ڈی این اے ایک میکرمولیکول ہے جو چھوٹے چھوٹے مولیکیولز، نیوکلئیوٹائیڈز، سے مل کر بنتا ہے۔ ڈی این اے جاندار کی وراثتی معلومات کا ذخیرہ ہے۔ ایک بیکٹیریم اور ایک انسان کے ڈی این اے کو بنانے والے نیوکلئیوئیڈز میں کوئی فرق نہیں۔ ایک جیسے نیوکلئیوٹائیڈز دونوں کا ڈی این اے بناتے ہیں۔
ڈی این اے ہی پروٹینز کے ساتھ مل کر کروموسوم بناتا ہے۔ انسان اور بیکٹریا دونوں کے ڈی این اے میں نیوکلئیوٹائیڈز کی تعداد، ان کی ترتیب اور کروموسوم کی ساخت کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے۔ دنیا کا ہر جاندار اپنی وراثتی معلومات کو محفوظ کرنے کے لیے ایک جیسے نیوکلئیوٹائیڈز کا استعمال کرتا ہے۔ جانداروں کی یہ خصوصیت اس بات کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ جاندار وں کا ارتقاء مشترکہ آباؤ اجداد سے ہوا ہے۔
نا صرف جانداروں کے ڈی این اے کو بنانے والے نیوکلئیوٹائیڈز ایک جیسے ہیں بلکہ تمام جانداروں میں ان کی جینز کا پروٹین بنانے کا انداز بھی ایک جیسا ہے۔ جین ڈی این اے کا ایک مخصوص حصہ ہے جو جاندار کی ایک مخصوص خصوصیت کو کنڑول کرتا ہے۔ ہم ایک جاندار کےڈی این اے کے ایک حصے کو کٹ کر کے دوسرے جاندار کے ڈی این اے میں پیسٹ کر سکتے ہیں۔ پیسٹ کیا ہوا یہ حصہ دوسرے جاندار میں وہی کام کرے گا جو پہلے میں کرتا تھا۔
مثال کے طور پرانسان کے ڈی این اے میں سے انسولین پیدا کرنے والی جین کو اگر ای کولائی نام کے بیکٹریا میں داخل کر دیا جائے تو بیکٹریا بھی ہی انسولین ہی پیدا کرے گا۔ یہ کام عملی طور پر دنیا میں روزانہ کیا جاتا ہے۔
ای کولائی کا انتخاب اس لیے کہ یہ بیکٹیریا مناسب ماحول میں بیس منٹ میں ایک سے دو میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ بیس منٹ میں تقسیم ہونے کا مطلب ہے کہ ایک دن میں 72 نسلیں پیدا ہونگی۔ اور یہ سب ایولوشن تھرو کومن اینسیسٹری کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ اگر کومن اینسیسٹری والی بات درست نا ہوتی تو ایک جاندار کا ڈی این اے دوسرے جاندار میں ہوبہو کام کرنے کے قابل نا ہوتا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...