۱۹۷۱ کی تاریک راتوں کی تہلکہ خیز داستاں جنرل رانی
اقلیم اختر، جو کہ بعد ازاں جنرل رانی کے نام سے مشہور ہوئیں، پاکستان کے صدر جنرل یحیی خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتی تھیں۔ ان کے قریبی تعلقات کی بناء پر وہ جنرل یحیی کو “آغا جانی“ کے نام سے پکارتی تھیں اور ان تعلقات کی بنیاد پر وہ نہایت مقبول اور انتہائی اختیارات کی حامل شمار ہوتی تھیں۔ اسی طاقت اور اختیار کی وجہ سے انھیں جنرل رانی کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل یحیی کے دور میں جنرل کے بعد اکلیم اختر پاکستان کی سب سے بااختیار شخصیت ہوا کرتی تھیں۔ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا، مگر پھر بھی انھیں سرکاری پروٹوکول دیا جاتا تھا۔
پاکستان کے مشہور پاپ گلوکار، فخر عالم اور عدنان سمیع، جنرل رانی کے نواسے ہیں۔ جنرل رانی کی بیٹی عروسہ عالم جو کہ فخر عالم کی والدہ ہیں نے کچھ عرصہ قبل بھارت کے ایک سیاستدان امریندر سنگھ سے مبینہ طور پر شادی کر لی۔ گو اس کی تصدیق اس وجہ سے بھی نہیں ہو سکی کہ بھارت میں غیر مسلم کے لیے ایک سے زائد شادی غیر قانونی ہے۔
عدنان سمیع خان کے خاندان کا اصل تعلق افغانستان سے ہے۔انکے دادا محفوظ خان کابل، ہرات، جلال آباد اور بلخ کے گورنر تھے۔بچہ سقہ کے دور میں برا وقت شروع ہوا تو انہیں افغانستان چھوڑنا پڑا۔عدنان کے والد ارشد سمیع خان پاکستان ایئرفورس میں اسکوارڈن لیڈر تھے اور 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں ستارہ جرات بھی حاصل کیا۔ارشد سمیع خان 1966ء سے 1972ء کے دوران صدر ایوب خان، صدر یحییٰ خان اور صدر ذوالفقار علی بھٹو کے اے ڈی سی رہے۔ بعد ازاں فارن سروس میں آ گئے۔پھر چھٹی لیکر بیرون ملک چلے گئے۔ کئی سال بعد واپس آکر دوبارہ فارن سروس جوائن کرلی۔ کئی ملکوں میں سفیر بنے۔ چیف آف پروٹوکول بنے ، 1989ء میں کینسر کا شکار ہوئے تو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ان کا سرکاری خرچ پر برطانیہ سے علاج کرایا۔وفاقی سیکرٹری بھی بنے ،عدنان سمیع کو فلموں میں گانے اور کام دلوانے کیلئے سیکرٹری کلچر کے طور پر اپنا اثرورسوخ بھی استعمال کرتے رہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یحییٰ خان کے دور میں جنرل رانی کے نام سے مشہور ہونے والی اقلیم اختر رانی رشتے میں عدنان سمیع خان کی نانی تھی۔ارشد سمیع خان جنرل رانی کی بہن کے داماد تھے۔ جنرل رانی کی ایک بیٹی عروسہ عالم پچھلے کئی سال سے بھارتی پنجاب کے ایک سیاست دان ارمیندر سنگھ کی دوست بن کر بھارت میں مقیم ہیں۔بھارتی میڈیا میں یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ ارمیندر سنگھ نے عروسہ عالم سے شادی کرلی ہے لیکن سابق مہاراجہ پٹیالہ کے بیٹے ارمیندرسنگھ کی بیوی مہارانی پرنیت کور کا کہنا ہے کہ سکھ مذہب کے مطابق ارمیندر سنگھ کی واحد قانونی بیوی ان کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتی۔عروسہ عالم رشتے میں عدنان سمیع خان کی خالہ ہیں۔ بھانجے نے 2001ء اور خالہ نے 2006 میں پاکستان چھوڑا تھا لیکن اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا کیونکہ اس خاندان کے طاقتور اداروں میں گہرے تعلقات تھے۔ عدنان سمیع خان نے فلمی دنیا میں قدم رکھنے کیلئے پہلے زیبا بختیار کو اپنی سیڑھی بنایا اور پھر آشا بھو سلے کو استعمال کیا۔موصوف کے پاکستان چھوڑنے پر مجھے کوئی دکھ ہے نہ اعتراض لیکن میں اہل وطن کو یہ ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ عدنان سمیع خان کے والد ارشد سمیع خان بھی پاکستان چھوڑ کر امریکہ چلے گئے تھے اور ان کا انتقال ممبئی میں ہوا تھا۔ ارشد سمیع خان کی کتاب ”تھری پریذیڈنٹس اینڈ این ایڈ“ بھارت میں شائع ہوئی تھی۔ارشد سمیع خان نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ 1970ء کے انتخابات صاف اور شفاف نہیں تھے۔خان عبدالقیوم خان، صبور خان اور مولانا بھاشانی سمیت کئی سیاست دانوں میں رقوم تقسیم ہوئیں لیکن انتخابات میں عوامی لیگ کو اکثریت ملی تو یحییٰ خان غصے میں آ گئے اور انہوں نے اپنے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل غلام عمر سے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتائج مختلف ہونے چاہئیں لیکن جنرل عمر کچھ نہ کر سکے۔ اس الیکشن میں یحییٰ خان نے راولپنڈی میں سائیکل کے نشان کے سامنے مہر لگائی اور ارشد سمیع خان سے بھی سائیکل پر مہر لگوائی۔ارشد سمیع خان نے یہ بھی لکھا ہے کہ کس طرح وہ ڈھاکہ کے پریذیڈنٹ ہاﺅس میں رات کو تمام روشنیاں بجھا دیتے تھے اور پھر صدر پاکستان کو اپنی گاڑی میں چھپا کر ڈانس پارٹیوں میں لے جاتے جہاں صدر صاحب تمام رات عورتوں کے ساتھ ناچتے رہتے تھے اور علی الصبح ارشد سمیع خان اپنے باس کو واپس پریذیڈنٹ ہاﺅس میں لے آتے.
ارشد سمیع خان نے لکھا ہے کہ جب انہیں حمود الرحمان کمیشن کے سامنے بلایا گیا اور یحییٰ خان سے ملاقاتیں کرنے والی عورتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اسکوارڈن لیڈر صاحب نے لاعلمی ظاہر کر دی۔جسٹس حمود الرحمان نے ان سے پوچھا کہ کیا یحییٰ خان کثرت شراب نوشی کا شکار تھے تو ارشد سمیع خان نے نفی میں جواب دیا۔ ارشد سمیع خان کی اس لاعلمی کے باوجود حمود الرحمان کمیشن نے یحییٰ خان کے بارے میں بہت سے ثبوت اور حقائق حاصل کرکے اپنی رپورٹ میں شامل کر دیئے۔کمیشن کی رپورٹ کے باوجود یحییٰ خان پر کوئی مقدمہ نہ چلا جنرل ضیاءالحق نے انہیں رہا کر دیا اور ارشد سمیع خان پر بھی اپنی عنایات کو جاری رکھا۔ ارشد سمیع خان نے اپنی کتاب میں اپنے ستارہ جرات کا بڑے فخر سے ذکر کیا ہے۔جس ملک کیخلاف جنگ میں یہ ستارہ جرات انہیں ملا ان کے بیٹے عدنان سمیع خان نے اسی ملک کی شہریت حاصل کرکے اور جے ہند کا نعرہ لگا کر اس ستارہ جرات کی نفی کر دی۔
حمودالرحمن کمیشن کے سامنے بریگیڈیئر منور خان نے بیان دیا کہ 1971 میں گیارہ اور بارہ دسمبر کی درمیانی شب، جس رات دشمن کی فوج ہمارے فوجیوں پر آگ کے گولے برسارہی تھی، اسی رات کو کمانڈر بریگیڈیئر حیات اللہ اپنے بنکر میں عیاشی کے لئے چند لڑکیوں کو لے کر آیا تھا۔ کمیشن کو بریگیڈیئر عباس بیگ نے بتایا کہ بریگیڈیئر جہانزیب ارباب (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) جو ملتان میونسپل کمیٹی کے چیئرمین تھے نے ایک پی سی ایس افسر سے رشوت کے طور پر ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ افسر نے خودکشی کر لی تھی اور اپنے پیچھے ایک پرچی پر لکھا چھوڑ گیا کہ بریگیڈٰیر جہانزیب ارباب نے اس سے ایک لاکھ کا مطالبہ کیا حالانکہ اس نے صرف پندرہ ہزار روپے کمائے تھے۔ یہی جہانزیب ارباب تھا جس نے بعد ازاں بطورکمانڈر سابق مشرقی پاکستان میں بریگیڈ57 سراج گنج میں نیشنل بینک کے خزانے سے ساڑھے تیرہ کروڑ روپے لوٹے تھے۔
کمیشن کی تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ میجر جنرل خداداد خان ایڈیٹر جنرل پاکستان آرمی کے نہ صرف مشہورِزمانہ جنرل اقلیم اختر رانی کےساتھ ناجائز تعلقات تھےبلکہ اس نے مارشل لاء کے دوران کئی مقدمات دبانے میں جنرل رانی کی معاونت بھی کی۔ مار شل لا کے دوران ہی کئی کاروباری سودوں میں وسیع پیمانے پر رقم کی خرد برد کے الزامات بھی میجر جنرل خداداد خان پر ہیں۔
جنرل اے کے نیازی کے لاہور کی سعیدہ بخاری کے ساتھ مراسم تھے جس نے سینوریٹا ہوم کے نام سے گلبرگ میں ایک گھر کو کوٹھا بنایا ہوا تھا۔ یہی سعیدہ بخاری اس وقت لاہور میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور بعد میں کورکمانڈر “ٹائیگر نیازی” کی ٹاؤٹ تھی اور غیرقانونی کاموں اور رشوت ستانی میں اس کی مدد کرتی تھی۔ سیالکوٹ کی بدنامِ زمانہ شمیم فردوس بھی نیازی کے لئے اسی خدمت پر مامور تھی۔ فیلڈ انٹیلیجنس کی 604 یونٹ سے میجر سجادالحق نے کمیشن کو بتایا کہ ڈھاکہ کےایک گھر میں میں جرنیلوں کی عیاشی کے لئے بارہا ناچنے گانے والیاں لائی جاتی تھیں۔ ٹائگر نیازی اپنی تین ستاروں اور کور کی جھنڈے والی سٹاف کار پر بھی ناچنے والیوں کے در کے طواف کرتا تھا۔
لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد خان نے کمیشن کو بتایا کہ فوجیوں کا کہنا تھا کہ جب کمانڈر خود بلاتکاری ہو تو وہ فوجیوں کو بلاتکار (جبری زنا) سے کیسے روک سکتا ہے۔ انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے خواتین سے زیادتی و بلاتکار جیسے گھناونے جرم کا دفاع کرتے ہوئی نیازی نے کہا تھا کہ” یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کسی جوان سے یہ توقع کریں کہ وہ جئے ، لڑے اور مرے مشرقی پاکستان میں اور جنسی بھوک مٹانے کے لئے جہلم جائے”۔
یحیٰی خان شراب اور عورتوں کا رسیا تھا۔ اس کے جن عورتوں سے تعلقات تھے ان میں آئی جی پولیس کی بیگم، بیگم شمیم این حسین، بیگم جوناگڑھ، میڈم نور جہاں، اقلیم اختر رانی،کراچی کے تاجر منصور ہیرجی کی بیوی، ایک جونیئر پولیس افسر کی بیوی، نازلی بیگم، میجر جنرل (ر) لطیف خان کی سابقہ بیوی، کراچی کی ایک رکھیل زینب اور اسی کی ہم نام سر خضر حیات ٹوانہ کے سابقہ بیگم، انورہ بیگم، ڈھاکہ سے ایک انڈسٹری کی مالکن،للّی خان اور لیلیٰ مزمل اور اداکاراؤں میں سے شبنم ، شگفتہ ، نغمہ ، ترانہ اور بے شمار دوسروں کے نام شامل تھے۔ ان کے علاوہ لا تعداد آرمی کے افسر اور جرنیل اپنی بیگمات اور دیگر رشتہ دار خواتین کے ہمراہ ایوانِ صدر سدھارتے اور واپسی پر خواتین ان کے ہمراہ نہیں ہوتی تھیں۔
اس رپورٹ میں 500 سے زائد خواتین کے نام شامل ہیں جنہوں نے اس ملک کے سب سے ملعون حاکم کے ساتھ تنہائی میں وقت گزارا اور بدلے میں سرکاری خزانے سے بیش بہا پیسہ اور دیگر مراعات حاصل کیں۔ جنرل نسیم ، حمید ، لطیف ، خداداد ، شاہد ، یعقوب ، ریاض پیرزادہ ، میاں اور کئی دوسروں کی بیویاں باقاعدگی سے یحیٰ کے حرم کی زینت بنتی رہیں۔
یہاں تک کہ جب ڈھاکہ میں حالات ابتر تھے۔ یحیٰ خان لاہور کا دورہ کرنے آتے اور گورنر ہاوس میں قیام کرتے تھے۔ جہاں ان کے قیام کے دوران دن میں کم از کم تین بار ملکہ ترنم و حسن وعشق نور جہاں مختلف قسم کے لباس، بناو سنگھار اور ہیر سٹائل کے ساتھ ان سے ملاقات کرنے تشریف لے جاتی تھیں۔ اور رات کو نور جہاں کی حاضری یقینی ہوتی تھی۔ جنرل رانی نے سابق آئی جی جیل خانہ جات حافظ قاسم کو بتایا کہ اس نے خود جنرل یحیٰ اور ملکہ ترنم نور جہاں کو بستر پر ننگے بیٹھے اور پھر جنرل کو نور جہاں کے جسم پر شراب بہا تے اور چاٹتے دیکھا تھا۔ اور یہ عین اس وقت کی بات ہے جب مشرقی پاکستان جل رہا تھا۔
بیگم شمیم این حسین رات گئے جنرل یحیٰ کو ملنے آتیں اور صبح واپس جاتیں۔ ان کے شوہر کو سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھیجا گیا جبکہ بعد ازاں بیگم شمیم کو آسٹریا کے لئے سفیر مقرر کردیا گیا تھا۔ میاں بیوی کو دونوں سفارت کاری کا کوئی تجربہ تھا نہ ہی امورِخارجہ کے شعبے سےان کا کوئی تعلق تھا۔
بیگم شمیم کے والد ، جسٹس (ر) امین احمد کو ڈائریکٹر نیشنل شپنگ کارپوریشن مقرر کیا گیا تھا اس وقت جب کہ وہ عمر میں ستر برس کے تھے۔ اور اسی زمانے میں نور جہاں ایک موسیقی کے میلے میں شرکت کرنےکے لئے ٹوکیو گئی تھیں تو ان کے ہمراہ ان کے خاندان کے بہت سے افراد سرکاری خرچ پر جاپان گئے تھے۔
یحیٰ خان کی ایک رکھیل نازلی بیگم کو جب پی آئی سی آئی سی (بینک) کے ایم ڈی نے قرضہ نہیں دیا تو اس کو عہدے سے زبردستی بر خاست کر دیا گیا تھا۔ سٹینڈرڈ بینک کے فنڈز سے راولپنڈی کی ہارلے سٹریٹ پر یحیٰ خان نے ایک گھر بنایا جس کی تزئین وآرئش بھی بینک کے پیسے سے کی گئی۔ یحیٰ اور ان کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالحمید خان اس گھر کے احاطے میں فوج کی حفاظت میں طوائفوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔
ایک غیر معمولی انٹرویو میں جنرل رانی نے انکشاف کیا کہ ایک رات آغا جانی مجھ سے ملنے کے لئے آئے تھے اور کسی حد تک بے چین تھے ۔ آتے ہی مجھ سے پوچھا تمہیں فلم دھی رانی کا گانا ‘چیچی دا چھلا‘ آتا ہے۔ میں نےمسکراتے ہوئے جواب دیا میرے پاس گانے سننے کا وقت کہاں ملتا ہے۔ اسی وقت انھوں نے ملٹری سیکرٹری کو فون کیا اور نغمے کی کاپی لانے کا حکم صادر کر دیا۔ رات کے دو بجے کا وقت تھا۔ بازار بند تھے۔ ملٹری سیکرٹری کو ایک گھنٹے کے اندراندر ایک آڈٰیو البم کی دکان کھلوا کر گانے کی کاپی حاضر کرنا پڑی۔ جس کے بعد آغا جانی خوشی خوشی نغمہ سن رہے تھے۔ اور اس کی اطلاع نور جہاں کو کر دی گئی۔
یحیٰ خان کے دور حکومت میں اداکارہ ترانہ کے بارے میں ایک لطیفہ زبان زدِ عام تھا کہ ایک شام ایک عورت صدارتی محل میں پہنچی اور یہ کہہ کر اندر داخل ہونے کا مطالبہ کیا کہ ‘میں اداکارہ ترانہ ہوں ، سیکورٹی گارڈز نے جواب دیا کہ تم کیا ہو ہمیں پرواہ نہیں ہے ہر کسی کو اندر جانے کے لئے پاس کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاتون مصر رہیں اور اےڈی سی سے بات کرنے کا مطالبہ کیا جس نے اداکارہ کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ اداکارہ جب دو گھنٹے بعد واپس لوٹی تو گارڈ نے اداکارہ کو سیلیوٹ کیا۔ اداکارہ نے روئیے کی تبدیلی کی وجہ پوچھی تو گارڈنے جواب دیا۔ پہلے آپ صرف ترانہ تھیں اب آپ قومی ترانہ بن گئی ہیں۔
جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے اکسٹھ برس تک ایک مطمئن اور خوشحال زندگی بسر کی وہ اپنے راولپنڈی میں ہارلے سٹریٹ پر موجود اسی گھر میں قیام پذیر رہے جو کہ سٹینڈرڈ بینک کے فنڈز سے تعمیر کیا گیاتھا۔ اور ان کو بطور سابق صدر اور آرمی چیف کے پنشن اور دیگر مراعات حاصل رہیں۔ اور دس اگست 1980 کو وہ جب وفات پا گئے تو ان کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
کنجر خانہ، ڈنگر خانہ اور لنگر خانہ
(یحیٰی خان کا دورِ حکومت پاکستان کا سیاہ ترین دور تھا جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا ور پاکستان کا ایوانِ صدر عملی طور پر کنجر خانہ بنا ہوا تھا۔اُس دور کی اندر کی کہانی سنیں سابق آئی جی پنجاب سردار محمد چوہدری کی زبانی)
یحیٰی خان پر لے درجے کا شرابی اور عورتوں کا رسیا تھا۔ اس کی سیکورٹی کا انچارج کرنل بھی ہم جنس پرست تھا، البتہ صدر کے ملڑی سیکرٹری میجر جنرل اسحاق نہ صرف پکے نمازی بلکہ تہجد گذار تھے۔ اس کے علاوہ ایوانِ صدر مین دلال اور طوائفیں تھیں اور بعض کو اہم مرتبہ حاصل تھا۔ ان میں اقلیم اختر رانی، مسز کے این حسین اور لیلی مظفر سر فہرست تھیں۔ علاوہ ازیں وہاں بہت سی بدنام لیکن حسین و پر کشش عورتوں کا ہجوم تھا جو سارا دن تمباکو نوشی، شراب نوشی اور ناچنے کودنے میں مصروف رہتی تھیں۔
صدر ِ پاکستان یحیٰی خان سے قربت کی وجہ سے اقلیم اختر کو عرف ِ عام میں جنرل رانی کہا جاتا تھا۔ جب یحیٰی خان کو اقتدار سے نکال دیا گیا اور بھٹو نے اقتدارسنبھال لیا تو جنرل رانی کو بھی گجرات میں نظر بند کر دیا گیا۔پولیس نے کئی دن تک جنرل رانی سے تفتیش کی جس میں بڑے حیرت انگیز اور باعثِ شرم حقائق سے پردہ اُٹھایا۔جنرل رانی پولیس انسپکٹر رضا کی بیوی تھی اور گجرات سے تعلق رکھتی تھی۔ یحیٰی خان اور جنرل رانی کے مابین تعلق اُس وقت قائم ہوئے جب یحیٰی خان نے سیالکوٹ کے جنرل آفیسر کمانڈنگ کی حیثیت سے سی ایم ایچ کا دورہ کیا جہاں وہ زیرِ علاج تھی۔ ان کی دوستی میں جلد ہی بے تکلفی اور اعتماد بڑھ گیا۔ یحیٰی خان ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران اس وقت بھی ہیلی کاپٹر پر اس کے گھر جاتارہا جب وہ گجرات کے نزدیک چھمب سیکٹر کا انچارج تھا۔
ایک دن یحیٰی خان دادِ عیش دینے کی غرض سے اس کے پاس گیا تو وہ ایک دوسرے ڈی ایس پی مخدوم کے ساتھ رنگ رلیا منا رہی تھی۔ شراب کے نشے میں دھت مخدوم، یحیٰی خان کو دیکھ کر اس قدر مشتعل ہوا کہ سرکاری پستول سے جنرل رانی کے خفیہ اعضا پر گولیا ں برسا دیں۔ فائرنگ کی آواز سن کر یحیٰی خان ڈر گیا اور ہیلی کاپڑپر واپس بھاگ گیا۔ رانی نے مخدوم کے آئندہ غیظ و غضب سے بچنے کے لیئے اپنی نوخیز لڑکی اس کے عقد میں دے دی۔ مخدوم بعد ازاں عادی نشئی بن گیا اور انتہائی عبر انگیز انجام سے دوچار ہوا۔
اس زمانے میں پولیس کے سپاہی، ایوانِ صدر کو کنجر خانہ، جی ایچ کیو کو ڈنگر خانہ اور اپنی پولیس لائینز کو لنگر خانہ کہتے تھے۔
جنرل رانی کے پاس یحیٰی خان اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں بڑی معلومات تھیں، رانی کے بقول یحیٰی خان نے بہت پہلے سے اقتدار پر قبضے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ وہ فوج کے تقریباََ ہر اہم آدمی کو جانتی تھی اور جرنیلوں کی رنگ رلیوں، سمگلنگ، زراندوزی، اور دیگر کرتوتوں پر مبنی بہت سی کہانیوں سے واقف تھی۔ میجر خداداد کے ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لاہور بننے کے بعد جنرل رانی اور مذکورہ جنرل نے مارشل لاء کے نفاذ اور یحیٰی خان سے قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دولت جمع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ رفیق سہگل کو جو اُن دنوں سہگل گروپ آف انڈسٹریز کے سربراہ تھے، ایک سودے کی پیشکش کی گئی۔ اگلے دن سہگل نے فلیٹیز ہوٹل میں رانی سے ملاقات کی اور اسے دس لاکھ کے علاوہ نئی ٹیوٹا کار پیش کی۔ سہگل کے روانہ ہوتے ہی جنرل خداداد رانی کے کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے کار رانی کو دے دی اور رقم خود لے کر چمپت ہو گیا۔
رانی نے جرنیلوں، سیاستدانوں اور سینئر افسروں سے میل ملاپ کے نتیجہ میں بے پناہ دولت اکٹھی کر لی تھی۔ جنرل یحیٰی خان کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد گجرات کے ایک مشہور سیاستدان نے اُسے چھ ہزار روپے ماہوار الاؤنس دینا شروع کر دیا۔ شیخ محمد اکرم، ڈی آئی جی سپیشل برانچ کے بھی رانی کے ساتھ بڑے گہرے مراسم تھے۔ جب انہوں نے رپورٹ میں اپنا نام اور سرگرمیوں کی تفصیل پڑھی تو بڑے غضب ناک ہوئے۔
رانی نے بتایا کہ وہ ناگہانی طور پر رفیق سہگل کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھی۔ کیونکہ وہ انتہائی خوب صورت تھے۔ تاہم سہگل نے اس کی پیش قدمیوں کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ انہیں اس کی دلچسپ سزا بھگتنی پڑی۔ ایک دن پشاور کے گورنر ہاؤس میں ایک پارٹی کے دوران رانی نے یحیٰی خان سے شکایت کی کہ
: ”آغا جی رفیق سہگل میرے نال محبت نی کردا“
یحیٰی خان نے گورنر ہاؤس کے نگران کو طلب کر کے اُس سے پوچھا کہ ”جب ملکہ الزبتھ اپنے دورے کے دوران یہاں آئی تھیں تو کون سے کمرے میں سوئی تھیں؟“
نگران نے کمرہ کی نشاندہی کی۔ اس پر جنر ل یحیٰی خان نے جو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی تھا، رفیق سہگل کو حکم دیا:
”آج رات تم مارشل لاء احکام کے تحت اُسی کمرے میں رانی کے ساتھ سوؤ گے“
رفیق اِس حکم سے انکار کی جرات نہیں کر سکے۔
اس کے بعد یحیٰی خان رانی سے مخاطب ہوا۔
”موٹی تم اِس کے پیچھے جاؤا۔خدا حافظ“
رانی رفیق کے پیچھے روانہ ہوگئی اور دونوں کے داخل ہو جانے کے بعد کمرے کو باہر سے تالا لگا دیا گیا۔۔۔
رانی نے پوچھ گچھ کرنے والوں کو بتایا کہ ایک بار کراچی میں قیام کے دوران شاہِ ایران کو روانہ ہونے میں خاصی تاخیر ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یحیٰی خان گورنر ہاؤس میں اپنی آرامگاہ سے باہر نہیں آرہا تھا۔ پروٹوکول کے حوالے سے بڑا سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا لیکن کوئی بھی صدر کی خواب گاہ میں داخل ہونے کی جرات نہیں کر رہا تھا۔ آخر کار ملٹر سیکر ٹری جنرل اسحاق نے رانی سے درخواست کی کہ وہ اندر جائے اور صدر کو باہر لائے۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو ملک کی ایک مشہور ترین گلوکار،(نور جہاں) کو صدر کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے پایا۔ گو رانی کو اس منظر سے بڑی کرہت محسوس ہوئی۔ اس نے کپڑے پہننے میں صدر کی مدد کی اور اُسے باہرلائی۔
رانی نے بتایا کہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے ایک رات وہ یحیٰی خان کے پہلو میں تھی تو مجیب الرحمان کمرے میں آگیا۔ اُس کے جانے کے بعد رانی نے یحیٰی خان کو کہا کہ اِ س شخص کو ملنے سے ایوب خان ناراض ہو سکتا ہے۔تو یحیٰی خان نے کہا ”فکر نہ کرو موٹی، ایوب خان ختم ہوچکا۔ اب تم حکومت کر و گی۔ لیکن کسی سے ذکر نہ کرنا، یہ ایک خفیہ معاملہ ہے“
رانی نے مزید بتایا کہ 1960ء میں روالپنڈی کلب کی ایک محفل میں اُس کی ملاقات بھٹو سے ہوئی، جہاں اُس کا کزن تجمل حسین بھی موجود تھا۔ بعد میں وہ پارٹی فلشمین ہوٹل منتقل ہو گئی جہاں بھٹو اور تجمل حسین میں اِس بات پر لڑائی ہوئی کہ رانی نے بھٹو کو لفٹ کیوں کرائی۔ رانی نے کہا کہ بھٹو نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا تھا لیکن تجمل نے سارا کھیل خراب کر دیا۔ رانی کے بقول بھٹو بعد میں اس کی بھابھی کو ترجیح دینے لگا اور رانی کو رقابت کی آگ میں جلنے کے لیے چھوڑ دیا۔
بعد میں حمود رحمان کمیشن نے جب یحیٰی خان سے جنرل رانی کی بابت سوال کیا تو اُس نے کہا:
”میں رانی کے خاندان کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب میرے ولد آغا سعادت علی کی بطور ایس پی گجرات پوسٹنگ ہوئی۔ یہ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے۔ رانی میری بہن کی طرح ہے۔“
جنرل رانی ہماری حکومتی تاریخ کا ایک ضخیم لیکن رنگین باب تھی۔ اس کے سینے میں کئی رازہائے سربستہ دفن تھے۔ وہ واحد’’ دلیر عورت‘‘ تھی جو یہ بتا سکتی تھی کہ کس کس دور میں اس کی کون کون سی ’’معاصر‘‘ ہم جولیوں نے ایوان ہائے اقتدار میں شراب و شباب کی محافل آراستہ کرنے کی ذمہ داری لے رکھی تھی۔ وائے افسوس ! یہ راز اُن کے پیوند خاک ہوتے ہی رزقِ خاک بن گئے۔ ان’’ جگردار‘‘ اور ’’چٹخارے دار‘‘ خواتین کو جنرل نیازی ’’خوشبودار دیوداسیاں ‘‘کہا کرتے تھے۔ ان دیو داسیوں نے اس معاشرے اور مملکت میں ’’پنج تارا ادا فروشی اور حیا فروشی‘‘ کو متعارف کروایا۔ جنرل رانی ’’پنج تارا ادا فروشی ‘‘کی بانیوں میں سے ایک تھیں۔۔۔ جنرل یحییٰ خان کے عہد اقتدار میں رانی کا چرچا ہوا۔ ’’راجہ رانی‘‘ کی رنگ رلیوں اور چونچلوں کی ہوش ربا داستانیں یحییٰ خان کے ایوان اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد منظر عام پر آئیں۔ رانی اور یحییٰ خان کے مابین گل و بلبل اور شمع و پروانہ کا سا تلازماتی تعلق تھا۔ یحییٰ خان ’بوجوہ‘ ان پر جان چھڑکتے تھے، اس دور کی بیورو کریسی اور سیاست کے کئی دیگر جرنیل بھی اقلیم اختر عرف جنرل رانی کی چشمِ سرمگیں سے شرابِ التفات کشید کرتے رہے۔ جنرل رانی کی رقابت اگر کسی سے تھی تو وہ ملکہ ترنم نور جہاں تھیں۔ اب یہ ایک کھلا راز ہے کہ یحییٰ خان کی محافل شبینہ میں نور جہاں بھی ساقی گری کے فرائض بحسن و خوبی ادا کرتی رہیں۔
بھٹو دور میں جنرل رانی نے اپنے ڈیرے شارع قائداعظم پر واقع انٹر کانٹی نینٹل کے ایک ’’سوئیٹ‘‘ میں آباد کر رکھے تھے۔ وقت کے حکمران ان کے آستانے پر جبینِ نیاز لے کر حاضر ہوتے اور اپنے ’’شرارتی من‘‘ کی مرادیں پاتے۔ کھر گورنر بنے تو اس قسم کی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں کہ جنرل رانی کی ’’جلوہ گاہِ جمال و وصال‘‘ سازشوں کا گڑھ بن رہی ہے۔ نیلے آسمان کی بوڑھی آنکھوں نے اس طاقتور عورت کی دہلیز پر جانے وقت کے کتنے اعلیٰ افسران کو ناصیہ فرسائی کرتے دیکھا۔ آسمان نے رنگ بدلا، حالات نے پلٹا کھایا، لیل و نہار کی گردش نے کروٹ لی اور پنجاب پولیس حرکت میں آئی۔ ایک شب جنرل رانی کو بمع ساز و سامان’’ سازش گاہ‘‘ سے حفاظتی حراست میں لیکر کوتوالی تھانے پہنچادیا گیا۔ کوتوالی تھانے کی حوالات میں بیسویں صدی کے جہانگیر کی یہ نور جہاں’’ مزارِ بے کسی بنی’’ دیدۂ عبرت نگاہ ‘‘کو دعوت غور و فکر دے رہی تھی۔ اخباری نمائندوں کو اطلاع ملی تو ہر کوئی بھاگم بھاگ کوتوالی پہنچا۔ تھانہ کا وسیع و عریض احاطہ رپورٹرز اور فوٹو گرافرز کی فوجِ ظفر موج کے سامنے تنگ دامانی کا شکوہ کرنے لگا۔ بارسوخ اخباری نمائندوں کو موصوفہ تک پہنچنے کی خصوصی اجازت دی گئی۔ وہ تصویرِ بے بسی بنی سرجھکائے ہر سوال سنتی رہی لیکن کسی بھی سوال کا معقول جواب دینا اس نے مناسب نہ جانا۔ صحافی چٹکی بھرتے، یحییٰ خان کے حوالے سے یادوں کو ساز دینے کی استدعا کرتے لیکن جنرل رانی کا تو حال وہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ بعداز خرابی بسیار اس کے ہونٹ پھڑپھڑائے اور اس نے کپکپاتے لہجے میں جواب دیا’’بس نقشہ بگڑ گیا‘‘ سمندر کی پاتال اور آسمان کی پہنائیوں سے خبر ڈھونڈ نکالنے والے کھوجی رپورٹر بصد حسرت و مراد ناکام لوٹے۔ وہ یہ نہ جان سکے کہ کونسا نقشہ بگڑ گیا۔ اس رات یہ کھوجی کوئی بڑی خبر حاصل کرنے میں ناکام رہے۔۔۔
کھر دور میں جنرل رانی مفرور اشتہاری ملزموں کی طرح جابجا چھپتی پھرتی رہی۔ اگلے وقت کے مہربانوں کے دروازے در توبہ کی طرح بند ہو چکے تھے۔ نیا ایوانِ اقتدار ان کیلئے شجر ممنوعہ تھا۔ نیا زمانہ تھا، ساز اور راگ بدل چکے تھے۔ جنرل رانی کوزندگی میں پہلی بار اس قسم کے ناخوشگوار حالات کا سامنا کرناپڑا۔ وہ اپنے آشناؤں سے رابطہ کرتی، ہر ایک کی منت سماجت کرتی، جائے اماں اور دارالاماں فراہم کرنے کی’’ بنتی ‘‘کرتی لیکن نئے دور میں حکمرانوں کے عتاب سے بچنے کیلئے ہمہ نوعی بیورو کریسی کے اسفندیار اور افراسیاب بھی اپنی اس چہیتی سے آنکھیں چرانے لگے۔ وہ روایتی طوطے کی طرح صاف آنکھیں پھیر چکے تھے۔
کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو اور قریہ بہ قریہ خا ک چھاننے کے بعد اسے یہ معلوم ہوا کہ پورے پاکستان میں اگر کوئی ایک شخص اسے پناہ دے سکتا ہے تو وہ لاہور کا ایک صحافی ہے۔ ایک رات اُس عظیم صحافی کے گھر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ صحافی کی بیگم نے ٹیلی فون کا ریسیور اٹھایا۔ دوسری جانب خوفزدہ لہجے میں ایک خاتون موجود تھیں۔ کہنے لگیں:’’ بیگم صاحبہ! مجھے پناہ چاہئے، میں ایک مظلوم خاتون ہوں، مجھے زمانے نے دھتکار دیا ہے، کل تک میری چوکھٹ بڑی بڑی نامور پیشانیوں کی سجدہ گاہ تھی اور آج میں جس بھی دروازے پر جاتی ہوں مجھے کھوٹے سکے کی طرح لوٹا دیا جاتا ہے‘‘ نامور صحافی کی بیگم نے کہا :’’آپ جانتی ہیں کہ آپ نے کس کے گھر فون کیا ہے؟‘‘ رانی نے بتایا کہ ’میں نے آپ کے شوہر آغا شورش کاشمیری کی جگرداری اوربہادری کی داستانیں سن رکھی ہیں، مجھے میرے ملنے والوں نے بتایا ہے کہ وہ مظلوموں کا ساتھ دینے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے‘۔ بیگم صاحبہ نے کہا :’’آغا صاحب اس وقت آرام کر رہے ہیں، وہ جب سو رہے ہوں تو ہم میں سے کوئی بھی یہ جرأت نہیں پاتا کہ انہیں جگا سکے۔ وہ جب لکھنے میں مصروف ہوں یا آرام کر رہے ہوں تو کسی قسم کی مداخلت اور خلل برداشت نہیں کرتے‘‘۔۔۔ ایک دو گھنٹے گزرنے کے بعد فون کی گھنٹی دوبارہ بجی، دوسری جانب بولنے والی خاتون نے یہ اعلان کیا کہ میں انتہائی مجبور ہوں اور میرے پاس بجز اس کے کوئی اور چارہ نہیں رہاکہ میں بنفس نفیس آپ کے دولت کدے پر حاضر ہو جاؤں۔۔۔چند گھنٹے گزرنے کے بعد رات کے پچھلے پہر جنرل رانی آغا شورش کاشمیری کے گھر کے دروازے کے باہر موجود تھیں۔ آغا صاحب کو بامر مجبوری نیند سے جگایا گیا، وہ باہر آئے اور پرسشِ احوال کی۔
جنرل رانی نے حکومتی مظالم کی ایک طولانی دستان سنائی اوراس کے بعد پناہ کی طلب گار ہوئی۔ آغا صاحب نے کہا کہ میں تمہیں تادیر اپنے ہاں پناہ نہیں دے سکتا۔ یہ سننا تھا کہ جنرل رانی نے ایک ضخیم البم آغا صاحب کو پیش کی اور کہا کہ’ اس البم میں پاکستان کے سول و ملٹری بیورو کریٹوں، سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کی زندگی کے مخفی گوشے تصویری زبان میں حقیقتِ حال بیان کر رہے ہیں‘۔
آغا صاحب نے جنرل رانی کو اپنے ہاں ایک رات ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ یہ رات جنرل رانی نے آغا شورش کاشمیری کے گھر کے عقب میں بھینس کیلئے بنے ایک چھپر کے نیچے گزاری۔۔۔ پنج تارا ہوٹلوں، صدارتی محلوں اور وزارتی ایوانوں کے مخملیں اور گداز بستروں پر راتیں بسر کرنے کی عادی خاتون کیلئے یہ رات یقیناً قیامت کی رات تھی۔ صبح ہوتے ہی وہ چل دی۔ آغا صاحب نے اس کے دیئے ہوئے’’تحفہ‘‘ کو اس کی آنکھوں کے سامنے نذرِ آتش کر دیا۔ کہا ’’اقتدار سے محروم ہونے والے لوگوں کے عیب اچھالنا بزدلوں کا کام ہے،
آج تم یہ تصویریں اٹھائے پھر رہی ہو، کل تم ان لوگوں کے نگارخانہ عیش کی رونق ہوگی‘‘آغا صاحب نے جو کچھ کہا وہ سچ ثابت ہوا۔ بھٹو حکومت سے جنرل رانی کی’’ خفیہ ڈیل‘‘ ہو گئی۔ جنرل رانی بھی زیرِ زمیں چلی گئیں اور اس کے بارے میں اچھالی جانے والی رنگین داستانوں پر بھی پردہ ڈال دیا گیا۔
خواجہ ناظم الدین، لیاقت علی خان، چودھری محمد علی،محمد خان جونیجو اور جنرل ضیاء الحق کے سوا پاکستان کے اکثر حکمران کسی نہ کسی جنرل رانی کے زیر اثر رہے۔ ہر دور کسی نہ کسی جنرل رانی اور اس کی ’’بٹالین‘‘ کی حکمرانی کا دور ہے۔ جنرل رانی مر چکی مگر وہ مطمئن ہے کہ اس کی روح زندہ ہے۔ وہ مطمئن ہے کہ اس کے بعد بھی اقتدار کے ایوانوں میں کسی نہ کسی جنرل رانی کے قہقہوں اور چہچہوں پر دل و جان نثار کرنے والے رنگیلے یحییٰ خان موجود رہیں گے۔ جنرل رانی صرف ایک نام نہیں، وہ صرف ایک عورت نہیں بلکہ وہ ایک استعارہ اور ادارہ تھی۔ یہ ادارہ اب ناقابل تسخیر حد تک مستحکم ہو چکا ہے۔ جنرل رانی نے مقتدر طبقات کے ایوانوں کو ہرنیوں، تتلیوں،بلبلوں اور میناؤں سے سجانیکا فن متعارف کروایا تھا۔ یہ فن اب بالغ ہو چکا ہے۔ جنرل رانی کل بھی ایوان اقتدر پر قابض تھیں اور اس کی تربیت یافتہ کئی دیگر ’’کاریگر اور فنکار رانیاں‘‘ آج بھی ایوان ہائے اقتدار کی ’’انٹریئر ڈیکوریشن‘‘ میں مصروف ہیں۔۔۔ ایک تقریر کے دوران سقوط مشرقی پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے مرشد آغا شورش کاشمیریؒ نے کہا تھا کہ ’اس کے ذمہ داران ان گنت ہیں لیکن ان میں انگور کا پانی اور جنرل رانی نمایاں ہیں‘۔