بیسویں صدی کی مغربی فیمنزم کی تحریک کی تفہیم میں جہاں امریکہ کی بے ٹی فریڈین اور فرانس کی سیمون دی بووا کا نام اہم ہے وہیں آسٹریلیا کی جرمین گریر کا کام بھی اہمیت کا حامل ہے۔
جرمین گریر ملبورن کے ایک کیتھولک خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ بچپن سے ہی باغیانہ شخصیت کی مالک تھیں۔ انہوں نے نوجوانی میں روایتی مذہب اور خدا کو خدا حافظ کہہ دیا اور اٹھارہ برس کی عمر میں گھر چھوڑ کر چلی گئیں۔
1956 میں جرمین گریر نے ملبورن یونیورسٹی میں انگریزی و فرانسیسی زبان و ادب کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا۔ چند سالوں کے بعد انہوں نے اپنی تعلیم سڈنی میں جاری رکھی اور پھر 1968 میں اٹلی سے شیکسپیر کے ڈراموں پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
طالب علمی کے دوران ان کے ساتھ دو اہم واقعات پیش آئے۔ پہلا واقعہ یہ کہ وہ چند ماہ کے لیے نفسیاتی مسائل اور ڈپریشن کا شکار ہو گئیں۔ انہوں نے کئی سال بعد ایک انٹرویو میں یہ بتایا کہ وہ جنسی استحصال کا شکار ہوئی تھیں جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی طور پر بہت پریشان رہیں۔
دوسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ ان کی ملاقات ایک انارکسٹ سڈنی پش سے ہوئی جس نے ان کے خیالات و نظریات کو بہت متاثر کیا اور انہیں ایک نئے انداز سے سوچنے کی تحریک دی۔
جرمین گریر دھیرے دھیرے ایک حق گو انسان کے طور پر مشہور ہوئیں۔ روایتی لوگ تو انہیں بد دماغ اور منہ پھٹ عورت سمجھتے تھے لیکن انہوں نے کبھی اس بات کی پرواہ نہ کی کہ۔ لوگ کیا کہیں گے۔ وہ منافقت کو چیلنج کرتی تھیں اور اپنا سچ ببانگ دہل بیان کرتی تھیں۔
1968 سے 1972 تک وہ یونیورسٹی میں پڑھاتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اخباروں اور رسالوں میں بطور جرنلسٹ لکھتی رہیں اور ٹی وی پر پروگرام پیش کرتی رہیں۔ وہ اپنی زور دار شخصیت اور بے دھڑک گفتگو سے بہت خوش نام بھی ہوئیں اور بدنام بھی۔
1970 میں ان کی پہلی اہم کتاب THE FEMALE EUNUCHچھپی جس نے عورتوں کی تحریک میں تہلکہ مچا دیا۔ جرمین گریر اپنی گفتگو میں روایت اور ثقافت کا بالکل خیال نہ رکھتیں۔ وہ گالی کو بھی روزمرہ کا حصہ اور اپنے جذبات کے اظہار کا جائز طریقہ سمجھتی تھیں۔ انہیں اپنی نیم عریاں تصاویر چھپوانے پر بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔ ان کا موقف تھا کہ یہ میرا جسم ہے میں اس کا جیسے چاہے اظہار کروں مجھے مردوں سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جرمین گریر انگلستان میں اتنی مقبول ہوئیں کہ انہیں 1971 WOMAN OF THE YEAR کا اعزاز ملا۔
وہ ریڈیو اور ٹی وی پر کسی بھی ادیب شاعر اور دانشور سے بلاتکلف مکالمہ اور تبادلہ خیال کرتیں اور بغیر کسی جھجک کے اپنا پورا سچ بیان کر دیتیں۔
1984 میں ان کی کتاب SEX AND DESTINY چھپ کر بہت مقبول ہوئی۔
1999 تک وہ اتنی مقبول و مشہور ہو چکی تھیں کہ ان کی اگلی کتاب THE WHOLE WOMANکے لیے ڈبل ڈے پبلشر نے انہیں پیشگی 500,000 پونڈ کی رقم پیش کی۔
جرمین گریر اتنی صاف گو ہیں کہ جہاں وہ ME TOO MOVEMENT میں شامل عورتوں کی ہمت افزائی کرتی ہیں وہیں ان عورتوں کو تنقید کا نشانہ بھی بناتی ہیں جو کسی ڈرامے یا فلم میں کام کرنے کے لیے کسی ڈائرکٹر یا پروڈیوسر مرد کے ساتھ اپنی مرضی سے ہم بستری کرتی ہیں اور پھر بیس برس بعد شکایتیں کرتی ہیں۔ وہ عورتوں سے کہتی ہیں کہ انہیں سوچ سمجھ کر اپنی زندگی کے فیصلے کرنے چاہیں اور پھر انہیں ان فیصلوں کے نتائج کو خوش اسلوبی سے قبول کرنا چاہیے۔
انہوں نے ایک دفعہ سلمان رشدی پر بھی طنز کیا تھا کہ۔ جو بویا ہے وہی کاٹا ہے۔
میں نے اس کالم کے لیے جرمین گریر کی چند تخلیقات کے اقتباسات کا ترجمہ کیا ہے تا کہ آپ کو ان کی سوچ ان کی فکر اور ان کے عورتوں کے مسائل کے بارے میں خیالات اور نظریات کا اندازہ ہو سکے۔
1۔ ہر دور میں ایسی عورتیں موجود رہی ہیں جنہوں نے معاشرے میں اپنا صحیح مقام تعین کرنے کے لیے بغاوت کے پرچم بلند کیے۔
2۔ اب عورتوں کو زندگی کے ہر مفروضے کو چیلنج کرنا سیکھنا چاہیے تا کہ ہم اپنے معاشرے کو سمجھنے کے لیے ایسے دروازے کھول سکیں جنہیں ہم حالات کے دباؤ کی وجہ مدتوں سے بند کر چکے ہیں۔
3۔ مرد اور عورت کے درمیان اڑتالیس کروموسومز میں سے سینتالیس ایک جیسے ہوتے ہیں صرف ایک جنسی کروموسوم مختلف ہوتا ہے لیکن ہم جس طرح مردوں اور عورتوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ سلوک روا رکھتے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اڑتالیس کے اڑتالیس کروموسومز ہی مختلف ہیں۔
4۔ بیوی خاوند کے گھر میں ایسی ملازمہ ہوتی ہے جو بغیر تنخواہ کے کام کرتی ہے اس ضمانت پر کہ اس کی ملازمت ہمیشہ قائم رہے گی۔ وہ اس ملازم سے مختلف نہیں جو ملازمت کی ضمانت حاصل کر کے کم تنخواہ پر کام کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں لیکن کم سے کم تنخواہ حاصل کرنے والے کی بھی چھٹی ہو سکتی ہے اور بیویوں کی بھی۔ اس وقت نہ ان کے پاس کچھ رقم ہوتی ہے اور نہ کوئی ایسا ہنر کہ کوئی قابل قدر ملازمت کر سکیں اس پر مستزاد انہیں رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
ان حالات کا حل یہ ہے کہ ملازمین اور عورتوں ایسی ضمانتیں قبول کرنے سے انکار کر دیں اور ایک نئی طرح کی ضمانت حاصل کریں۔ وہ ایسے ہنر سیکھنے کی کوشش کریں جن سے وہ اپنے پیروں پر خود کھڑی ہو سکیں اس طرح ان میں اعتماد اور ذاتی تحفظ کا احساس پیدا ہو گا اور وہ آزادی و خود مختاری کی طرف دو قدم اور بڑھ سکیں گی۔
****
تحریر: ڈاکٹر خالد سہیل
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...