برادرم نصر ملک کا موضوع تو ’’یورپ میں اردو کی بقا اور سماجی و ثقافتی حیثیت کا مسئلہ ‘‘ہے۔تاہم میرے ذمہ یہ لگایا گیاہے کہ مجھے اس موضوع کو جرمنی تک مرکوز رکھ کر بات کرنی ہے۔ہر چند جرمنی کی صورتِ حال ہو یا یورپ کے کسی بھی اور ملک کی ،تھوڑے بہت فرق کے ساتھ منظر سب کا ملتا جلتا ہی ہے۔میں یورپ کے حوالے سے بھی اور مغربی دنیا کے تناظر میں بھی اس حساس مسئلہ پر کافی کھل کر حقیقت بیان کر چکا ہوں۔میرے ان مضامین میں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے بات کی جا چکی ہے۔
۱۔’’اردو زبان و ادب کے چند مسائل‘‘،
۲۔’’تیسرے ہزاریے کے آغاز پر اردو کا منظر ‘‘،
۳۔’’یورپی ممالک میں اردو شعر و ادب ۔۔ایک جائزہ‘‘،
۴۔’’مغربی ممالک میں اردو ادب کی صورت حال‘‘،
۵۔’’یورپ کی نو آباد اردو بستیوں میں اردو کا مستقبل‘‘،
۶۔مغربی دنیا میں اردوکی صورت حال‘‘،
متعدد دیگر مضامین میں اس موضوع پر موقعہ کی مناسبت سے جزوی طور پر بھی حقائق بیان کر چکا ہوں۔ اب جرمنی تک توجہ مرکوز رکھتے ہوئے کچھ پرانی اور کچھ نئی باتیں عرض کر دیتا ہوں۔ان باتوں سے جرمنی میں اردو کی بقا اور سماجی و ثقافتی حیثیت کے بارے میں واضح اشارے مل جائیں گے۔ مغربی دنیا میں اردو کی نئی بستیوں کا جو تاثر دیا جاتا ہے،اس کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی کے دو مختصر اقتباسات سے حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
’’ہمارے بعض دوستوں نے ’اردو کی نئی بستیاں‘ کا نعرہ ایجاد کیا ہے۔خدا ہی جانے کہ یہ نعرہ کسی سنجیدہ مطالعے اور حقائق و اعدادو شمار پر مبنی ہے یا بھولے بھالے اردو والوں کو رجھانے کے لیے ایک سیاسی سٹنٹ ہے‘‘
’’اصل سوال یہ ہے کہ اردو کا تھوڑا بہت وجود جو بیرونی ممالک میں کہیں کہیں نظر آتا ہے وہ قائم رہے گا یا نہیں؟اور اگر قائم رہے گا تو کیا اتنے بہت سے لوگوں کی مادری زبان اور اولین زبان کی حیثیت سے قائم رہے گا کہ اس میں ادب تخلیق ہو سکے؟مجھے دونوں باتوں میں بہت شک ہے‘‘۔
(’’اردو کی نئی(؟)بستیاں(؟) اور اردو کا پھیلاؤ‘‘از شمس الرحمن فاروقی(مطبوعہ اخبارِ اردو اسلام آباد شمارہ اگست ۲۰۰۸ ء )
جرمنی میں پاکستانیوں کی تعداد پچاس ہزار سے اوپر ہے۔کسی اسکول میں اگر آٹھ دس پاکستانی بچے مل کراپنی زبان کے طور پر اردو کا مضمون لینا چاہیں تو یہاں اردو پڑھانے کی سہولت مل سکتی ہے لیکن عملی طور پر والدین کی طرف سے کہیں بھی ایسا مربوط اقدام دکھائی نہیں دیتا کہ پاکستانی بچے اردو سیکھ رہے ہوں۔جرمنی کا سفر کر کے واپس جانے والے بعض احباب عام طور پر یہ تاثر دیتے ہیں کہ جرمنی کی بعض یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم دی جا رہی ہے۔یہ تاثر گمراہ کن ہے۔بعض یونیورسٹیوں کے جنوبی ایشیائی انسٹی ٹیوٹ کے تحت جنوبی ایشیا کی زبانوں کی بالکل ابتدائی تعلیم دی جاتی ہے۔ان زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔عام طور پر اس میں آٹھ دس طلبہ داخلہ لیتے ہیں۔افسوس ان کلاسز میں بھی پاکستانیوں کے بچے شامل نہیں ہوتے۔یہ زیادہ تر جرمن طلبہ ہوتے ہیں۔فارن آفس میں جاب کرنے کے متمنی،جنوبی ایشیا میں ریڈ کراس اور بعض دیگر این جی اوزمیں کام کرنے کے خواہشمند،کارپوریٹ سیکٹرمیں جنوبی ایشیا میں کام کرنے والے افراد اور اسی انداز کی خاص علاقائی دلچسپی رکھنے والے طلبہ عام طور پر جنوبی ایشیا کی بعض زبانیں سیکھتے ہیں۔ان میں دوسری زبانوں کے ساتھ اردو زبان بھی شامل ہے۔ان آٹھ دس طلبہ کو بول چال میں تھوڑی مہارت کے ساتھ ہلکا پھلکا پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا ہے۔اسے زیادہ سے زیادہ پرائمری سطح کی اردو کی تعلیم سمجھ لیں۔اب کچھ عرصہ سے جرمنی میں پاکستانیوں کے دینی مدارس میں اردو کی مناسب تعلیم دی جانے لگی ہے،اسے کسی حد تک مناسب پیش رفت کہہ سکتے ہیں۔ ایسے طلبہ کی تعداد مخصوص اور محدود ہونے کے باوجود غنیمت ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے ٹی وی چینلز اور بالی ووڈ کی فلموں کے ذریعے جرمنی میں اردو زبان ،بولی جانے والی زبان کے طور پر کسی حد تک مستحکم ہے۔انٹرنیٹ کے مختلف ذرائع،خصوصاََ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اردو کے فروغ کی کچھ صورت بنی ہے لیکن یہاں بھی اتنی جعلسازی ہے کہ حقیقت ،خرافات میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔اس کے باوجود اس ذریعۂ ابلاغ کی طاقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔جرمنی کے پاکستانی بھی اس ذریعہ سے اپنی اپنی ذہنی سطح اور اپنے اپنے مزاج کے مطابق بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔سو جرمنی میں اردو اپنی مخصوص پاکٹ میں بولی جانے والی زبان کے طور پرتو ابھی بہر حال قائم رہے گی۔اس کی ساری سماجی حیثیت اپنے دائرۂ کار کے اندر ہی ہے۔ہمارے ترجمہ نگاروں نے جرمن ادب کو تو اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن اردو ادب کا جرمن ترجمہ بہت کم ہوا ہے،نہ ہونے کے برابر ہوا ہے۔پھر جینوئن اردو ادیبوں اور جرمن ادیبوں کے درمیان موثر علمی و ادبی رابطے کی کوئی مستحکم صورت نہیں ہے۔کہیں کچھ نمائشی سا کوئی منظر ہے تووہ محض دکھاوے کااور پی آر کا منظر ہے۔ ثقافتی لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ کے سانحات بھی ہیں اور مشرق و مغرب کے ملاپ کے منظر بھی ہیں۔پاکستانیوں اور جرمنوں کی متعدد کامیاب شادیاں دو ثقافتوں کے ملاپ کا منظر دکھاتی ہیں۔جبکہ نئی نسل کا اپنی روایات کو ترک کرکے جرمنی کی روایات کی طرف راغب ہونا ان کے بزرگوں کے لیے ثقافتی تصادم کا المیہ بن رہا ہے۔
اردو ادب کے حوالے سے تھوڑا بہت مثبت کام ہوتا رہتا ہے۔جرمنی میں منیرالدین احمد،طاہر عدیم،حنیف تمنا،بشریٰ ملک،عارف نقوی،راجہ محمد یوسف خان،طاہر مجید،شازیہ نورین، خالد ملک ساحل،جیسے شاعروں؍ادیبوں کو جینوئن لکھنے والوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ممکن ہے کوئی ایک دو نام اور بھی ہوں جو سہواََ لکھنے سے رہ گئے ہوں۔ان کے علاوہ لکھنے والوں کی بھاری اکثریت دو قسم کے شاعروں پر مشتمل ہے۔ایک قسم ان شاعروں کی ہے جو مکمل بے وزن کلام لکھتے ہیں،اسے مشاعروں میں دھڑلے سے سناتے ہیں اور اس پر بھر پور داد بھی پاتے ہیں۔دوسری قسم ان شاعروں کی ہے جو انڈیا اور پاکستان کے استاد شاعروں سے سادہ کاغذ پر اصلاح لیتے ہیں اور شاعری کی ابجد سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی جرمنی کے علامہ اقبال بنے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اپنی طرف سے مزید کچھ لکھنے کی بجائے ڈاکٹر جواز جعفری کے تاثرات درج کردینا بہتر سمجھتا ہوں۔ڈاکٹر جواز جعفری نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ’ ’اردو ادب،یورپ اور امریکہ میں‘‘کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔آپ فرماتے ہیں:
’’ یہ وہ لوگ ہیں جو بیس تیس سال پہلے روزی روٹی کے چکر میں باہر گئے تھے۔کچھ عرصہ تو انہوں نے خوب دل لگا کر ڈالر اکٹھے کیے،جب جیبیں بھر گئیں تو جڑوں کی تلاش کا مسئلہ ستانے لگا۔چنانچہ بیرون ملک منعقد ہونے والے اردو زبان کے مشاعروں اور کانفرنسوں میں آنا جانا شروع کر دیا۔بعد ازاں اپنی کمیونٹی میں نمایاں ہونے کا شوق اُنہیں ادب کی طرف لے آیا۔لیکن بے ہنر ہونے کے باعث انہیں پاک و ہند کے ادبی منشیوں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔آجکل پاک و ہند کے ضمیر فروش شاعرڈالروں کے عوض ان جعلی شاعروں کے لیے دھڑا دھڑ شعری مجموعے تخلیق کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔جہاں تک میرا تعلق ہے میں توہمیشہ ہی سے ادب میں جعل سازی کے خلاف آواز اُٹھاتا چلا آرہا ہوں۔ اور اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے میں بھی اس ظلم کے خلاف مزاحمت کی ہے،مگر ہمارا عمومی رویہ یہی ہے کہ جب یہ جعلی اہلِ قلم ہمارے ہاں آتے ہیں تو ہم ان کے اعزاز میں ہونیوالی تقریبات کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے ان میں جانے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔‘‘ (اقتباس از انٹرویو ڈاکٹرجواز جعفری مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت، لاہور،ادبی صفحہ انٹرنیٹ ایڈیشن۔۴؍اپریل ۲۰۰۸ء)
جرمنی میں متعدد ادبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ان کی تقریبات کوپاکستانیوں کے میل ملاپ کی ثقافتی صورت کہہ سکتے ہیں۔ادب کے نام پر تھوڑا بہت مثبت کام بھی ہو جاتا ہے۔ صرف آنکھوں دیکھا حال بیان کروں توبلا تخصیص ہر تنظیم کے مشاعرے میں بے وزن کلام سنانے والوں کی تعداد باوزن کلام سنانے والوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔میں کم از کم معیار کے طور پر صرف باوزن شاعری کی بات کر رہا ہوں۔۲۵ شاعروں نے کلام سنایا ہے تو بمشکل آٹھ نو شاعر باوزن کلام سنا رہے ہوں گے جبکہ باقی سب بے وزن۔۔۔۔یہ جرمنی کی بات ہے لیکن سارے یورپ میں بھی یہی حال ہے۔جب کوئی ادبی تنظیم اصلی اور جعلی کا فرق نہ کر سکے تو پھر خود اس تنظیم کے منتظمین پر بھی انگلی اٹھے گی۔
جرمنی میں ایک رانا صاحب ہوا کرتے تھے۔۱۹۹۴ء میں وہ جرمنی کے سب سے فعال اور متحرک منتظم ہوا کرتے تھے۔ان کی تنظیم نے مذکورہ بالا سارے عیوب سے اَٹے ہوئے لیکن بڑے بھاری بھرکم پروگرام منعقد کیے۔لیکن ادب کی آڑ میں وہ بعض مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نکلے۔گرفتار ہوئے،سزا کاٹی اور پھر جرمنی بدر کر دئیے گئے۔بھاری بھر کم پروگرام کرنے والی ایک اور تنظیم کے منتظم اعلیٰ نے ایک مکمل بے وزن شاعر کے پانچ بے وزن مجموعوں کی چھ تقریبات منعقد کیں اور اسے اپنی فخریہ پیش کش سمجھا۔گویا تنظیم کے منتظم نے یہ سمجھ لیا کہ وہ جس کے ساتھ پروگرام کرے گا وہ مستند ہوجائے گا۔حالانکہ مطبوعہ بے وزن شاعر مر کر بھی بے وزن ہی رہے گا ۔ان دو تنظیموں کے منتظمین سے ہٹ کردوسروں کی دیکھا دیکھی جعلی شاعروں نے بھی تنظیمیں بنا لیں کہ اس سے ان کی جعلسازی کو تحفظ بھی مل گیااور پی آربھی ہو گئی۔ہمبرگ میں ایک محترمہ نے اپنی بے وزن شاعری کا مجموعہ چھپنے سے پہلے ہی اس کی تقریب رونمائی کرالی۔تب میں نے اسے غائبانہ نماز جنازہ کی طرح غائبانہ تقریب رونمائی قرار دیا تھا۔ ایک اور جعلی تنظیم نے فرحت عباس شاہ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کر دی۔جعلی تنظیم کے نامراد منتظم کی تمام تر جعلسازی کے باوجود افسوس فرحت عباس شاہ پر ہوتا ہے انہیں معلوم تھا کہ یہ سب کچھ فراڈ ہے پھربھی انہوں نے اس فراڈ کو اعزاز بنا کر پاکستان میں خبر چھپوائی۔اس قسم کی اور بہت ساری داستانیں ہیں۔کیا کیا بیان کیا جائے۔ جرمنی کے جینوئین لکھنے والوں میں جو بعض ادبی تنظیمیں بھی چلاتے ہیں جیسے طاہر عدیم،بشریٰ ملک،عارف نقوی،ایسے لوگوں سے گلہ ہے کہ یہ اپنی تقریبات کو جعلی اور بے وزن دونوں طرح کے شاعروں سے پاک نہیں کر سکے۔ابھی جرمنی میں کم از کم ایک ایسی ادبی تنظیم کی ضرورت ہے جس میں صرف جینوئن لکھنے والے شامل ہوں ۔یہاں ایسی کوئی تنظیم نہیں ہے۔
کئی سال پہلے پروفیسر رالف رسل نے برطانیہ کے حوالے سے کھل کر بات کی تھی،ان کی بات برطانیہ،جرمنی اور سارے یورپ کے اردو ماحول کے لیے آج بھی درست ہے۔اور ان کی اسی بات پر اپنا مضمون ختم کرتا ہوں۔
’’اردو کے مخدوش مستقبل کی ذمہ داری میرے خیال میں بڑی حد تک خود اردو داں حضرات پر ہی ہے جنہیں زبان کے متعلقات کا صحیح عرفان و ادراک ہی نہیں تھا اور اسی لیے وہ لوگ اپنی نئی نسل کو اردو کی تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کر سکے۔ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے مسلمانوں کی بات تو جانے دیں تعلیم یافتہ اردو داں حضرات کے نزدیک بھی اردو کے فروغ کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کی طرح فضول روایتی،ادبی و شعری نشستیں برپا کرنا اور مشاعرے منعقد کرنا ہے اور یہ لوگ ہنوز یہی کر رہے ہیں۔ان کے اس رویے کے سبب نئی نسل کا اردو سے رشتہ بہت دور کا اور تعلق بہت واجبی سا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔‘‘
(پروفیسر رالف رسل کے خیالات،انٹرویو از اطہر فاروقی۔۔۔۔مطبوعہ روزنامہ’’ اخبارمشرق‘‘ کلکتہ۔بحوالہ ماہنامہ انشاء کلکتہ۔شمارہ جون ۱۹۹۴ء۔ص ۸۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔