برٹولٹ بریخت ، {Bertolt Brecht}اصل نام یوجین برتھولڈ فریڈرک بریچٹ، (پیدائش: 10 فروری 1898، آگسبرگ، جرمنی- 14 اگست 1956 کو، مشرقی برلن میں انتقال ہوا)، جرمن شاعر، ڈرامہ نگار، اور تھیٹر میں اصلاح پسند جن کا رزمیہ تھیٹراور تھیٹر کے وہم اور تشکیک کے قرائن ان کی فکریات کا محور تھا۔ اور بائیں بازو کی رسائی کے تحت وہ ڈرامہ کو ایک معاشرتی اور نظریاتی فریم ورک {خاکہ} تشکیل دیا۔
بریچٹ ایک عظیم درامہ نفار تھے۔ مگر وہ دیگر ڈرامہ نگاروں سے مختلف دکھائی دیتےہیں۔ کیونکہ وہ تھیٹر کے نظریاتی دانشور بھی ہیں۔
بریخت کے تھیوری اور تھیٹر کے کیریئر کے دوران کافی حد تک اتار چڑھائے آئے۔ اور ان کے تھیٹر خیالات میں تبدیلی بھی آئی۔۔ خاص طور پر 1920 کی دہائی کے آخر تک، ایک بار جب اس نے معاشرے کے بارے میں مارکسی نظریہ اپنا لیا اور پھر بریچٹ نے تھیٹروں کا ایک ایسا تصور تیار کرنا شروع کیا جو معاشرے کے اس نظریہ کو پھیلائے اور بنیادی معاشرتی تبدیلی لانے میں مدد کرے ۔
بطور سیاسی ڈرامہ نگار اور ڈرامہ نظریہ دان ، برٹولٹ بریخت نے ڈرامہ کے نظریہ سے وسیع پیمانے پر تشویش اور تشکیک کا اظہار کیا۔ انھیں یہ یقین تھا کہ ہیرو کی شناخت کے ذریعہ سامعین تطہیر/ تزکیہ {کیتھرسیس }کے ارسطوئی مثالی اور دہشت گردی اور ترحم کے نتیجہ میں معاشرے کو بہتر بنانے کے اس کے مقاصد کے خلاف کام کیا ہے۔ وہ اپنے ناظرین کو محسوس نہیں کرنا چاہتا تھا ، بلکہ سوچنا چاہتا ہے اور اس کے اہم نظریاتی امتیاز – "ورفرڈڈونگسیفیکیٹ" (واقف شناسی شکن پیمانے ۔ "Verfremdungseffekte) اور رزمیہ تھیٹر ، دوسروں کے درمیان اس مقصد کے حصول کے لئے تصور کیا گیا تھا۔ ایلینیشن اثر ، جسے ایک اثر یا مغائرتی فاصلے {Alienation effect,} کا اثر بھی کہا جاتا ہے ، جرمن ورفریڈڈونگسیفیکٹ یا وی ایففکٹ ، جو جرمن ڈرامہ نگار-ہدایت کار برٹولٹ بریخت کے ڈرامائی نظریہ کا مرکزی خیال ہے۔ اس میں تھیٹریکل کارکردگی کی مصنوعی صلاحیت کو جھنجھوڑنے والی یاد دہانیوں کے ذریعے ناظرین کو کھیل میں جذباتی شمولیت سے دور کرنے کے لئے ڈیزائن کردہ تکنیک کا استعمال شامل ہے۔۔۔۔ اصل میں ورفریمڈونگسیفیکیٹ کی اصطلاح کی بنیاد روسی رسمی خیال کو عجیب و غریب بنانے کے پیمانوں کے ساتھ دی گئی ہے ، جس کا ادبی نقاد ویکٹر شلوسکی کا دعوی تھا کہ کہ یہ تمام فن کا جوہر ہے۔ بریچٹ کے یہاں ناظرین جب ڈرامہ دیکھتا ہے تو وہ وقتی طورر پرمجتنع جذبات کے تناو سے تنفتح و تزکیہ کے زریعے نجات حاصل کرتا ہے مگر ترقیاتی تبدیلی کا احساس اور شوقر کے بغیر ہی یہاں سے اپنی سپاٹ اور بے لطف روز مرہ زندگی کی طرف لوٹتا ہے۔ بریخت نے بے حسی اور "جذباتی تطہیر" کے روایتی تصورات کورّد کرتے ہوئے اپنے رزمیہ تھیٹر کے قیام کو ضروری قرار دیا۔ اپنے تھیٹر کے آغاز میں بریخت ناظرین کو منطقی کو منطقی اور عقلی بنیادوں پر ڈرامہ دیکھنے کے لیے تیار کرتا ہے اور وہ اس کے لیے ایک معروف تکنیک verf Remdung یا جذباتی علحیدگی کے سامنے لاتا ہے۔ جو رزمیہ حقیقت نگاری کا ایک اہم اور بنیادی عنصر ہے اس کا مطلب ناظر اور اسٹیج پر پیش کردہ واقعات کے درمیان اور" معروضی فاصلے" { Obiective Distance} تخلیق کرنا ہوتا ہے۔ جس کے زریعے ناظرین واقعات سے جذباتی طور پر ملوث ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ بریخت نے اپنے " بے تعلقی" کے نظرئیے کے تحت یہ بات بتائی ہے کے کہ تھیٹر فریب حقیقت کو پیدا کرنے کے لیے " جذبے" کو ختم کرنا ہوگا۔ اور ناظریں کو یہ احساس دلوایا جائے گا کی وہ حال نہیں دیکھ رہے بلکہ تھیٹر میں بیٹھے ماضی کے واقعات دیکھ دہے ہیں اور ناظریں کسی ایک کردار کے ساتھ اپنے آپ کے منسلک کرکے اپنے اندار ایک جذباتی قاَم کرتے ہیں۔ اس زمانے میں بریچٹ نے کہا تھا " میں نئے اسٹیج کا آئن اسٹائن ہوں"۔ بریخت نے یہ دعوِی اس لیے کیا کہ جس طرح آئن اسٹائن نےاقلیدس کی جیومیٹری کو تبدیل کردیا اسی طرح اس نے ارسطو کےنظریہ فن { ڈراما} کو تبدیل کردیا۔
بریخت کا ڈرامائی اور تھیٹر کا نظریہ1۔ مارکسی تھیوری 2۔ بیانیہ وائس تاریخی پلے3۔ رزمیہ تھیٹر 4۔ چینی اداکاری پر محیط ہے۔
بیسویں صدی کے یورپی ڈراما نویسوں میں بریخت کی اہمیت مسلمہ ہے. ان کا تھیٹرکا مزاج اور نظریات فن اور ادب کی دنیا میں ان کے انقلابی تجربات کے موافق اور مخالف تنقیدوں کا زبردست نشانہ بنتے رہے. ان کے شروع ڈرامے حقیقت پسندانہ ہیں جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ معاشرے کے غریب کے کچلے ہوئے لوگوں کو جب غیر منظم دنیا میں زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں تو ان حالات میں ان کی زندگی میں تشدد اور تباہی ضرور آتی ہے۔ 1920 دور میں بریخت کے اظہاریت {Expressionism} اپنایا اور ان کے مشہور ڈراما "آدمی ، آدمی لکھا ہے کہ" اور پھر ترقی کے لئے اس عظیم تھیٹر کی ترقی کے لئے شروع کیا جس میں بیان مونتاج {Montage} میں آپ کے اندر مکمل سین خود موجود مناظر اور عقلی استدلال کے تمام کا استعمال کرتے ہوئے ناظریں کو حیرت میں ہی نہیں ڈال دیتا ہے بلکہ چونکا بھی دیتا ہے،جس میں مکالموں کا سلیقہ بہت اچھا ہے جس کو پڑھنے اور دیکھنے والا آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔. سیٹ اس طرح بنا رہے ہیں ڈرامے کی سیٹ کی روشنی کو دیکھ کر ڈرامی دیکھنے والے کو یہ احساس نہیں ہے کہوہ تھیٹر کو دیکھ رہا ہے بلکہ وہ خلا میں ہے بریخت ان ڈراموں کی موسیقی کو خود ہی ترتیب دیتے تھے اور کیتوں کو انتخاب بھی خود ہی کیا کرتے تھے۔ . گیت کے لئے خود بریخت تحریر کیا گیا تھا.ان کا ایک ڈراما تین پینی کے آپرا تین پینی اوپیرا بھر میں یورپ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بے حد مقبول ہوا اور ایک تھیٹرانھون نے ایک مہینے میں مکمل کیا۔ یہ ڈراما پہلی 1928ء میں متعارف کرایا گیا تھا. اس کی موسیقی کو کے کرٹ وہیل ترتیب دیا.اس ڈرامے میں سرمایہ دارانہ نظام سے بریخت کی نفرت اور انسانیت کے ساتھ یہ بہت زیادہ محبت مکمل طور پر ظاہر ہوتا ہے کیونکہ بریخت فاشزم کے سخت مخالف تھا ان کو سرمایہ درانہ سماج اور فاشزم سے سخت نفرت تھی۔ 1932 میں جب اوڈئف ہٹلر نے جرمنی میں اقتدار پر قبصہ کیا۔ تو انہوں نے ترک وطن کرکے پہلے ڈنمارک اور پھر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سکونت اختیار میں. یہاں دو سب سے زیادہ اہم ڈراموں ، "ماں کی بہادری اور اس کے بچے" اور "شت زوان کی عورت لکھا" جو بہت مقبول ہوا۔. 1948 میں بریخت مشرقی جرمنی واپس پر ایک ہی مانیٹر کے ڈراموں کی ایک علیحدہ تھیٹر میں قائم کیا گیا تھا. یہاں, 1955 میں قفقاز کے چاک کے دائرے کاکیشین چاک سرکل نامی عظیم ڈراما پیش کیا جو اس صنف کے بہت اعلی نمونہ تصور کیا جاتا ہے ۔ برلن تھیٹر میں بریخت کے انتقال کے بعد آج بھی کھیل پیش کیا جاتا ہے۔ بریخت کا ڈرامہ پوری دنیا مین بے حد مقبول ہے۔ کئی زبانوں میں ان کے تراجم ہوچکے ہیں اب بھی اسٹیج پر پیش کئے جارہے ہیں۔
اس موضوع پر میرا یک مضمون " بریخت کا تھیٹر" راقم الحروف کی کتاب " جدید تھیٹر" { اسلام آباد،پاکستان 1985}میں شامل ہے۔