کیسٹر پی (Castor P) نے مرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس کی عمر ۷۹ سال اور تین مہینے تھی۔ زندگی کی مزید کروٹیں دیکھنے کی اسے تمنا یا آرزو نہیں تھی۔ اسے کوئی غم نہیں تھا اور نہ ذاتی دکھ تھا، جو اسے فیصلے کی جانب دکھیلتا۔ کیسٹر پی کے دادا نے بھی یہی عمر پائی تھی۔ اس کا باپ ابھی اسّی برس کا نہیں ہوا تھا کہ اس نے بھی زندگی ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کیسٹر کا خیال تھا کہ اسّی برس کا نہیں ہوا تھا کہ اس نے بھی زندگی ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کیسٹر کا خیال تھا کہ اسّی سال کی عمر مناسب ہوتی ہے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اپنی فطری زندگی میں سائنس کو دخل اندازی کی دعوت دے کر اضافہ کرلیاتھا۔
حتمی نتیجے تک پہنچنے تک سے قبل اسے کچھ رسمی کاروائیاں کرنی تھیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ موت ہمیں منظم بناتی ہے، "آخری خواہشات کے مرکزی دفتر" کی جانب بڑھتے ہوئے کیسٹر پی نے سوچا۔ یہ دفتر ارضیاتی بقاء کے محکمے کا ایک ذیلی شعبہ تھا۔ "آخری خواہشات" کے نام پر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی کیوں کہ اس نام نے اسے شراب خانوں کی اولیت یاد دلائی تھی جس کے مطابق بار میں بیٹھے لوگوں کو بار کے بند ہونے سے قبل آخری آرڈر دینے کی اجازت ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ اطمینان کے ساتھ اپنے بستر میں لیٹ کر مرجایا کرتے تھے۔ یہ سوچ کر اسے کچھ افسوس بھی ہوا تھا کیوں کہ اب تو مرنے کا بھی رسمی اور باقاعدہ انتظام کرنا پڑتا تھا۔ وہ چاہتا تو زمین پر مزید پچاس برس گزار سکتا تھا۔ یہ اس کا حق تھا۔ اس کی انشورنس نے اسے اختیار دیا تھا کہ وہ اگر چاہے تو پورے ایک سو پچیس برس زندہ رہ سکتا تھا۔ ایک سو پچیس برس سرکاری طور پر منظور کی گئی عمر تھی جب کہ وہ جانتا تھا اور بااثر اور دولت مند لوگوں نے تین تین سو سال کی زندگیاں خرید رکھی تھیں بلکہ بعض خلائی بینکار تو تین سو برس سے کہیں زیادہ عمریں خرید بیٹھے تھے۔
کیسٹر کے پاس اختیار تھا کہ "ارضیاتی بقاء" محکمے میں ذاتی طور پر اس درخواست کے ساتھ پیش ہوکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اور برضا و رغبت اپنے باقی ماندہ سال محکمے کو لوٹا رہا ہے اور یہ کہ وہ فلاں سال کے فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو مرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد مقررہ تاریخ سے چند ماہ قبل یاد دہانی کے طور پر اسے تصدیق کرنا ہوتی کہ اپنی درخواست کے مطابق وہ مرنے کے لیے تیار ہے۔
کیسٹر نے تین ماہ قبل اپنی پہلی درخواست محکمے کو دی تھی۔ درخواست میں اس نے استدعا کی تھی کہ محکمہ اس کے فیصلے سے اس کے بیٹے کو آگاہ کردے تاکہ اپنے بیٹے سے وہ آخری ملاقات کرسکے۔ محکمے کے افسرون نے کیسٹر سے پوچھا تھا کہ ارضی کائنات میں اگر اس کے اور بھی عزیز و اقارب ہیں تو محکمے کو آگاہ کردے تاکہ سب کو بیک وقت مطلع کیا جاسکے۔ افسروں کا کہنا تھا کہ رابطے کے اخراجات اس کی انشورنس کمپنی کرے گی۔
"میرا تو اس ارضی کائنات میں میرے بیٹے کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔" کیسٹر نے انہیں بتایا تھا۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کا بیٹا کس سیّارے پر تعینات ہے تاہم اسے احساس ہوا کہ زبان ایک خطرناک چیز ہے۔ کیوں کہ وہ کہنے کو تو یہ بات کہہ گیا کہ دنیاوی کائنات میں وہ یکا و تنہا ہے لیکن اپنی ہی زبان سے ادا ہونے والا یہ جملہ سن کر وہ بہت خوف زدہ ہوا تھا کہ اس پوری کائنات میں وہ اکیلا ہے۔
بیٹے کے نام پیغام اس نے خود ریکارڈ کرایا تھا۔ پیغام کی ریکارڈنگ میں ایک منٹ بھی نہیں لگا تھا۔ الفاظ اس نے پہلے ہی سوچ رکھے تھے۔ وہ لہجہ نرم اور روان رکھنا چاہتا تھا لیکن اپنی آواز کا کیا کرتا جو پیغام کے آخر میں کرخت ہوگئی تھی۔ "میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے۔ برائے مہربانی مجھے رخصت کرنے کے لیے آجاؤ۔" تفصیلی پیغام کی ضرورت نہیں تھی۔ دفتر میں موجود لڑکی نے ضروری فارم وغیرہ بھرنے میں اس کی مدد کی تھی۔ مواصلات کے جدید ترین ذرائع کے باوجود مکتوبِ الیہ اس قدر طویل فاصلے پر تھا کہ کیسٹر کو یقین نہیں تھا کہ اس کے بیٹے کو پیغام وقت پر مل جائے گا۔ اس کا بیٹا جس سیارے پر تھا اس کی گردش کا حساب کتاب کیسٹر کی کبھی سمجھ میں نہیں آیا تھا، یاد رکھنا تو بڑی بات تھی۔ "وہ ہوگا کہیں کسی جنگل بیابان میں۔" یہ جملہ پچھلی صدی میں قابلِ فہم تھا لیکن آج اسے کون سمجھتا۔ دفتر کی وہ لڑکی جنے کو اس کی اتنی مدد کررہی تھی وہ بھی اس جملے کے معنی کو نہیں سمجھ سکی تھی تاہم اس نے ہمدردانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کیسٹر سے کہا کہ موجودہ تیز رفتار ذرائع مواصلات استعمال کیے جائیں تب بھی اس کا پیغام کم از کم دو ہفتوں میں پہنچے گا۔ میرے باپ کے خظوط تو مجھے ایک ہفتے میں مل جایا کرتے تھے کیسٹر نے کھسیانی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ حقیقت یہ تھی کہ کیسٹر نے اپنی زندگی کا حساب کتاب لپیٹنے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کی تھی۔ پیغام یا تار یا جو کچھ بھی اسے آج کل کہا جاتا تھا، بیٹے تک اس کے پہنچنے کے وقت کا اندازہ اس نے دو ہفتے لگایا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کا بیٹا پیغام وصول کرنے کے بعد اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ایک ہفتہ تو لے گا۔ دراصل باپ کی طرف سے مرنے کے فیصلے کی اطلاع کو مسترد کرتے ہوئے بیٹا اسے مزید بڑھاپے کی حماقت قرار دیتا لیکن باپ کو وہ اتنی اچھی طرح جانتا تھا کہ اسے یقین تھا کہ اس کا باپ اپنی موت کا فیصلہ کبھی واپس نہیں لے گا۔ ایک ہفتے میں اس کا غصہ ٹھنڈا ہوگا اور اگلا ہفتہ وہ تذبذب میں گزارے گا۔ فیصلے کے پانچویں ہفتے میں وہ ہنگامی بنیادوں پر چھٹی کی درخواست کرے گا اور ایک طویل سفر کی تیاری کرے گا اور تقریباً ڈیڑھ ماہ زمین کی طرف واپس ہوگا۔
تین ماہ گزر گئے بیٹے کی واپسی کا کوئی اشارہ بھی اسے نہیں ملا۔ کیسٹر پی تقریباً روز ہی محکمے کے دفتر کا چکر لگا رہا تھا اس کی شکل دیکھتے ہی دفتر میں کام کرنے والی لڑکی بے چارگی کے عالم میں اپنے دبلے پتلے کندھے اچکا دیتی۔ لڑکی کی یہ حرکت اظہار ہمدردی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتی تھی۔
زمین کی زندگی کو الوداع کہنے کے لیے کیسٹر پی نے جو پروگرام بنایا تھا اس کے مطابق آج آخری دن اس کے پاس شہر کے گلی کوچوں میں مٹر گشت کرنے کے لیے چند گھنٹے باقی بچے تھے۔ زمینی جنتری کے مطابق یہ دن موسمِ بہار کا پہلا دن ہوتا۔ شاہ بلوط کے درختوں پر پھولوں کے گچھے دمک رہے تھے۔ سفید ببول (Acacia) کے درخت موسیمِ بہار کی ہوا کے جھونکوں میں سرشاری سے جھوم رہے تھے۔ سڑکوں اور گلیوں میں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ لیکن یہ موسم بہار تو وہ موسم بہار نہیں تھا جو اس کی یاد داشت میں محفوظ تھا۔ آج کے پھول یقیناً بڑے اور ترو تازہ تھے لیکن خوش بو سے عاری تھے۔ کیٹر پی کو یاد تھا کہ اس کے زمانے کے غنچوں کی خوش بو کس قدر مست کردینے والی ہوتی تھی۔ اور غنچوں کا ذکر الگ ہے، اس کے دور کی ہر چیز کی اپنی نرالی خوش بو ہوا کرتی تھی۔ اسے یاد تھا کہ جب اس کا بیٹا بڑا ہورہا تھا تو ایک مرتبہ اس نے سفید ببول کی خوش بو کی تعریف کا تعین کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ دیر تک مثالیں تلاش کرتا رہا تھا لیکن ناکام رہا تھا کیوں کہ اس کا بیٹا ایک ایسے دور میں پیدا ہوا تھا جب قدرتی خوش بوئیں عنقا ہوچکی تھیں۔ جب تک خوش بو کا موازنہ نہیں کیا جائے گا، کوئی مثال یا مترادف نہ پیش کیا جائے خوش بو کی وضاحت یا اس کی تعریف کیا ہوسکتی ہے؟ یہ درست ہے کہ سفید ببول کی خوش بو بنفشہ (Lilac) کے پھولوں جیسی ہوتی ہے لیکن ببول کی خوشبو میں زیادہ نزاکت ہوتی ہے۔ مگر یہاں دشواری یہ تھی کہ بنفشہ کے بھول بھی اپنی خوش بو کھو بیٹھے تھے۔ اور پھر پھولوں کی خوش بو غائب ہوئی تو شہد کی مکھیاں اور بھونرے بھی غائب ہوگئے جب کہ پھولوں کے گرد بھونرے نہ مند لائیں تو فطرت اپنا ایک اہم کردار ترک کردیتی ہے۔ شہد کی مکھیوں کو غائب ہوئے ایک طویل عرصہ گزرچکا تھا اور بھونروں کو غائب ہوئے چار عشرے گزر چکے تھے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ سیل یا موبائل ٹیلی فونوں نے مکھیوں کی ان مخصوص اقسام کے مواصلاتی نظام کو درہم برہم کیا تھا جس کے نتیجے میں دنیا ان سے محروم ہوئی جب کہ کچھ اور لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ ایک نیا وائرس تھا جس کی جاریحیت کے سبب زمین شہد کی مکھیوں اور بھونروں کو گنوا بیٹھی۔ شہد کی مکھیاں جب غائب ہورہی تھیں تب ہی انسان کو سوچنا چاہیے تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے ۔ یہ ایک علامت تھی کہ حالات غلط سمت میں جارہے ہیں۔ ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کررہی تھی لیکن ترقی کے مقابلے میں فطری طریقوں کو زیادہ نقصان ہورہا تھا بلکہ یہ کہنا زیدہ مناسب ہوگا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی سے ہونے والے نقصان کی رفتار بہت زیادہ تیز تھی۔ بعد میں پھولوں کو مصنوعی طریقے سے بار آور کرنے (Pollination) کی کئی ناکام کوششیں ہوئیں۔ عام مکھیوں کے ڈی این اے کو تبدیل کرکے ان میں شہد کی مکھیوں کی خصوصیات پیدا کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن تب تک بہت تاخیر ہوچکی تھی اور شہد کی مکھیوں اور بھونروں کی نئی اقسام پیدا کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں فطرت کے اپنے نظام میں پیچیدگیاں پیدا ہونے لگیں ۔
انسان کی جانب سے ہونے والی ان احمقانہ کوششوں کی روک تھام کیسٹر پی نے اپنے طور پر کی بلکہ پوری زندگی اس نے اس کام کے لیے وقف کردی لیکن ٹیکنالوجی کا جن زیادہ قوت کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ کیسٹر پی کو یاد تھا کہ اپنی جوانی میں اس نے صدی کے اوائل میں یورپ میں ایک بہت بڑی دوربین کی ایجاد کے منصوبے پر کام کیا تھا۔ اس دوربین کا قطر 42 میٹر تھا۔ یہ دوربین اس قدر کارآمد تھی کہ اس کی مدد سے 2011ء میں ایک دور دراز کہکشاں کے اندر موجود ایک چھوٹا سا سیاہ غار یا دھبہ دریافت کرنے میں اس کی مدد کی تھی۔
دور افتادہ کہکشاں کے غار یا سیاہ دھبے کی دریافت پر اخبارات نے جو سنسنی خیز خبریں شائع کی تھی ان کے تراشے کیسٹر پی نے کچھ عرصے قبل تک بڑی حفاظت کے ساتھ اپنے پاس رکھے تھے۔ آسمان کھنگالنے کا کام کچھ مدت کے بعد اسے بور کرنے لگا تھا۔ کام حقیقتاً سست تھا۔ اس میں خون کو جوش دلانے والے واقعات نہیں تھے چناں چہ اس نے "انقلابی" قسم کے سائنس دانوں کے ایک گروپ میں شمولیت اختیار کرلی تھی جو ثابت کرنا چاہتے تھے کہ تیل یا ایندھن کی جگہ متعارف کیے جانے والے متبادل ذرائع مناسب نہیں ہیں اور یہ کہ انسان کو توانائی کے نئے ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔ سائنس دانوں کے اسی گروہ نے شہد کی مکھیوں اور بھونروں کے معدوم ہونے کے خطرے سے دنیا کو آگاہ کیا تھا۔ لیکن دنیا کو ان کی پیش گوئیوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
وہ سلیکون (Silicon) سے بنائے گئے ایک نقلی ببول (Acacia) کے سائے تلے بیٹھا تھا۔ وہ محسوس کررہا تھا کہ اس کے اردگرد موجود ہر شے انسانی ناکامیوں کی علامتیں ہیں۔ دنیا کے حوالے سے اس نے جو کچھ سوچا تھا، دنیا اس کے برعکس راستے پر چل رہی تھی۔ اس نے سر اُٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا۔ اسے یوں لگا جیسے آسمان کو ایک الٹے سیدھے آپریشن کے بعد بے ہنگم طریقے سے دوبارہ سی دیا گیا ہے۔ آسمان پر بڑے بڑے پیلے دھبے تھے جو اوزون (Ozone) کی تہہ میں انسانی ترقی کی اندھا دھند دوڑ کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے اور جنہیں بند کرنے کے لیے حضرتِ انسان نے کرۂ ہوائی (Stratosphere) میں گندھک کے گولے داغے تھے۔ یہ آخری جنگ تھی جس میں اسے شکست ہوئی تھی۔ یہ اس کی آخری کوشش تھی جس میں اس نے ثابت کیا تھا کہ اوزون کے ساتھ ہونے والی ان حرکتوں کے نتیجے میں اوزون کی تہہ مزید پتلی ہوجائے گی۔ اب اسے علم ہوگیا تھا کہ اس کے خدشات درست تھے۔ اس حقیقت نے اسے مزید اداس کیا تھا۔
اب دنیا سے اس کی روانگی کا وقت قریب تھا۔ اس کے پاس صرف تین گھنٹے رہ گئے تھے۔
اسے اگر کچھ الوداعی خط لکھنے تھے تو اس کام کے لیے یہ وقت مناسب تھا۔ لوگوں نے خط لکھنے کے لیے کاغذ قلم کا استعمال ایک عرصہ قبل ترک کردیا تھا۔ یہ اس کی عقلمندی تھی کہ اس نے ایک قلم اور کاغذ کا ایک دستہ چھپا کر رکھ لیا تھا۔ وہ اپنے آخری وقت میں یہ کام کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ اس کو اب بھی امید تھی کہ اس کا بیٹا ان آخری لمحات میں اس سے آخر ملے گا۔
یہ جو آخری خطوط اس نے لکھنے تھے، اس نے سوچا تھا کہ ان میں سے پہلا خط وہ اپنے باپ کو لکھے گا۔ یہ وہ خط تھا جو کم از کم پچاس برس کی تاخیر سے لکھ جانے والا تھا۔ کیسٹر نے سوچا تھا کہ اس خط میں وہ اپنے باپ کو رسمی طور پر رخصت کرے گا۔ خط شروع کرتے ہوئے وہ ہچکچایا کہ باپ کے لیے کیا القاب استعمال کرے۔ ایک لمحے کے لیے رک کر وہ ایک کاغذ کے ابتدائی حصے میں صرف "ڈیڈ" ہی لکھ پایا۔ قلم کی کاغذ پر چلنے کی آواز نے جو کھر چنے کی آواز سے مشابہت رکھتی تھی، اسے ایک انجانی خوشی سے دوچار کیا۔ اس کے ساتھ ہی گویا الفاظ کا ایک سیلاب تھا۔ جو اُمنڈ آیا تھا۔ اسے ایسا لگا جیسے الفاظ کاغذ اور قلم کے منتظر تھے۔
اس نے اپنے باپ کو دنیا میں ہونے والی موجودہ ترقی کے بارے میں بتایا اور کہا کہ "والد محترم، آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ آپ اس ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے سے محروم رہے۔" کیسپر پی کا باپ پھول پودوں اور درختوں سے عشق کرتا تھا۔ اگر کہا جائے کہ وہ دنیا کا آخری "مالی" تھا تو غلط نہ ہوگا۔ اسے اپنے درختوں اور پودوں سے گفتگو کرنے کا جنون تھا۔ سیب اور چیری کے درختوں سے بات کرتے ہوئے اس کا لہجہ اور ہوتا تھا اور اخروٹ اور ناشپاتی کے درختوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس کا انداز بالکل مختلف ہوتا تھا۔ شہد کی مکھیوں کے چھتے کے پاس جاتا تو اس کے چہرے پر نہ نقاب ہوتی تھی اور نہ ہی ہاتھوں پر دستانے۔ وہ بڑے سکون کے ساتھ اور دیر تک بھڑوں، بھونروں اور شہد کی مکھیوں سے محو گفتگو رہتا۔ ان دنوں دنیا میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں، ان کے نتیجے میں کیسٹر کے باپ کی نجی دنیا تو غائب ہی ہوچکی تھی۔ "ڈیڈ! میں آپ کا باغ محفوظ نہ رکھ سکا۔ شہد کی مکھیاں معدوم ہوگئیں مگر آپ کا آخروٹ کا درخت اب تک سلامت ہے۔" اس نے لکھا تھا۔ خط کے آخر میں اس نے اپنے باپ کو ترک دنیا کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ یہ اطلاع آگے بڑھانے سے قبل وہ رکا۔ اسے مناسب الفاظ کی تلاش تھی۔ "باقی تمام چیزیں ٹھیک ہیں۔۔۔۔ پریشان نہ ہوں۔ میرا بیٹا مجھ سے ملاقات کی غرض سے آیا ہے۔" کیسٹر نے لکھا۔ "لیکن میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میں آپ سے آخری ملاقات کرنے نہ آسکا۔ مجھے معاف کردیں۔ آپ کا بیٹا کیسٹر، نوٹ: ہم بہرحال بہت ملیں گے اور جتنی دیر چاہیں ایک دوسرے سے باتیں کریں گے اگر حیات بعد از موت کو انہوں نے تباہ نہ کردیا ہو!"
خط مکمل کرنے کے بعد کیسٹر کو لگا کہ اس کے سینے سے ایک بڑا بوجھ ہٹ گیا ہے۔ خط مکمل کرنے میں اس کی توقع سے زیادہ وقت لگا۔ جب اس کا باپ زندہ تھا کیسٹر نے کبھی اس سے بات چیت کے لیے اتنا وقت نہیں نکالا تھا۔
بیٹے کو خط لکھتے ہوئے اس نے زیادہ تکلیف محسوس کی تھی۔ خط کا آغاز کرنے کی اس نے بار بار کوشش کی۔ ہر مرتبہ تھوڑا لکھنے کے بعد اسے صفحہ پھاڑنا پڑتا۔ وہ دوبارہ وہی عبارت لکھتا جو پھاڑے ہوئے کاغذ پر اس نے لکھی تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے خط سے بیٹے کو اس کے دکھ درد کا احساس ہو۔ آخرکار جب وہ اپنا خط مکمل کرچکا تو اس کی مہارت نے خود اسے حیران کیا تھا جو کچھ یوں تھی:
"میں نے جو کام بھی کرنے کی کوشش کی اس میں ناکام رہا ہوں۔ گزشتہ چند برسوں سے میں توڑ پھوڑ اور افراتفری کی تھیوری کا قائل ہوگیا تھا اور عرصے میں میں نے بادلوں، دریاؤں، درختوں اور جھاڑیوں کو بہ غور دیکھا ہے گو کہ یہ تعداد میں کم ہوگئے تھے لیکن فطرت کا اپنا بھی ایک حساب کتاب ہوتا ہے اور میں دیکھنا چاہتا تھا کہ زمین پر جو چیزیں بچ گئی ہیں آگے چل کران میں کس نوعیت کی تبدیلیاں آئیں گی۔ تم جانتے ہو کہ تمہارے برعکس میں کبھی خلا کا قائل نہیں رہا اور نہ میں اسے تسخیر کرنا چاہتا تھا۔ خلاء مجھے مرطوب، سرد اور سیاہ محسوس ہوتا ہے لیکن آج کی دنیا بھی تو خلاء جیسی ہی ہوچکی ہے۔ میرے باپ اور دادا نے اپنے باغوں میں جو کچھ اگایا تھا جس کا تذکرہ میں یہاں کررہا ہوں۔ وہ اب موجود نہیں۔ ان کی دنیا کی عدم موجودگی میں فطرت کا حساب کتاب کوئی معنی نہیں رکھتا۔ میری بات پر تمہیں غصہ تو آئے گا لیکن میں پھر کہوں گا کہ ہم نے خلاء میں جانے کے لیے جلد بازی سے کام لیا تھا۔ ہم دراصل تیار نہیں تھے۔ صدیاں پہلے جب بدو صحراؤں میں گھوما کرتے تھے وہ وقتاً فوقتاً خیمے ڈال کر ٹھہر جایا کرتے تھے۔ اس طرح نہ صرف انہیں آرام کرنے اور سستانے کا موقع مل جاتا تھا۔ دیکھو، روح کی رفتار مختلف ہوتی ہے، کارواں سے بچھڑنے والوں، کو پیچھے رہ جانے والوں کو آملنے کا موقع ملتا تھا۔ جو لوگ کسی وجہ سے یا تاخیر کے سبب کارواں سے مل نہ سکے، خلاء کے ریگستانوں میں بھٹک رہے ہوں گے۔ میں ان کا رونا اور چیخنا چلانا سن رہا ہوں۔ میں چت لیٹ کر چاند پر نظر جماتا ہوں جہاں میں چند گھنٹوں میں ہوں گا۔ کیا تم جانتے ہو کہ خلاء کس عنصر کا بنا ہوا ہے؟ مجھ سے سنو ۔ خلاء کا خمیر تنہائی سے اٹھا ہے۔ تنہائی تیزی سے بھڑکنے والی چیز ہے جو اپنے اردگرد کی جگہ میں سما جاتی ہے۔"میرے دادا اور تمہارے پڑدادا، اس گھر میں رہتے تھے، جو انہوں نے خود بنایا تھا۔ اس گھر کا باغ خود انہوں نے لگایا تھا۔ اپنے گھر سے زیادہ سے زیادہ دور اگر وہ کبھی گئے تو گاؤں گئے یا گھر کے پچھلے حصے کے جنگل میں گئے۔ ان کی تنہائی کا حجم ان کے گھر اور باغ جتنا تھا۔ میرے باپ کی تنہائی اس اپارٹمنٹ اور شہر جتنی تھی جس میں وہ منتقل ہوا تھا۔ میرا دادا کہتا تھا کہ میرا باپ "بھاگ گیا۔" اسے شہر نے قبول کرلیا تھا۔ جب میں بڑا ہوا تو ترکِ وطن کرکے کسی اور ملک میں چلا گیا یا "بھاگ گیا۔" اور اب تم وسیع و عریض خلاء میں کہیں "بھاگ گئے" ہو اور میں سوچ رہا ہوں کہ تمہاری تنہائی کتنی بڑی ہوگی۔ کیا اس تنہائی کے ہماری کائنات جتنے رخ ہیں؟ کیا یہ ہلکی اور غیر مرئی ہے؟ اس کا حجم کیا ہے؟ اس کا وزن کتنا ہے؟ اس کے کتنے پہلو ہیں؟ کشش ثقل اس پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے؟
ماضی میں تنہائی نچوڑ کی شکل میں ہوتی تھی۔ مختصر۔۔ اسے بلی کی طرح پالا جاسکتا تھا۔ آج کی تنہائی کا حدود اربع خلائی ہے۔ میں تنہائی کی جیومیٹری پر تھیسس لکھنا چاہتا تھا لیکن میں اسے ریاضی کا ایک اصول میں نہیں سموسکتا اس لیے کہ یہ میری سمجھ سے ہی باہر ہے۔ اب جب کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں، میرے اندر شکایت کرنے کی عادت پیدا ہوگئی ہے۔ اب میں اپنے باپ اور دادا کی شکل اختیار کررہا ہوں اور وقت آگیا ہے کہ ان کے پاس چلا جاؤں اور ان سے ملوں۔ مجھ تک پہنچنے یا میں تاخیر پر اپنے آپ سے ناراض نہ ہونا۔ میرے لیے اتنا علم کافی ہے کہ تم مجھ سے ملاقات کے لیے آرہے ہو اور راستے میں ہو۔
"اور ہاں۔ اس سے قبل کہ میں بھول جاؤں۔۔۔ جب تک یہ خطوط وصول کرنے محکمے کے اس شعبے میں آؤ تو اس لڑکی سے اچھی طرح پیش آنا جو یہ خطوط تمہارے حوالے کرے گی۔ اچھی لڑکی ہے۔ اس سے بات کرو اور ممکن ہو تو اسے میری یاد میں سہی، کھانے پر مدعو کرلینا۔ نفیس لڑکی ہے۔"
کیسٹر پی نے پیار سے کاغذ تہہ کرکے لفافے میں ڈالے۔ جن جن لوگوں کے لیے اس کے دل میں جگہ تھی اس نے ان سب سے فرداً فرداً الوداعی ملاقات کی تھی۔ یہ اس کائنات کے لوگ تھے۔ خطوط اکٹھے کرکے وہ محکمے کی دفتر کی طرف چل پڑا جہاں موجود لڑکی کو وہ اپنی آخری تحریریں حوالے کرنے والا تھا۔ اس کی نظر مخالف سمت پر پڑی۔ وہاں لوگ آجا رہے تھے۔ دفتر کی جانب بڑھتے ہوئے اس کی نظر متعدد اینجیلنا جولیس (Anjelina Jolies) اور بریڈ پٹس پر پڑی ہو بوڑھے ہونے لگے تھے لیکن صاف لگتا تھا کہ اپنے دور کے مقبول ترین فلمی جوڑے کا سستا چربہ ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ کیسٹر پی دل ہی دل میں مسکرادیا۔ "یہ تو ناقابلِ مرمت ہوگئے ہیں۔" اس نے سوچا "نقلی انسانی خلیوں سے تیار کیے گئے ان نمونوں کا زمانہ بھی لد گیا ہے۔" لیکن انہیں دیکھ کر کیسٹر کو افسوس ہورہا تھا کہ دوسروں کو خوش کرنے کی خاطر انہیں جعلی زندگیاں گزارنے کی سزا ملی۔ "خدا کا شکر ہے کہ محکمے کے دفتر والی لڑکی کم از کم اصلی اور فطری تو ہے۔!" دفتر کے اندر داخل ہونے سے قبل وہ کچھ دیر کے لیے باہر رک گیا۔ کن انکھیوں سے اس نے ایک کونے میں چند درختوں کے سائے میں وہ خلائی کیپسول دیکھا جو اسے چاند تک پہنچانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ چاند کا وسیع قبرستان، اس جیسے زمین کے باشندوں کے لیے حال ہی میں قائم کیا گیا تھا۔
کیسٹر پی سے اس کے آخری الوداعی خطوط لے کر لڑکی اچانک اس کے ساتھ بغل گیر ہوگئی۔ اس نوعیت کی ذاتی انسیت یا شفقت کے مظاہرے کی سختی سے ممانعت تھی۔ "میرا بیٹا جلد کسی نہ کسی روز یہاں پہنچ ہی جائے گا۔" کیسٹر پی نے گلو گیر آواز میں لڑکی سے کہا۔ اس وقت وہ اتنا جزباتی ہوگیا تھا کہ کسی بھی لمحے بچوں کی طرح بلک بلک کررونے لگتا کیوں کہ اس کی روانگی کا وقت ہوچکا تھا۔
"وہ یقیناً آئے گا۔ میں جانتی ہوں۔" لڑکی نے اس کی کیفیت محسوس کرتے ہوئے اس کی ڈھارس بندھائی۔
شام ہونے لگی تھی۔ غروب ہوتے سورج کی نارنجی روشنی سارے میں پھیل رہی تھی۔ اس روشنی سے وہ بچپن سے واقف تھا جو رات کی تاریکی میں فاسفورس کی دودھیا روشنی میں تبدیل ہوکر سب کو چاند بنا دیتی تھی۔
*
(نوٹ : یہ افسانہ کتاب "عالمی کہانیاں نمبر 5"، انتخاب و ترجمہ: ظفر قریشی میں شائع ہوچکا ہے۔ )
English Title : And All Turned Moon
Written by:
Georgi Gospodinov (Bulgarian: Георги Господинов; born January 7, 1968 in Yambol) is a writer, poet and playwright based in Sofia, Bulgaria. One of the most translated Bulgarian authors after 1989, he has four poetry books awarded with national literary prizes. First of them, Lapidarium (1992), won the National Debut Prize. Volumes of his selected poetry came out in German, Portuguese, Czech, Macedonian. (Wikipedia)
***
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 380 : اور سب چاند ہوگئے
تحریر : جارجی گوسپوڈینوف (بلغاریہ)
مترجم : ظفر قریشی (کراچی)