٹی ٹیوٹ کی حالت معلوم کی ۔میں نے کہا کہ اب بھی سات آٹھ ریگولر طلبہ تو ہوں گے؟ کہنے لگیں تعداد کم ہو گئی ہے۔میں نے پھر کہا چار طلبہ ہیں؟انہوں نے نفی میں سر ہلایا اور پھر کہا صرف دو ہیں۔جب ریگولر طلبہ دو ہوں اور اساتذہ چار ہوں تو بے شک طلبہ کی تعداد پوچھنا نامناسب ہی لگے گا۔
۷۔سمر سکول میں بے شک طلبہ کی تعداد پندرہ سے بیس تک رہتی ہے۔یہ حوصلہ افزا بات ہے۔لیکن تین ہفتوں میں کوئی کتنی اردو سیکھ لے گا۔خود ہی غور فرمائیے۔پاکستان میں پرائمری کرنے میں چھ سال لگتے ہیں۔یہاں جرمنی میں تین ہفتوں یا چھ ہفتوں میں جتنی اردو پڑھادی جائے غنیمت ہے۔
میری دعا ہے کہ آریان ہوپف کی قیادت میں اب جنوبی ایشیائی انسٹی ٹیوٹ میں اردو کی تدریس پہلے سے زیادہ بامعنی اور موثر ہواور یہاں سچ مچ میں ایم اے اردو بھی ہونے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔