برما کی ایک خستہ حال جیل میں اس وقت صبح تھی اور ابھی بارش برس کر تھمی تھی۔ اس کی نمی اب بھی ماحول میں محسوس کی جاسکتی تھی۔ صبح کے آٹھ بجے تھے اور آسمان اب بھی ابر آلود تھا۔ مگر کہیں کہیں بادل کے پھٹ جانے سے سورج کی زرد کرنیں جیل کی پیلی اور بد رنگ دیواروں کو منور کر رہی تھیں۔ ہم پھانسی کی سزا پانے والے قیدی کے کمرے کے باہر انتظار کررہے تھے۔ یہ اس بیرک کا حصہ تھا جس میں قطار سے کمرے بنے تھےاور صرف کھڑکیاں جن پر سلاخیں لگی تھیں، جیل کے صحن کی جانب کھلتی تھیں۔ مجھے یہ چڑیا گھر کے ان پنجروں کی یاد دلاتی تھیں جہاں درندے بند ہوتے ہیں۔ اس بیرک کے بھی ہر کمرے میں صرف سزائے موت یعنی پھانسی پانے والے قیدی بند تھے۔ بارش کے بعد ہلکی سی خنکی کی وجہ سے یہ قیدی اپنے گرد بوسیدہ اور گندے کمبل لپٹے بیٹھے ان تاڑیوں سے جھانک رہے تھے۔ ان کی باری آج نہیں بلکہ شاید اگلے یا اس سے اگلے ہفتے تھی مگر آج جس کی باری تھی جیل کے چھ وارڈ جو لمبے تڑنگے ہندوستانی سپاہی تھے۔ اسے اس کے کمرے سے نکال کر جیل کے صحن کی طرف لارہے تھے۔ یہ ایک مریل سا ہندو تھا جس کا سرمنڈا ہوا تھا اور چندیا پر ایک چھوٹی سی چوٹی لہرا رہی تھی، اس کی موچھیں گھنی اور بڑی بڑی تھیں جنہوں نے اس کے اوپری ہونٹ کو مکمل ڈھانپ لیا تھا۔ اس کے بہت ہی کمزور اور لاغر جسم پر یہ بڑی بڑی موچھیں بہت مضحکہ خیز معلوم ہورہی تھیں۔ پھانسی گھاٹ سے کچھ دور پہلے سپاہیوں نے اسے روک کر پھانسی کے پھندے کے لیے تیار کیا۔ دو سپاہی ذرا دور کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اپنی بندوقوں پر ننگی سنگینیں چڑھالیں اور باقی چار نے پہلے اس کے ہاتھوں پر ہتھکڑیاں چڑھائیں، پھر زنجیروں سے اسکے دونوں پیر ٹخنوں کے پاس باندھے اور پھر انہی زنجیروں کو اس کی کمر کے گرد لپیٹ دیا۔ اس قدر سختی سے زنجیریں پہنانے کے بعد بھی چاروں سپاہی اس کے بہت قریب کھڑے تھے اور دو نے اس کی کمر کے گرد زنجیر کو تھاما ہوا تھا۔ وہ چوکنا تھے کہ یہ کہیں بھاگ نہ جائے مگر اس کی کوئی ضرورت نہ تھی اس لیے کہ یہ تو نہایت پیچارگی سے اپنے ہاتھ ہتھکڑیوں کے لیے ان کے سامنے پیش کرچکا تھا اور اپنی ٹانگوں اور کمر کو بھی اس نے راضی بارضا ہوکر بغیر کسی مزاحمت کے پیش کردیا تھا۔
جیسے ہی آٹھ کا گھنٹہ بجا ایک بگل کی آواز سنائی دی جو دور کسی ملڑی بیرک سے آرہی تھی۔ جیل کا سپریٹنڈنٹ، جو ہم سب سے الگ تھلگ کھڑا بغیر کسی وجہ کے اپنی چھڑی سے کچی زمین پر لکریں کھینچ رہا تھا، بگل کی آواز سن کر چونکا، اس نے سر اٹھا کر ترش آواز میں کہا: " کیا بیہودگی ہے، آٹھ بج گئے، ابھی تک تو اسے مرجانا چاہیئے تھا، تم لوگ ابھی تک تیار نہیں ہوکیا؟" فرانسس، جو جیلر تھا اور سیاہ فام جنوبی ہند کا دراوڑ تھا گھبرا کر کہنے لگا: "نہیں۔۔ نہیں۔۔ جناب! ہم بالکل تیار ہیں۔ "وہ سفید رنگ کی براق وردی میں تھا اور اسکی آنکھوں پر سنہرے فریم کا چشمہ اس کی کالی رنگت پر عجیب تضاد کا منظر پیش کررہے تھے۔ وہ کہنے لگا ہر چیز بہت مناسب طریقے سے تیار کی گئی ہے۔ پھانسی دینے والا جلاد بھی تیار کھڑا ہے اور پھانسی گھاٹ کے تختوں کی جانچ بھی کی جاچکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے سپاہیوں کو "کوئیک مارچ" کا حکم دیا۔ اب ہم ایک چھوٹے جلوس کی شکل میں پھانسی گھاٹ کی طرف چلے۔ دو سپاہی اپنی ننگی سنگینوں اور رائفلوں کے ساتھ اس کے اطراف چل رہے تھے اور دو نے اس کو بازوؤں سے پکڑا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے ہلکے ہلکے دھکیل رہے ہوں۔ ہم یعنی جیل کے نچلے افسران، ڈاکٹر اور مجسٹریٹ ان کے پیچھے تھے۔ اچانک ایک کتا نہ جانے کہاں سے اچھلتا ہوا آیا اور وہ ہمارے چاروں طرف چکر لگانے لگا، وہ چھوٹی چھوٹی آوازوں میں بھونک رہا تھا۔ جلوس رُک گیا۔ پھر وہ کتا اچھل چھل کر قیدی کے منہ کو چاٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ ہم سب حیران تھے۔ ہمیں اس کا بھی خیال نہیں آیا تھا کہ کوئی بڑھ کر اسے پکڑ لیتا کہ سپریٹینڈنٹ کی جھنجلائی ہوئی آواز آئی: "یہ جنگلی جانور کہاں سے آٹپکا۔۔ ارے اسے کوئی پکڑ بھی نہیں رہا۔۔ پکڑو اسے۔" ایک سپاہی نیم دلی سے اس کو پکڑنے کے لیے بڑھا مگر کتا ہر دفعہ اسے چکمہ دے جاتا تھا۔ دراصل کتا اسے کھیل سمجھ کر اس سے لطف اندوز ہورہا تھا اور سپاہی کو تھکا مارنا چاہتا تھا۔ اس عرصے میں قیدی حیرت زدہ لاتعلقی سے اس تماشے کو دیکھ رہا تھا جیسے اسے یقین ہوکہ یہ بھی پھانسی پانے کی ایک روایت ہے۔ ایک دوسرے سپاہی نے کچی زمین سے پتھر کے ڈھیلے اٹھا اٹھا کر کتے کو مارے مگر کتا کبھی اچھل کر کبھی پینترے بدل کر اس کا وار خالی کردیتا تھا۔ اس میں کافی دیر لگ گئی۔ آخرکار کتے کو پکڑ لیا گیا اور اس کے گلے میں کالر پہنا کر اسے گھسیٹ کر میرے حوالے کردیا گیا۔ شاید ابھی اس قیدی کی زندگی کی کچھ گھڑیاں باقی تھیں۔
اب ہم پھر پھانسی گھاٹ کی طرف بڑھے جو ہم سے چالیس گز دور ہوگا۔ بدقسمت قیدی میرے آگے آگے چل رہا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہا تھا مگر اب بھی اس کی چال میں ایک خود اعتمادی تھی۔ وہ جما جما کر قدم رکھ رہا تھا اور اس کے سر کی چوٹی ان جھٹکوں کی وجہ سے لہرا رہی تھی۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ کچی اور بارش کی بھیگی زمین پر اس کے قدموں کے نشان بنتے جارہے ہیں۔ اس لمحے مجھے ایک عجیب احساس ہوا۔ ایسا احساس جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ شاید اس لیے بھی کہ پہلے کبھی میں نے یہ سب کچھ دیکھا بھی نہیں تھا۔ یہ احساس کہ کیسے ہم ایک زندگی کو چند سیکنڈ میں ختم کردیتے ہیں۔ ایک ایسے انسان کو جو اس وقت تک صحت مند ہوتا ہے۔ زندہ ہوتا ہے مگر چند لمحوں میں لاش بن جاتا ہے۔ یہ لاغر مریل سا رنگدار ہندوستانی بھرپور طور پر زندہ ہے مگر کچھ ہی دیر بعد اس کی زندگی کی شمع بجھ جائیگی۔ ہم ۔۔۔ ہاں ۔۔ ہم اس کی زندگی کی شمع گل کردینگے۔ خاص طور پر جب میں نے دیکھا کہ چلتے ہوئے قیدی نے یہ دیکھ کر کہ اس کے راستے میں کیچڑ اور پانی کے ایک چھوٹا سا زخیرہ جمع ہوگیا ہے تو اس سے بچنے کے لیے وہ ذرا دوسری طرف سے ہوکر گزرا۔ میں نے سوچا کہ یہ زندہ ہے بھرپور زندہ بالکل ایسے ہی جیسے ہم زندہ ہیں۔ تمام احساسات کے ساتھ۔ یہ قدرتی طور پر یا کسی مہلک بیماری سے قریب المرگ نہیں ہے۔ اس کا دل دھڑک رہا ہے۔ اس کی آنتیں کام کررہی ہیں۔ اس کا معدہ اس وقت اس کا آخری کھانا ہضم کررہا ہوگا۔ اس کے جسم کا ہر عضو اس وقت بھی کام کررہا ہوگا جب یہ تختہ دار پر کھڑا ہوگا اور اس کی زندگی کے صرف چند منٹ باقی رہ گئے ہونگے اور پھر ایک جھٹکے کے ساتھ جب یہ تختہ جس پر یہ کھڑا ہے کھلے گا تو شاید تیس سیکنڈز میں اس کی زندگی کی شمع گل ہو جائیگی۔ اس وقت اس جلوس میں یہ ہم میں شامل ہے۔ زندہ انسان ہے اور جلد ہی یہ ہم میں نہیں ہوگا۔ دنیا میں ایک ذی روح کی کمی ہوجائیگی۔ مجھ پر عجیب جذبات طاری ہوگئے۔
پھانسی گھاٹ جیل کے خاص صحن سے کچھ الگ بنایا گیا تھا۔ اس صحن میں چھاڑ جھنکاڑ کھڑے تھے۔ پھانسی گھاٹ تین طرف سے اینٹوں کی دیوار اٹھا کر بنایا گیا تھا۔ سامنے کے حصے پر دیوار تھی صرف یہ پشت پر کھلا تھا۔ اس کے اوپر لکڑی کے تختے لگا کر اسٹیج بنایا گیا تھا جس پر قیدی کو کھڑا ہونا تھا۔ قیدی کے سر کے اوپر دو شہتیر لگے تھے جن کو قینچی کی طرح بنایا گیا تھا اور ان کے بیچوں بیچ ایک مضبوط رسا لٹکا تھا جسکی لمبائی بہت زیادہ تھی۔ اس کا پھندا قیدی کی گردن میں ڈالا جانا تھا۔ قیدی کے پیروں کے نیچے گہرائی میں گرتا اور گردن میں پھنسے رسے کے جھٹکے سے اس کی گردن ٹوٹ جاتی۔
پھانسی دینے والا بھی ایک قیدی تھا جو نسبتاً معمولی جرم کی سزا پارہا تھا۔ یہ جیل کی سفید وردی میں تھا اور اس کی سفید مونچھیں ہلکے ہلکے پھڑ پھڑارہی تھیں۔ فرانسسس کے حکم پر سپاہیوں نے قیدی کو سیڑھیوں کی طرف دھکیلا وہ آہستہ سےاوپر چڑھنے لگا اور کم آواز میں "رام۔۔ رام۔۔ رام۔" کی آوازیں تھیلے سے گھٹ گھٹ کر آرہی تھیں۔ اس ورود نے ماحول پر جادو جیسا اثر کردیا۔ ان میں دہائی، غم یا اپنی رہائی کے معجزہ کی دعا نہیں تھی۔ بس خود سپردگی تھی۔ پھر بھی ان کا سننے والوں پر عجب اثر تھا جیسے دور کہیں مندر میں گھنٹیاں سی بج رہی ہوں۔
سپریٹنڈنٹ اب بھی زمین پر سرجھکائے چھڑی سے کچھ کرید رہا تھا۔ جیسے وہ سانسیں گن رہا ہو۔ شاید اس نے اپنے دل میں فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ قیدی کو بس اتنے سانس کی محلت اور دے گا۔ اس وقت ہم سب کے رنگ بدل گئے تھے دیسی مزید کالے ہوگئے تھے اور سفید فام گہرے سرخ، شاید ہم سب ایک عجب کشیدگی کا شکار تھے۔ ہماری نظریں غلاف میں لپٹے گردن میں پھندہ پڑے ایک زندہ انسان پر مرکوز تھیں۔ سب دل ہی دل میں کہہ رہے تھے ختم کرو، جلد ختم کرو اس تماشے کو ہم اس کشیدگی کو مزید برداشت نہیں کر پارہے تھے۔ پھر شاید سپریٹنڈنٹ نیند سے جاگ اٹھا اس نے چیخ کر ہندی میں کہا:"چلو " ۔۔ یکایک ایک کھٹکے کی آواز آئی۔۔۔ پھر ایک مہیب خاموشی، قیدی غائب ہوچکا تھا اور تختۂ دار کے اوپر صرف رسا نظر آرہا تھا جو بل کھارہا تھا۔ میں پھانسی گھاٹ کی پشت کی طرف دوڑا، میرے ساتھ سپریٹنڈنٹ اور ڈاکٹر بھی تھے۔ ہم نے دیکھا قیدی کا جسم رسے کے ذریعہ لٹک رہا تھا اور رسے کے ساتھ ساتھ بل کھارہا تھا۔ اس کے پیر اینٹھ گئے تھے اور ایسے کھینچ گئے تھے کہ اس کے پنجے زمین کی جانب اشارہ کررہے تھے۔ سپرٹنڈنٹ نے اپنی چھڑی سے اس کی ننگی پیٹھ کو چھیڑا، وہاں کوئی تحریک نہیں ہوئی۔ سب ٹھیک ہے اس نے کہا۔ ڈاکٹر نے اس کا سرسری معائنہ کیا اور تصدیق کی کہ یہ مرچکا ہے۔ سپریٹنڈنٹ کا چہرا بدل گیا جیسے ساری کشیدگی ختم ہوگئی۔ کتا بھی قریب ہی کھڑا تھا۔ خاموش تھا اور ہلکے ہلکے دم ہلارہا تھا جیسے اس کو بھی زندگی کی بے ثباتی کا احساس ہوگیاتھا۔ سپریٹینڈنٹ نے اپنی گھڑی دیکھی اور بولا اس وقت آٹھ بج کر آٹھ منٹ ہوئے ہیں تو بس یہی وقت سرکاری کھاتے میں درج کیا جائیگا۔
سپاہیوں نے اپنی سنگینیں اتار لیں۔ ہم جیل کے خاص صحن میں آئے جہاں بہت سے قیدی اپنے ناشتے کا انتظار کررہے تھے۔ یہ جیل کی روایت تھی کہ پھانسی سے پہلے ناشتہ نہیں دیا جاتا تھا۔ ایک عجب پر حول سما تھا۔ خاموشی تھی مگر جیسے سب کسی بات کا انتظار کررہے ہوں۔ ہمیں دیکھ کر انہیں اندازہ ہوگیا کہ "کام تمام" ہوچکا ہے۔ وہ سب اچانک بے مقصد بولنے لگے جیسے اپنا ذہن کسی اور طرف لگانا چاہ رہے ہوں۔ جیسے سب کے سر سے بوچھ اتر گیا ہو۔ ناشتہ تقسیم ہوا اور وہ اس پر ٹوٹ پڑے۔ ایک سپاہی جو دوغلی نسل کا تھا، اس لیے ہمارے کچھ قریب تھا میرے پاس آیا اور کہا کہ سر کیا آپ اس قیدی کو جانتے تھے۔ میں نے کہا: "نہیں" وہ کہنے لگا: "آپ نے دیکھا وہ کس قدر ثابت قدمی سے پھانسی کے تختے تک چڑھ کر گیا تھا مگر جس دن اس کی معافی کی اپیل مسترد ہوئی تھی اور اسے پھانسی کی تاریخ بتائی گئی تھی وہ خوف سے کپکپانے لگا تھا اور اس کا پیشاب نکل گیا تھا مگر ۔۔۔۔ آج"پھر وہ کچھ نہ بولا۔فرانسس سپریٹنڈنٹ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ وہ کہنے لگا: "سر! ہر چیز بالکل منصوبے کے مطابق ہوئی۔" اس نے چٹکی بجا کر کہا۔ بس یونہی سب کچھ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ ہر دفعہ ایسا نہیں ہوتا کبھی کبھی کچھ مسئلے ہوجاتے ہیں، وہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ فوراً موت نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر کوکئی کئی دفعہ دیکھنا پڑتا ہے۔ پھر کچھ قیدی بہت مزاہمت کرتے ہیں ایک قیدی تو اس قدر ہنگامہ کررہا تھا اور اپنے کمرے کی سلاخوں کو پکڑ کر اس قدر سختی سے لپٹ گیا تھا کہ چھ سپاہیوں کو اس کو بڑی مشکل سے کھینچ کر پھانسی گھاٹ تک لانا پڑا۔ مگر آج تو سب کچھ بہت اچھا ہوا۔
سپریٹنڈنٹ نے اسے ٹال دیا اور اس کے جانے کے بعد ہم سے کہا: "چلو! کچھ وہسکی پئیں کہ ہمیں اس وقت اس کی ضرورت ہے۔" تھوڑی دیر بعد ہم انگلش کلب میں وسکی کے مزے لے رہے تھے اور بے وجہ قہقہے لگا رہے تھے۔ پھانسی پانے والے قیدی کی لاش اگرچہ ہم سے دوسو گز ہی دور تھی مگر ہمیں ایسا لگا کہ وہ ہم سے میلوں دور ہے۔
Original Title: A hanging
Written by:
George Orwell (25 June 1903 – 21 January 1950)
– an English novelist, essayist, journalist, and critic .
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 91 : پھانسی
تحریر: جارج اورویل (برطانیہ)
مترجم: فیروز عال