جنرل ضیا الحق کو پاکستان کی ہر جدید برائی کا خالق قرار دیا جاتا ہے۔ہمارےاستاد کے بقول وہ اس بات سے مکمل انکار کرتے ہیں۔مگر قاضی(حسین احمد) اورقادری (طاھر القادری) صاحبان کو دیکھ کر اس سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔جنرل ضیاکا قصور یہی ہے کہ انہوں نے پاکستان جمہوریت کے شجر کو کاٹ ڈالا۔
جنرل ضیا یکم مارچ 1976 کو آرمی چیف بنے۔انکے ساتھ جنرل اختر لیفٹنٹ جنرل بنے۔جنرل اختر کو میجر جنرل تجمل حسین پر ترجیح دی گئ تھی۔جسکا تجمل حسین کو افسوس ہوا۔تجمل حسین 1971 کی جنگ کےواحد افسر تھے جنہوں نےہتھیار نہیں ڈالےتھے۔ورنہ سیالکوٹ،شکرگڑھ پر تعینات سب جنرلوں نے ہتھیار ڈالے۔
جنرل تجمل نے اس پر احتجاج کرنے کافیصلہ کیا۔انکا کہنا تھا اگر انکو حق نہ ملے تو وہ چھین لیں گے۔25مارچ1976 کو انہوں نے بھٹو صاحب کے سامنے احتجاج کرنے کافیصلہ کیا۔انہوں نے اس سلسلے میں ایک خط تحریر کیا۔جس میں انہوں نےفوج کو نجی ملیشیا بنانے سے منع کیا۔فوج کو میرٹ پر چلانے کا کہا۔
جنرل تجمل نےاپنےکرنل سٹاف کو رازدار بنایا۔جس نے یہ بات اعلی عہدیداروں تک پہنچائی۔تجمل کو جنرل ضیا نے طلب کیا۔کورٹ مارشل کر کے جبری طور پر فوج سے نکال دیا۔جنرل صاحب اسلامی خیالات رکھنے والے انسان تھے۔پہلے جماعت اسلامی میں شمولیت کی کوشش کی۔ناکام ہوئے تو تحریک استقلال کا حصہ بنے۔
5جولائی1977 کو جنرل ضیا نے مارشل لا لگایا۔جمہوری قیادت کو نظربند کیا۔90 دنوں میں الیکشن کروانےکاوعدہ کیا۔مگر بعدمیں بھٹوصاحب کو پھانسی دیدی گئ۔90دن کا وعدہ ہواہوگیا۔اس دوران بحالئ جمہوریت کی تحریک چلی۔جس میں سندھ کا کردار نمایاں رہا۔سندھ میں فوجی آپریشن کیاگیا۔یہ ایک کارنامہ ہے۔
1980میں جنرل تجمل نے اپنے بیٹے نوید اور دیگر جونئیر افسران کو ساتھ ملاکر ضیا کے قتل کی سازش تیار کی۔منصوبہ یہ تھا ضیا کو23مارچ کی پریڈ میں گولی مار کر قتل کرنا تھا۔وہی منصوبہ جو انور سادات کے قتل کا تھا۔ضیا کے سکیورٹی انچارج جنرل مجیب نےسازش کاسراغ لگالیا۔سب ملزمان پکڑے گئے۔
17اگست 1988 کو3:51بجے جنرل ضیا،امریکی سفیر رافیل اور آٹھ پاکستانی جنرلوں کے ساتھ جہاز حادثے میں جان بحق پاگئے۔حادثے میں مجموعی طور پر 31 افراد جان بحق ہوئے۔برئگیڈیر یوسف اور فوج کےدیگر زرائع کےمطابق یہ سبوتاژ کی کاروائی تھی۔یعنی ایک ضرب میں پاکستان کی اعلی عسکری قیادت کا خاتمہ۔
بہاولپور حادثے کی تفتیش کیلئے جسٹس شفیق الرحمان کی سربراھی میں کمیشن بنا۔جس کی معاونت کیلئے چھ رکنی امریکی تحقیقاتی ٹیم 19اگست 1988 کو پاکستان آئی۔کمیشن میں دیگر افراد بھی شامل تھے۔16اکتوبر1988 کو کمیشن نے اپنی انکوائری رپورٹ صدر اسحاق کو پیش کی۔یہ رپورٹ 365 صفحات پر مشتمل تھی۔۔
رپورٹ میں تین شکوک کا اظہارکیاگیا۔اؤل۔۔جنرل ضیا کا قتل احمدیوں نےکیا ہے۔دوم۔۔قتل اہل تشیع نےکیا اور آخری جنرل ضیا کا قتل امریکہ یا دیگر غیر ملکی قوتوں نے کیا۔ایک بات پر اتفاق کیا گیا کہ کاروائی کیلئے فوج کے اندر ہی کسی آدمی کو استعمال کیا گیا۔یہاں سے نئ تحقیقات شروع ہوئیں۔
16اکتوبر1988کو ایئرفورس کے تین اعلی افسران پر مشتمل کمیٹی بنائی گئ۔جس نے جہاز حادثے کی تمام فنی اور تکنیکی تحقیقات کرنی تھیں۔کمیٹی میں ایئرکماڈور عباس مرزا۔۔گروپ کیپٹن ظہیر الحسن زیدی اورگروپ کیپٹن صباحت علی خان شامل تھے۔کمیٹی نےچند ماہ کی تحقیقات کےبعد30صفحات کی رپورٹ پیش کی۔
پاک فضائیہ کی رپورٹ کے مطابق جنرل ضیا کو طیارے کو نہ کوئی فنی خرابی تھی۔نہ کسی نے اسکو میزائل سے گرایا۔کیونکہ جہاز پرایسے کسی نشان کی موجودگی کا پتہ نہیں چلا۔جہاز کے ملبےکیمائی معائنہ پاکسان انسٹیوٹ آف نیوکلئیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سےکروایا گیا۔جہاں سےتحقیقات نےنیارخ اختیار کیا۔
کیمائی تحقیق کے مطابق جہاز کے اندر پینٹاایری تھری ٹول ٹیٹرا نائٹریٹ یعنی PETN کی موجودگی کا پتہ چلا۔یہ ایک کیمائی مواد ہے۔جودھماکہ خیز ہتھیاروں میں استعمال ہوتاہے۔یہ مواد صرف چند اعلی لیبارٹریز میں ہی پایا جاتا ہے۔عام طور پر اسکا ملنا ناممکن ہے۔یہی بات محمد حنیف نے بھی لکھی ہے۔
آئی۔ایس۔آئی کو دوران تفتیش معلوم ہوا کہ جنرل ضیا کے طیارے کے کو پائلٹ سجاد حسین کا تعلق گلگت سے تھا۔یاد رھے ضیا دور کے آخری دنوں میں گلگت میں شیعہ حقوق تحفظ کی تحریک چلی۔جس کو کچلنے کیلئے برئگیڈیر پرویز مشرف کو بھیجاگیا۔تحریک کو کچل دیا گیا۔مگر ضیا کی موت بھی لکھ دی گئ تھی۔۔
5جولائی1987 کو شیعہ عالم عارف حسینی کو شھید کیاگیا۔کوھاٹ اورگلگت میں اہل تشیع قتل۔سب عناصر نے سجاد حسین کو بدلا لینے پر مائل کیا۔کہا جاتا ہے سجاد حسین کو اسوقت کام کیلئے تیس لاکھ روپے ادا کئے گئے۔سجاد نے جاتے وقت اپنی ماں سے صرف یہ کہا کہ بڑے مشن پر جارہا ہے۔یہ ایک بڑی قیمت تھی۔۔
1989 کے آغاز میں آئی۔ایس۔آئی نے پائلٹ آفیسر اکرم اعوان کو گرفتار کیا۔ادارے کے بقول آفسر را اور موساد کیلئے جاسوسی کرتا تھا۔آفسر سے دوران تفتیش معلوم ہوا کہ ضیا کےطیارے کے اندر کیمائی مواد ونگ کمانڈر مشہود حسین نے داخل کیا تھا۔یہ باھر سے آیا تھا۔مشہود ضیا کے طیارے کے پائلٹ تھے۔
26اگست2008 کو بھارتی اخبار۔۔ٹائمز آف انڈیا۔۔نے خبر دی کہ ضیا طیارے کے حادثے میں مرکزی کردار ونگ کمانڈر مشہود حسین کا تھا۔یادرھے مشہود ڈاکٹر قدیر نیٹ ورک کے اہم آدمی تھے۔پاکستان اور چین کے درمیان ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی کیلئے سو کے قریب پروازیں ہوئیں۔سب کے پائلٹ مشہود حسین تھے۔
1990 میں جب نواز حکومت آئی تو تمام تحقیقات کو عام کرنے کافیصلہ کیا۔جنرل اسلم بیگ نے مخالفت کی۔انہوں نے مناسب وقت کاانتظارکرنے کا کہا۔جس سےشبھات نےجنم لیا۔اعجاز الحق نے انکو سانحے میں ملوث قرار دیا۔مسزاختر کے بقول انکے خاوند جنرل اختر کو امتیاز بلا نے طیارے میں سوار کروایا۔
1993میں تکبیر کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں اعجاز الحق نے اسلم بیگ پر اس سازش کا الزام عائد کیا۔ان کا کہنا تھا کہ انکے والد کو میجر جنرل اعباز درانی نے اس میٹنگ میں جانے کیلئے آمادہ کیا۔ورنہ ایسی کاروائی کبھی کسی آرمی چیف نے نہیں دیکھی۔نہ کبھی دورہ کیا۔یہ رپورٹ جاری نہ ہوسکی۔
اس واقعےسےجڑا ایک واقعہ اور بھی ہے۔عارف حسینی قتل کا الزام آئی۔ایس۔آئی کے آفسر اور ضیا کی سکیورٹی ٹیم کے رکن کیپٹن ماجد رضا گیلانی پر عائد ہوا۔پہلےانہوں نےاسکا اقرار کیا۔بعدمیں بیان سے منکر ہوگئے۔مقدمے کا فیصلہ 2006-7میں ہوا۔ماجد رہا ہوگئے۔گھر واپسی کےبعد پھر لاپتہ۔۔حقیقت کیا ہے؟
جنرل ضیا کی موت کے بعد مظلوموں کو قید سے رہائی ملی۔سیاسی قیدیوں کو سہولت ملی۔جنرل تجمل اور انکے بیٹے بھی انہی میں شامل تھے۔جنرل تجمل نے 1988 کےانتخاب میں اپنی پارٹی۔۔اسلامی انقلابی جماعت۔۔کےٹکٹ پرالیکشن لڑا۔کامیاب نہ ہوئے۔مگرلازوال ہوئے۔نوسال کی سخت قیدنے انہیں حوصلہ مندبنایا۔