کہاوت ہے کہ دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ کہاوت دنیا والوں کے لیے سمجھ میں آتی ہے لیکن قریبی رشتوں کو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ وہ لوگ جو آپ کے قریبی ہیں اگر وہ آپ کو گفٹ دے کر یا مالی طور پر سہارا دے کر نفسیاتی طور پر ٹارچر کرنے کا اختیار خرید لیں تو پھر انہیں آپ سخی نرگسیت پسند کہتے ہیں۔
ایک دوست اپنی بہن کے سسرال کی روداد سناتے ہوئے کہتی ہیں کہ انکی بہن کی ساس مالی طور پر آزاد اور اچھے عہدے پر فائز خاتون ہیں، محترمہ کوسب کو گفٹ دینا اور انکا خیال رکھنا پسند ہے لیکن انکی بہن خوش نہیں اور کہتی ہیں کہ ساس صاحبہ بہت کنٹرول کرتی ہیں اور ٹاکسک (toxic) ہیں۔ لیکن چونکہ گفٹ اور پیسوں میں بہت طاقت ہوتی ہے اور ہمارے سخی نرگسیت پسند اس بات سے بخوبی واقف ہیں تبھی بہن کی باتوں پر اور اس پر ہونے والے نفسیاتی ظلم پر کوئی یقین نہیں کرتا، نفسیاتی درد کا مسئلہ یہی ہے کہ دکھتا نہیں تو اس پر یقین کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، اور نرگسیت پسند جس لطافت سے آپ کو ابیوز کرتے ہیں ان گھتیوں کو سلجھانے میں ہی تھراپسٹ کے چکر کاٹتے آپ کی آدھی زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ نرگسیت پسند اور خاص کر سخی اپنا بہترین امیج بنانے میں بہت ماہر افراد ہوتے ہیں۔
چونکہ آج کل حالات ایسے ہیں کہ لوگوں کے زیادہ تر مسائل پیسوں سے جڑے ہیں، ایسے میں اگر والد/والدہ، بھائی/بہن، چاچو/ماموں جو بھی آپ کو مالی طور پر سپورٹ کررہے ہیں تعلیم کے لیے اور اگر وہ نرگسیت پسند ہیں تو پھر یاد رکھیے کہ گفٹ اور مالی امداد کے ساتھ ملنے والا روز کا نفسیاتی ٹارچر آپ کے ساتھ ہورہے ابیوز کی بھرپائی نہیں کر پائے گا۔ اگر خود ذمہ داری لے سکتے ہیں تو ایسے افراد سے گفٹ یا مالی مدد لینے سے گرہیز کریں اور تکالیف برداشت کرکے ذمہ داری خود اٹھائیں کیونکہ یہ لوگ آپ کو گفٹ اور مالی مدد کے ذریعے خرید لیتے ہیں۔ اور اس بات کی ضمانت میں آپ کو دیتی ہوں کہ مشکلات سے ملنے والی تکالیف کو آپ پھر بھی سر کرلیں گے، انہیں سر کرنے کے بعد آپ کی دماغی نشونما بھی ہوگی لیکن جو ابیوز آپ کو ان سخی نرگسیت پسند کے ہاتھوں سہنا پڑے گا وہ زیادہ اذیت ناک ہے۔
جو نرگسیت پسند والدین اپنے بچوں کوتعلیم یا ضروریاتِ زندگی یا پھر لگژری دیتے ہیں، ایسے بچوں کو عموماً ارد گرد والے یا دوست کہتے ہیں کہ ‘یار تمہارے تو مزے ہیں’، البتہ والدین پل پل بچے کو محسوس کرواتے ہیں کہ اسے انکا احسان مند رہنا چاہیے کیونکہ ان کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں، اکثر ایسے والدین جان بوجھ کر اپنے بچوں کو کنٹرول کرنے اور خود پر منحصر رکھنے کے لیے ہر چیز تیار شدہ دیتے ہیں تاکہ بچہ ایسے گرُ نہ سیکھے اور مستقبل میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوسکے اور والدین کے کنٹرول میں رہے (خاص کر نرگسیت پسند والدہ ایسا کرتی ہیں)۔ ایسے بچوں میں احساسِ شرمندگی بہت زیادہ ہوتا ہے، انہیں اپنا آپ بوجھ لگتا ہے، انہیں سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیسے سب کو سمجھائیں کہ ابا/اماں کے مالی سپورٹ اور ان لگژری چیزوں کے بوجھ تلے وہ گھٹ رہے ہیں۔
یقیناً بچوں کو اگر والدین کبھی کبھار ضرورت پڑنے پر اپنی جدوجہد کے متعلق بتاتے ہیں تو اس میں کچھ غلط نہیں، کیونکہ اس سے بچوں کو سیکھ ملتی ہے انہیں رول ماڈل ملتا ہے۔ البتہ نرگسیت پسند والدین اس نیت سے یہ سب نہیں کرتے، اور بچہ روز اس لطیف اور الجھن کا شکار کردینے والے ابیوز کو سہنے کے بعد الجھن، شرمندگی، اور خود کو دوسروں پر بوجھ سمجھنے والے احساسات سے جھونجھتا رہتا ہے۔ بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اسے سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیوں جمود کا شکار ہے یا پھر عام اور معمولی سے کام کیوں اس سے نہیں ہوتے، یہ رویے احساسات نرگسیت پسند والدین کی دین ہوتے ہیں (اگر والدین نرگسیت پسند ہیں تو، البتہ کچھ لوگوں کی شخصیت میں بھی محنت اور ذمہ داری لینے کا عنصر شامل نہیں ہوتا)
اگر آپ سخی نرگسیت پسند کے ساتھ رہنے اور اسکا ابیوز سہنے پر مجبور ہیں تو دماغی اور نفسیاتی طور پر خود کو سمجھائیں اور ان کے ڈھکے چھپے تذلیل سے بھرپور رویے کو اپنی ذات پر نہ لیں، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ نرگسیت پسندوں کو لوگوں کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، وہ کبھی نہیں بدلتے۔ ان کے ہر گفٹ، ہر مالی امداد اور ہر وقتی سپورٹ کے پسِ پست پوشیدہ مقاصد ہوتے ہیں، یا پھر دکھاوا اور سخی و عظیم انسان دکھنے کی شبیہ بنانا اور پھر آپ کو ٹارچر کرنے کا حق خرید لینا۔ البتہ دماغ میں جتنی بھی دیواریں لگا لیں نرگسیت پسند کے ابیوز سے متاثر نہ ہوپانا ممکن نہیں، اس لیے اپنی شفایابی پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...