آٹھ سو سال سے وقت کی دھند میں گم ایک معمہ!
چنگیز خان کا مقبرہ
چنگیز خان نے اپنی قبر گمنام و بے نشان رکھنے کی وصیت کیوں کی تھی؟
آٹھ سو سال سے وقت کی دھند میں گم ایک معمہ!
صدیوں سے مہم جو افراد کے لئے ایک پراسرار راز جس سے اب تک کوئ پردہ نہ اٹھایا جا سکا تھا!
نیشنل جیوگرافک، ڈسکوری اور دیگر بے شمار اداروں نے اپنے کئ مشن اس مقبرے کی کھوج میں بھیجے!
بالآخر چینی مہم جو اس مقبرے کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے!
صدیوں تک دریا کے ساحل کے نیچے دبا رہنے والا مقبرہ بالآخر ایک سڑک کی تعمیر کے دوران کھدائ میں دریافت ہوگیا!
کچھ عرصہ پہلے میں ایک بلاگ کا جائزہ لے رہا تھا جس میں دنیا کے عجائبات و پراسرار مقامات کے بارے مختلف تاریخ دانوں اور جیولوجسٹس کے کمنٹس اور ریسرچز کے بارے میں تفصیل سے لکھا تھا۔ ایک فرنچ جیو لوجسٹ نے لکھا تھا کہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ چنگیز خان کا مقبرہ دریافت کرسکے کہ آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود اب تک چنگیز خان کی قبر دریافت نہیں ہوسکے۔ نہ جانے منگولوں نے اپنے اس عظیم حکمران کو کیسے اور کہاں اتنی رازداری سے دفن کیا کہ ہنوز بے شمار لوگ اس کی تلاش میں نکلے، بڑے بڑے دعوے کئے گئے، بے شمار تاریخ دان اور جیولوجسٹس نے اس پر تحقیق کی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔ چنگیز خان کے مقبرے کا یہ اسرار اہرام مصر کی پراسراریت سے بھی زیادہ بڑھ گیا۔ حال ہی میں چین کے کچھ تحقیقی اداروں نے چنگیز خان کے مقبرے کو دریافت کرنے کا دعوی کیا ہے۔
چنگیز خان ( چار کروڑ افراد کا قاتل(
چنگیز خان دنیا کے لئے ایک ظالم حکمران تھا جس نے تلوار کے زور پر دنیا فتح کرنے کی کوشش میں بے شمار انسانوں کے خون کی ندیاں بہا دیں ۔ ان کی فوجیں جس علاقے سے گزرتی تھیں اپنے پیچھے بربادی کی داستان چھوڑ جاتی تھیں۔ اندازہ ہے کہ چنگیز خان کی فوج نے چار کروڑ افراد کو قتل کیا تھا۔ کہنے کو تو وہ منگول حکمران تھے، لیکن انھوں نے اپنی تلوار کے زور پر ایشیا کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاریخ میں اتنے بڑے حصے پر آج تک کسی نے قبضہ نہیں کیا۔چنگیز خان نے سنٹرل ایشیا میں قائم خوارزم شاہی اسلامی سلطنت کو تہہ تیغ کرکے رکھ دیا تھا اور اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس کے پوتے ہلاکو خان نے مسلم عظمت کے شاہکار بغداد کو راکھ کا ڈھیر بنا کررکھ دیا تھا۔
منگولیا سے اٹھنے والی آندھی بلاشبہ اسلام کے مشرق وسطیٰ اور سنٹرل ایشیا میں زوال کا سبب بنی اور اس کا سہرا منگول سلطنت کے روح رواں چنگیز خان کے سر جاتا ہے جس کی دہشت سے ایشیا ، افریقہ اور یورپ لرزہ براندام تھے لیکن منگولیائ لوگوں کے نزدیک چنگیز خان ایک عظیم ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے۔ منگولیائی لوگ بڑے قدامت پسند خیالات کے حامل رہے ہیں۔ وہ اپنے بزرگوں کے گزر جانے کے بعد بھی اسی طرح احترام کرتے ہیں جیسے ان کی زندگی میں کرتے تھے۔ آج بھی جو لوگ خود کو چنگیز خان کی نسل کا مانتے ہیں وہ اپنے گھروں میں چنگیز خان کی تصویر رکھتے ہیں۔ منگولیائی لوگوں کے لیے وہ عظیم ہیرو ہیں جس نے منگولیا کو مشرقی اور مغربی ممالک سے مربوط کیا، شاہراہِ ریشم کو پنپنے کا موقع دیا۔ انھی نے منگولیا کے لوگوں کو مذہبی آزادی کا احساس کروایا۔ اسی کے دور حکومت میں منگولیائی لوگوں نے کاغذ کی کرنسی کا آغاز کیا اور ڈاک سروسز کی بھی ابتدا ہوئی۔ چنگیز خان نے منگولیا کو مہذب معاشرہ بنانے میں مدد کی۔
چنگیز خان کی عجیب وصیت:
دنیا میں جتنے بھی بڑے بادشاہ، سلطان، مہاراجے اور حکمران گزرے ہیں وہ اپنے بعد اپنے عظیم الشان مقبرے چھوڑ گئے تاک ان کی یاد اس دنیا سے نہ مٹائ جا سکے لیکن چنگیز خان جیسا ایک شہرہ آفاق حکمران جس کا نام دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے اور جس کے بغیر دنیا کی تاریخ ادھوری ہے نے مرنے سے پہلے عجیب وصیت کی کہ اس کو کسی ایسی گمنام جگہ دفنایا جائے کہ ان کی قبر کا کوئ نام نشان بھی باقی نہ رہے۔ وصیت کے مطابق ایسا ہی کیا گیا۔ فوجیوں نے انھیں دفنانے کے بعد اس کی قبر پر تقریبا ایک ہزار گھوڑوں کو دوڑا کر زمین کو اس طرح سے برابر کر دیا کہ قبر کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔ یوں چنگیز خان کا مقبرہ دنیا کے لئے ایک معمہ بن گیا ۔ کچھ لوگ تو اس کو اہرام مصر سے بھی بڑے معمے کا درجہ دیتے ہیں۔ چنگیز خان کی موت کو آٹھ صدیاں گزرنے کے باوجود یہ معمہ حل نہ ہوسکا۔ ان آٹھ صدیوں میں اس مقبرے کی کھوج میں بے شمار مہم جو نکلے، کئی مشن چلائے گئے، لیکن ان کی قبر کا سراغ نہ مل سکا۔
ویلی آف خان:
نیشنل جيوگرافک نے تو سیٹلائٹ کے ذریعے اس قبر تلاش کرنے کی مہم شروع کی تھی جس کا نام 'ویلی آف خان پراجیکٹ' تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چنگیز خان کی قبر تلاش کرنے میں غیر ملکی لوگوں کی ہی دلچسپی تھی۔ منگولیا کے لوگ چنگیز خان کی قبر کا پتہ لگانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کی بڑی وجہ ایک خوف بھی ہے۔ ۔ کہا جاتا رہا ہے کہ اگر چنگیز خان کی قبر کو کھودا گیا تو دنیا تباہ ہو جائے گی۔ لوگ اس تباہی کی مثال دیکھ بھی چکے ہیں۔ اس وجہ سے بھی ان کے دلوں میں وہم نے اپنی جگہ پختہ کر رکھی ہے۔کہا جاتا ہے کہ 1941 میں جب سوویت یونین میں 14ویں صدی کے ترک
منگول حکمران تیمور لنگ کی قبر کو کھودا گیا تو نازی فوجیوں نے سوویت یونین کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ ۔ جو لوگ چنگیز خان کی قبر تلاش کرنے کے خواہشمند تھے ان کے لیے یہ کام آسان نہیں تھا۔ چنگیز خان کی تصویر یا تو پرانے سکّوں پر پائی جاتی ہے یا پھر ایک شراب کی بوتلوں پر۔ باقی اور کوئی ایسا نشان نہیں ہے جس سے ان کو مدد ملی ہو۔
رقبے کے لحاظ سے منگولیا اتنا بڑا ہے کہ اس میں برطانیہ جیسے سات ملک آ جائیں گے۔ اتنے بڑے ملک میں ایک نامعلوم قبر کو تلاش کرنا سمندر میں سے ایک خاص مچھلی کو تللاش کرنے کے مترادف ہے۔ منگولیا ایک پسماندہ ملک ہے جہاں کئی علاقوں میں پکی سڑکیں تک نہیں ہیں۔ آبادی بھی بہت کم ہی ہے۔
گروان گول:
90 کے عشرے میں جاپان اور منگولیا نے مشترکہ طور پر چنگیز خان کی قبر تلاش کرنے کے لیے ایک مشترکہ پراجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا تھا جس کا نام تھا 'گروان گول'۔ اس پروجیکٹ کے تحت چنگیز خان کی پیدائش کی جگہ مانے جانے والے شہر كھینتی میں تحقیق کا کام شروع ہوا۔ لیکن اسی دوران منگولیا میں جمہوری انقلاب آ گيا جس کے بعد کمیونسٹ حکومت ختم ہو گئی اور جمہوری نظام قائم ہو گیا۔ نئی حکومت میں 'گروان گول' پراجیکٹ کو بھی رکوا دیا گیا۔
منگولیا کی الان بٹور یونیورسٹی کے ڈاکٹر ديماجاؤ ایردی نبٹار 2001 سے جنگنو بادشاہوں کی قبر کی کھدائی کر کے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنگجو بادشاہ منگولوں کے ہی پرکھے تھے۔ خود چنگیز خان نے بھی اس بات کا ذکر کیا تھا۔ لہٰذا ان بادشاہوں کی قبرگاہوں کے اندازے اس بات کا پتہ چلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ چنگیز خان کا مقبرہ بھی انھی مقبروں جیسا ہی ہو گا۔
جنگنو بادشاہوں کی مقبرے زمین سے تقریباً 20 میٹر گہرائی میں ایک بڑے كمرے کی شکل میں ہوتی ہیں جس میں بہت سی قیمتی اشیا بھی رکھی جاتی تھیں۔ اس میں چینی رتھ، قیمتی جواہر اور روم سے حاصل کی گئی شیشے کی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ چنگیز خان کی قبر بھی ایسی ہی قیمتی چیزوں سے لبریز ہو گی جو اس نے اپنے دور اقتدار میں جمع کی ہوں گی۔
مقدس کھینتی پہاڑ:
منگولیا میں مقبول قصوں کے مطابق چنگیز خان کو 'كھینتی' پہاڑیوں میں برخان خالدون نام کی چوٹی پر دفنایا گیا تھا۔ مقامی قصوں کے مطابق اپنے دشمنوں سے بچنے کے لیے چنگیز خان یہاں چھپے ہوں گے اور مرنے کے بعد اانھیں وہیں دفنایا گیا ہو گا۔ البتہ بہت سے ماہرین اس بات سے متفق نہیں ہیں۔
الان بٹور یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد والے سوڈنم سولمان کہتے ہیں کہ منگولیائی لوگ ان پہاڑیوں کو مقدس مانتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چنگیز خان کو یہاں دفنایا گیا ہو گا۔ ان پہاڑیوں پر شاہی خاندان کے سوا کسی اور شخص کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس علاقے کو منگولیا کی حکومت کی طرف سے محفوظ رکھا گیا ہے۔ یونیسکو نے بھی اسے عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دے رکھا ہے۔ لیکن کسی بھی تحقیق سے آج تک یہ نہیں ثابت ہوا کہ واقعی چنگیز خان کی قبر یہیں ہے۔
چنگیز خان کے مقبرے کی دریافت:
چین کے تاریخ دان اور دیگر تحقیقی ادارے مستقل چنگیز خان کے مقبرے کی کھوج میں لگے تھے اور بالآخر انہوں نے دعوی کیا ہے کہ وہ چنگیز خان کا مقبرہ دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
2016
ء کی دریافت
بیجنگ یونی ورسٹی کی ماہرین آثارقدیمہ کے مطابق دریائے آنون کے نزدیک مزدوروں کو سڑک کی تعمیر کے دوران متعدد ڈھانچے ملے، جن سے اس عہد ساز دریافت کا آغاز ہوا۔دریائے اونون
(Onon River) )
منگولیا اور روس میں ایک دریا ہے۔ اس کی لمبائی 818 کلومیٹر اور پن دھارا 94،010 مربع کلومیٹر ہے۔
مقبرے سے کل 68 ڈھانچے ملے ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہےہے کہ یہ مقبرے کی تعمیر کرنے والے مزدوروں کے ہیں جنہیں اس مقام کو خفیہ رکھنے کے لیے زندہ دفن کردیا گیا ہوگا۔
تمام قبریں پتھر کی دیواروں سے ڈھکی ہوئ تھیں
مقبرے سے سونے کے سکوں اور چاندی کی اشیا کے اک ڈھیر کے ساتھ ایک طویل القامت مرد کا ڈھانچہ ملا ہے جس کےبارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ چنگیز خان کا ہے۔
مقبرے سے 12 گھوڑوں کی باقیات جبکہ 16 عورتوں کے ڈھانچے بھی ملے ہیں جن کے بارے میں یقین کیا جارہا کہ
یہ خان کی بیویوں اور کنیزوں کے ڈھانچے ہیں جنہیں قتل کر کے خان کے ساتھ ہی دفن کردیا گیا۔ ان ڈھانچوں کے چاروں طرف طلائ سکے اور مہریں و دیگر بیش قیمت اشیا بکھری ہوئ تھیں انہیں منگولوں کے اس عظیم رہنما کی حیات بعد از موت میں آسانیاں فراہم کرنے کے لئے اس کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ نے کئی قسم کے ٹیسٹ اور تجزیے کرنے کے بات اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مقبرے سے برآمد ہونے والے طویل القامت شخص کی عمر 60 سے 75 سال کے درمیان تھی، اس کا انتقال1215 سے 1235 کے درمیان ہوا تھا اور وہ چنگیز خان ہے۔
مقبرہ سینکڑوں سال تک دریا کے ساحل کے نیچے رہا تھا یہاں تک کہ دریائے آنون نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور مقبرے کی جگہ پانی سے باہرآگئی۔ سینکڑوں سال تک زیر آب رہنے والے اس مقبرے کی حالت انتہائی خستہ ہے۔
کئ سلطنتوں کو عبرت کا نشان بنانے والا، لاکھوں انسانوں کو ڈھانچوں اور کھوپڑیوں میں تبدیل کرنے والا آج خود ایک خستہ حال ڈھانچے کی شکل میں دنیا کے سامنے عبرت نشان ہے۔
کہ بے شک اصل حکمران اور باقی رہنے والی ذات تو اس ایک وحدہ لاشریک سب سے زبردست اور عظیم الشان کرسی والے رب ذوالجلال کی
جس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
)اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب، ویب سائٹس اور وکی پیڈیا و انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا سے مدد لی گئ)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔