ازقلم ’Paulo Coelho‘
اقتباس از Like The Flowing River
حالیہ دنوں وسطی ایشیا کے ملک قازقستان جانا ہوا۔ وہاں مجھے وسیع و عریض وسطی ایشیائی میدانوں میں ایسے شکاریوں کے ہمراہ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا جو ابھی بھی عقاب کو بطور شکاری ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
مَیں یہاں لفظ "شکار" کے متعلق مباحث کا آغاز نہیں کرنا چاہتا مگر اتنا ضرور ہے کہ عقاب بطور شکاری کے معاملہ میں فطرت اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
میرے ہمراہ کوئی مترجم نہیں تھا لیکن کوئی مسئلہ پیش آنے کی بجائے میرے لیے زبردست سازگار ماحول پیدا ہو گیا۔ چونکہ کسی سے بات چیت ممکن نہ تھی اس لیے مجھے اُن شکاریوں کے ہر عمل پر گہرائی میں توجہ دینے کا موقع ملا۔
ہمارے گروہ میں ایک ایسا آدمی ہم سے پرے چل رہا تھا جس کے بازو پر ایک دیوزاد عقاب بیٹھا تھا اور عقاب کے سر پر چاندی کا نقاب پڑا ہوا تھا۔ اچانک وہ رُک گیا۔ ہمارا گروہ بھی رُک گیا۔ اُس آدمی نے عقاب کو چاندی کے نقاب سے آزاد کر کے اُڑا دیا۔ مَیں اِس خاص جگہ رُکنے کی وجہ پوچھنا چاہتا تھا مگر کسی سے نہ پوچھ سکا۔
عقاب نے اردگرد چند چکر لگائے اور ایک گھاٹی کے پیچھے جُست لگا دی۔ جانے کہاں چلا گیا۔ ہم سب کچھ دیر میں گھاٹی عبور کر کے چشمے کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ عقاب نے ایک لومڑی کو اپنے پنجوں میں دبوچ رکھا تھا۔ اُس دن ہم نے دو تین مرتبہ یونہی شکار کیا۔
شکاریوں کی خیمہ بستی میں واپس پہنچ کر چند ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو میری زبان سمجھتے تھے۔ مَیں نے پوچھا کہ ’آپ لوگ عقاب کی تربیت کیسے کرتے ہیں؟ عقاب کا آپ کے بازو پر سکون سے بیٹھے رہنا بھی میرے لیے حیران کُن عمل ہے‘۔ بلکہ انہوں نے میرے بازو پر بھی چمڑے کا پٹہ سا باندھا تھا جس پر عقاب آرام سے بیٹھ گیا تھا۔ عقاب جب اتنا قریب ہوتا ہے تب اُس کے دیوزاد پنجوں کا درست حجم آشکار ہوتا ہے۔
میرا سوال بے کار ثابت ہوا کیونکہ کسی کے پاس جواب نہ تھا سوائے یہ کہ یہ فن نسل در نسل منتقل ہوا ہے، باپ سے بیٹے کو، پھر اُس کے بیٹے کو، وغیرہ وغیرہ۔
البتہ میرے ذہن پر اُس وقت کے کچھ اور نقوش بھی ہیں جو مَیں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ مَیں وسطی ایشیائی سرسبز میدانوں کے پس منظر میں بلند برفپوش پربت دیکھ رہا تھا۔ منظر میں چند گھڑسوار تھے اور چند ایک کے بازوؤں پر چاندی برقعہ بردار عقاب بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران انہوں نے زمین پر قالین بچھایا اور کھانا پیش کر دیا۔ ہم کھانا کھانے لگے۔ تب ایک بزرگ شکاری نے کچھ گفتگو کا آغاز کر دیا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ منگول بادشاہ چنگیز خان اپنے کچھ خاص ساتھیوں کے ہمراہ شکار پر روانہ ہوا۔ ساتھیوں کے پاس تیر کمان تھے۔ جبکہ چنگیز خان کے پاس اُس کا پسندیدہ عقاب تھا جو اُس کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ عقاب یقیناً تیر کمان سے بہتر ہوتا ہے کیونکہ اُسے ہوا میں چھوڑ دیا جائے تو وہ بلند ہو کر ماحول کا جائزہ لے سکتا ہے، چُھپے ہوئے یا دور موجود شکار کو بآسانی دیکھ سکتا ہے۔ آپ اِسے آٹومیٹِک ڈرون کیمرہ سمجھ لیں۔
چنگیز خان اور ساتھی دِن کا بیشتر حصہ شکار ڈھونڈتے رہے مگر اُنہیں کچھ نہ ملا۔ آخرکار تنگ آ کر وہ سب اپنی خیمہ بستی میں واپس آ گئے۔ کچھ دیر بعد چنگیز خان اپنے عقاب کو ہمراہ لے کر کسی کو بتائے بغیر اکیلا نکل گیا۔ اصل میں وہ کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ اگر نہ نکل جاتا تو اپنا غصہ ساتھیوں پر نکال دیتا۔ وہ سب جنگل میں ضرورت سے زیادہ دیر قیام پذیر ہو چکے تھے۔
یہاں کچھ اہم معلومات ہیں۔ چنگیز خان بارہویں سے چوہدویں عیسوی کی ابھی تک دنیا کی سب سے بڑی زمینی سلطنت کا پہلا بادشاہ گزرا ہے۔ منگول سلطنت سوویت یونیئن سے بھی بڑی تھی اور زیادہ تر سوویت علاقے ہی منگول سلطنت میں تھے بلکہ برصغیر ہندوستان، مشرقِ وسطیٰ کے عرب علاقے، ایران، یورپ اور امریکہ کی سرزمین الاسکا تک پھیلی ہوئی تھی۔ چنگیز خان کے علاوہ اُس کی اولاد نے دو سو برس میں منگول سلطنت کو وسعت دی تھی۔ بلکہ اِن تمام خطوں میں چنگیز خان کی اولاد بھی اِس وقت کروڑوں میں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اُس کی 6 بیویوں کے علاوہ 500 خادمائیں تھیں جو چنگیزی آبادی میں اضافہ کا باعث بن گئیں۔ آج متعلقہ علاقوں میں ہر چار میں سے ایک انسان کا ڈی-این-اے چنگیز خان سے مطابقت رکھتا ہے۔ آج جو شخص اپنا ناتا مغل یا ترک خاندان سے جوڑتا ہے وہ اصل میں خود کو چنگیز خان کی اولاد کہہ رہا ہوتا ہے جو 500 خادماؤں سے شروع ہوئی تھی۔
تو چنگیز خان اکیلا نکل گیا تھا۔ سخت گرمیوں کے دن تھے۔ چشمے دریا وغیرہ سب سُوکھے پڑے تھے۔ وہ پیاس کی شدت سے نڈھال ہو گیا۔ بہت دیر بعد اُس نے اپنے سامنے ایک چٹان میں سے پانی کی ہلکی سی دھار ٹپکتی دیکھی۔ اُس نے اپنے پیالہ کو بھرنے کے لیے سب سے پہلے عقاب کا نقاب اُتار کر اُسے آزاد کر دیا۔ تب پیالہ کو دھار کے نیچے لے جا کر بھرنے کا انتظار کرنے لگا۔
ابھی پیالہ بس بھرنے کو ہی تھا کہ عقاب کو جانے کیا ہوا۔ اُس نے جُست لگائی اور پیالے پر جھپٹا مار کر گرا دیا۔ سارا پانی زمین پر گر کر مٹی میں جذب ہو گیا۔ چنگیز خان کو عقاب پر سخت غصہ آیا مگر آخر وہ اُس کا پسندیدہ عقاب تھا اس لیے برداشت کر گیا۔ اُس نے پیالہ کو زمین سے اُٹھا کر ایک بار پھر دھار کے نیچے کر دیا۔ پیالہ پھر بھرنا شروع ہوا۔
ابھی پیالہ آدھا بھرا تھا کہ عقاب نے پھر حملہ کر کے پیالہ گرا دیا۔ چنگیز خان نے سوچا کہ بے شک یہ عقاب میرا پسندیدہ ہے مگر کسی کو ہتکِ عزت یا ناقدری کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص دور سے یہ سارا منظر دیکھ رہا ہو اور بعد میں فوج اور رعایا میں مشہور کر دے کہ تمہارا بادشاہ تو ایک عقاب کو بھی نہیں سُدھار سکا، تمہارا خیال کیا رکھے گا۔ یہی سوچ کر اُس نے تلوار نکال لی۔
ایک بار پھر پیالہ ابھی بھر ہی رہا تھا کہ عقاب حملہ کرنے لگا۔ چنگیز خان نے ایک ہی ضرب سے عقاب کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اتنی دیر میں پانی کی دھار رُک چکی تھی۔ چنگیز خان نے چٹان پر قدم رکھا اور کچھ ہی دیر میں اوپر پانی کے منبع تک پہنچ گیا۔ اوپر پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب تھا جس کے اندر علاقے کا زہریلا ترین سانپ مرا پڑا تھا اور اُس کا جسم پانی میں گُھل رہا تھا۔ چنگیز خان کو معلوم ہو گیا کہ اگر وہ پانی پی لیتا تو وہ بھی مر جاتا۔
چنگیز خان کو مقتول عقاب پر بہت حیرت ہوئی جو اسی لیے پانی نہیں پینے دے رہا تھا۔ اُس نے مرے ہوئے عقاب کو اُٹھایا اور واپس خیمہ بستی میں آ گیا۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ چنگیز خان نے اپنے عقاب کی شبیہہ کے مطابق سونے کا عقاب بنوایا۔ آج بھی مجسموں، تصویروں، تحریروں اور شاعری میں اُس عقاب کا ذکر ملتا ہے۔
چنگیز خان نے سونے کے عقاب کے ایک پَر پہ لکھوایا:
"اگر تمہارا دوست کوئی ایسا کام کر دے جو تمہیں پسند نہ ہو، وہ پھر بھی تمہارا دوست رہے گا۔"
دوسرے پَر پہ لکھوایا:
"جو بھی کام غصہ کی حالت میں کیا جائے، وہ کام تمہارے لیے باعثِ پشیمانی اور بے ثمر ہو گا۔"
•••
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...