ایمیینؤل کانٹ اٹھارویں صدی کا بہت مشہور فلسفی تھا اس کا اخلاقی اقدار یا ethics کو یونیورسل گرداننا ہی بہت زبردست بیانیہ تھا ۔ اسی نے ہی
Rationality of the reason
کو بھی فروغ دیا۔ آج کہ دور میں پھر کانٹ بہت اہمیت کا حامل ہو گیا ہے جہاں ایک دفعہ پھر قومیت اور مادہ پرستی کی یلغار نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ امریکہ کی سپریم کورٹ کہ جج Stephen Breyer کانٹ کی فلاسفی کہ بہت بڑے مداح ہیں اور اکثر اپنے فیصلوں میں اس کا تزکرہ بھی کرتے ہیں ۔ یہاں یاد رہے کہ امریکہ کی سپریم کورٹ کہ جج کتابیں بھی لکھتے ہیں ، لیکچر بھی دیتے ہیں اور اپنے فیصلوں میں مشہور ادیبوں اور فلسفیوں کا ریفرینس بھی دیتے ہیں ۔ پاناما کہ فیصلے میں جب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ادب کہ حوالے دیے تو طلعت حسین جیسے جعلی دانشوروں نے اسے ان کی حدود سے تجاوز کا کہا اور کل ہی ایک جج اطہر مناللہ کے میکینیکل فیصلے کو عدلیہ کا شاندار فیصہ گردانا ۔
مشہور امریکی جریدہ The Atlantic
نے اپنے اس ماہ کے شمارے میں جمہوریت کو بچانے کہ طریقوں پر مختلف مکتبہ فکر کا بیانیہ چھاپا ۔ جیسے Amy Chau کو کہا گیا کہ قبائیلی بیانیہ سے جمہوریت کو کیسے بچایا جا سکتا ہے ، اسی طرح امریکی سپریم کورٹ کہ مایہ ناز جج اسٹیفن برائیر کو درخواست کی گئ کہ آپ عدلیہ اور قانون کہ اعتبار سے بتائیں کہ جمہوریت کو کیسے بچایا جا سکتا ہے مافیاز اور مصنوعی زہانت کہ اثر سے ۔
برائیر کو کلنٹن نے ۱۹۹۴ میں جج بنایا اور زیادہ تر تاریخی فیصلے برائیر نے اس دوران لکھے ہیں ، ہمارے بادامی جیسے ٹیڈی اینکرز سے درخواست ہے کہ ان کو زرا پڑھنے کی تکلیف کریں ۔ کل ان کہ کچھ اہم فیصلہ میں نے پڑھے ۔
اس دنیا میں انسان کی زندگی اور ترقی کا سارا بیانیہ ہی اخلاقیات پر مبنی ہے جسے بعد میں مزاہب نے مزید خوبصورتی اور طاقت سے اٹھایا ۔ سارا قانون اخلاقیات اور common sense
پر مبنی ہے جو کانٹ کہ reason کہ بیانیہ میں بھی بہت نمایاں ہے ۔ کانٹ کہ نزدیک انسان اپنے آپ میں ایک end ہے اسے کسی طور پر بھی means for some end
نہیں استمعال کیا جا سکتا ہے ۔ جس وجہ سے کانٹ نے prostitution اور pornography کی شدید مخالفت کی کہ یہ عورت کو means سمجھتی ہے پیسہ یا pleasure کا۔ کانٹ مزید کہتا ہے کہ
“The rightness or wrongness of actions does not depend on their consequences but on whether they fulfil our duty”
وہ duty کانٹ کہ نزدیک دراصل وہ اخلاقیات ہیں جس کو وہ یوں بیان کرتا
“Treat others as you wish to be treated..”
ایک اور جگہ کانٹ کہتا ہے کہ Liberty یا آزادی دراصل ایسے نہیں ہے کہ power structures سے پھوٹتی ہے ، بلکہ اُلٹ ہے آزادی اور لبرٹی سے accountable طاقت ابھرتی ہے ۔اور جھوٹ کو تو کانٹ اس حد تک نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ جج اسٹیفن لکھتا ہے ۔
“Kant used the example of lying as an application of his ethics: because there is a perfect duty to tell the truth, we must never lie, even if it seems that lying would bring about better consequences than telling the truth”
اطہر مناللہ صاحب فرماتے ہیں مریم کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے تو کیا deed تو ہے ۔
اگلے دن ثاقب نثار صاحب نے سلمان اکرم راجہ اور اعتزاز احسن کو کہا کہ آپ amicus curies تو بنتے نہیں یہ ان ارب پتی لٹیروں کی وکالت کرنے آ جاتے ہیں ۔ بابر ستار اخبار the news میں اخلاقیات اور آزادی پر بھاشن دیتے اور اپنے آپ کو ایک ماڈرن جیورسٹ کہلواتے اور عین انہی دنوں کڑوروں روپے فیس لے کر بوڑھے پینشنرز کی روزی روٹی پر لات مارتے ۔ یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے ۔ پاکستان میں ہہلے اسے
Doctrine of necessity نے تباہ کیا اور اب اسے
Doctrine of National interest کہ زریعے تباہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ جب جسٹس فرخ عرفان کو جج بنایا جانا تھا میں نے لاہور ہائ کورٹ بار کہ زریعے شدید تنقید کی ، گورنر ، چیف جسٹس سب کو خط لکھے کسی نے نہیں سنی ۔ اب وہ پاناما میں نام آنے کہ باوجود چوڑا ہو کر بیٹھا ہے ۔ دراصل اس کی وجہ بھی پاکستان میں عسکری طاقتوں کا غلبہ ہے جنہوں نے اچھے زہنوں کو غلامی پر مجبور کیا یا ملک بدر ہونے پر ۔
جسٹس اسٹیفن برائیر کہتا ہے کہ جب سپریم کورٹ میں کوئ کیس آتا ہے سب سے مشکل کام Amicus Curies کہ جو brief آتے ہیں وہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہوتے ہیں ان کو پڑھنا ، سمجھنا اور اپلائ کرنا ہوتا ہے جو ایک ہرکولین ٹاسک سے کم نہیں ہوتا ہے۔ اور اسٹیفن پھر کانٹ کا سوال دہراتا ہے مزید رہنمائ کہ لیے۔
“What should I do ?“ Kant replies that,” we should act rationally in accordance with a universal moral law”
پاکستان کی سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس میں محض ٹائم لمٹ پر کیس بار کر دیا ۔
جسٹس برائیر پھر اسی معاملہ پر صدر فریڈرک رُوزویلٹ کو quote کرتا ہے
“Its a common sense to take a method and try it:if it fails, admit it frankly and try another. But above all try some thing”
ہمیں اس جمود کو توڑنا ہو گا ۔ ایک vibrant قوم کی حیثیت سے ابھرنا ہو گا ۔ ٹیلینت کی کمی نہیں ، chains کا مسئلہ ہے ۔ ہمیں ہتھکڑیاں لگا دی گئ ہیں۔ سوچ پر پہرے بڑھا دیے گئے ہیں ۔ اس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بُگھتیں گیں جس کا مجھے ڈر ہے ، نہ نیا پاکستان نہ پرانا بلکہ عسکری پاکستان ۔
بہت خوش رہیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...