جنرل اسد درانی سے ملاقات کا قصہ
یہ 2015 کی بات ہے ، مَیں اسلام آباد میں تھا ۔ ایک دن کسی کا فون آیا ، مَیں نے کال لی تو ایک بوڑھے آدمی کی آواز سنائی دی ، آپ علی اکبر ناطق ہیں ؟ مَیں کہا جی ہاں وہی ہوں ، فرمایے ، اُس نے کہا ،مَیں جنرل اسد درانی بول رہا ہوں ۔ آپ کا ناول نولکھی کوٹھی پڑھا ہے ، مجھے بے حد پسند آیا ، مَیں خود بھی بچپن میں فیروز پور کی تحصیل جلال آباد رہا ہوں ۔ آپ کے ناول نے مجھے بچپن میں لے جا پھینکا ۔ اور بہت متاثر کیا ۔ کیا آپ سے ملاقات ہو سکتی ہے ۔ اب جیسا کہ ایک لوئر مڈل کلاسکے شاعر کو آپے سے باہر ہو جانا چاہیے تھا ،مَیں بھی خوشی سے ڈھول ہو گیا کہ اتنا بڑا جرنیل مجھ سے ملاقات کر رہا ہے ۔ مَیں نے نہایت عاجزانہ بلکہ بلڈی سِوَل یانہ پوچھا ،جنرل صاحب آپ کہاں ہوتے ہیں ؟ اُس نے کہا آجکل ڈی ایچ اے لاہور میں ہوتا ہوں ۔ صدر کینٹ میں بھی رہائش رکھتا ہوں ۔ مَیں نے کہا ابھی تو مَیں اسلام آباد ہوں ،جب لاہور آوں گا تو آپ سے ملاقات ہو جائے گی ۔ یا اگر آپ اسلام آباد آئیں تو فون کر لیجیے گا ، تب مل لیں گے ۔ کچھ دنوں بعد مَیں لاہور آیا ،تو جنرل صاحب کو فون کیا ،کہ صاحب ،مَیں لاہور میں فلاں جگہ پر ہوں ۔ اگر ناول کا اثر باقی ہے تو ملاقات کر لیتے ہیں ۔ جنرل صاحب نے کہا ، مَیں آپ کو ایڈریس بھیجتا ہوں ، اِس پتے پر آ جایئے ۔ مَیں نے کہا حضور میرے پاس سواری نہیں ہے ۔ آپ خود ہی کچھ ہمت کیجیے ۔ جواب آیا ، ایسا ہے کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور میرا ڈرائیور موجود نہیں ہے ۔ ورنہ گاڑی بھیج دیتا ۔ آپ رکشہ لے کر آ جایئے ۔ مَیں نے کہا ! وآپسی کیا کروں گا ؟ بولے وہ بھی اللہ بندو بست کر دے گا ۔ مَیں نے کہا ! جنرل صاحب ایسا کرتے ہیں ، اِس ملاقات کو بھی اللہ پر چھوڑتے ہیں ۔ انشا اللہ ہماری ملاقات آپ کے جنازے پر ہو گی ۔ اُس وقت تک شاید میرے پاس اپنی گاڑی آ جائے ۔ یہ کہہ کر مَیں نے فون بند کر دیا کہ ملنے کی خواہش آپ کو تھی یا مجھے ؟ ۔
تب پتا چلا ، جرنیلوں سے ملاقاتیں اپنے ہی خرچے پر کرنا پڑتی ہیں ، اور یہ خرچہ وہی کرے جن کی آف شور کمپنیاں ہوں ۔ سُنا ہے اب خود جنرل صاحب کی 28 مئی کو اپنے ہی جنرلوں سے ملاقاتیں ہیں ۔ اللہ خیر کرے ۔ اور یہ بھی سُنا ہے وہاں جانے کے لیے اُن کے پاس گاڑی بھی ہو گی، ڈرائیور بھی ہو گا اور وہ خود بھی باہوش و حواس ہوں گے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔