نکاح کے وقت نکاح خوان کے سوال “قبول ہے” کے جواب میں دلہن کا اقرار انفارمیشن کی ایک بِٹ ہے۔ (یہ صرف ہاں یا نہیں ہو سکتا تھا)۔ لیکن اس ایک بِٹ کے اپنے نیچے بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ مستقبل سے خوبصورت امیدیں، ماضی کے کچھ خوشگوار لمحے، خوف یا جبر، بزرگوں کی عزت کا مان یا کچھ بھی اور۔ انفارمیشن کی ایک بِٹ کے نیچے جو کچھ ہے، وہ اس انفارمیشن کے نیچے دبی گہرائی ہے۔
کسی چیز کی سطح پر جو نظر آ رہا ہے، وہ ایک چیز ہے، جو فوری طور پر نظر نہیں آ رہا، وہ گہرائی ہے۔ جھیل میں پانی کی سطح کے نیچے اس کی گہرائی ہے۔ مٹی کے نیچے قسم قسم کی زندگی اس کی گہرائی ہے۔ ایک سادہ سی کہی بات کے پیچھے پائی جانے والی منطق کی شاندار لڑی اس بات کی گہرائی ہے۔
فزیکل دنیا میں گہرائی اور اس کی وجہ آسان ہے جو گریویٹی ہے۔ گریویٹی کی وجہ سے چیزوں کی تہیں بنتی ہیں۔ ہر چیز اوپر نہیں رہ سکتی۔ اس لئے جتنا کھودتے جائیں، نیچے سے کچھ اور نکلتا آئے گا۔
پچھلے پچیس سال میں گہرائی جس طرح کمپلیکسیٹٰی (پیچیدگی) کی سائنس ابھر رہی ہے، گہرائی خاص مطلب لیتی جا رہی ہے۔ پیچیدگی کی خاصیت کیا ہے؟ کرسٹل جیسے ترتیب میں لگی چیز پیچیدہ نہیں، سادہ ہے۔ ایک کچرے کا ڈھیر پیچیدہ ہے۔ کیونکہ اس کو بیان کرنا آسان نہیں، اس میں بہت سی انفارمیشن ہے۔ بے ترتیبی میں انفارمیشن زیادہ ہے اور تریب میں کم۔ تمام دلچسپ چیزیں ان دو انتہاوٗں کے بیچ میں ہوتی ہیں۔ زندگی، سوچ اور مکالمہ بھی، جہاں پر انفارمیشن اور ترتیب کا توازن ہو۔ کونسی چیز دلچسپ یا پیچہدہ ہے، اس کا تعلق صرف اس انفارمیشن سے نہیں جو موجود ہے بلکہ اس سے ہے جو اس چیز کے بننے کے پیچھے تھا۔ کسی آبجیکٹ کی تاریخ اس آبجیکٹ سے زیادہ اہم ہے، اگر ہم اس میں سے اپنی دلچسپی کی چیز ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔
ہمیں جو چیز متوجہ کرتی ہے وہ انفارمیشن کی سطح نہیں بلکہ اس انفارمیشن کی گہرائی ہے۔ کسی بھی چیز کو ہماری آنکھ کے سامنے آتے بہت کچھ لگا۔ گہرائی اس کے بارے میں ہے۔
اس تصویر کو کئی طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ تھرموڈائنامک گہرائی جو وہ فزیکل انفارمیشن ہے جو کسی چیز کے پیچھے ہے۔ کمپیوٹیشکل گہرائی یا لوجیکل گہرائی جو کسی آخری پراڈکٹ کے پیچھے کے پراسس کے بارے میں ہیں۔
لیبیا کے صحرا کی ریت میں سے ہمیں آبی جانور کے خول ملتے ہیں۔ اس معلومات کے پیچھے سے ہم ڈھونڈتے ہیں کہ یہ کبھی سمندر کے نیچے تھا۔ زمین ماضی میں کیسے تھی۔ اس سمندر میں رہتا کون تھا۔ یہ خول یہاں تک پہنچا کیسے۔ اس صحرا میں ہمیں نقش و نگار ملتے ہیں۔ اس سے ہم جان لیتے ہیں کہ سمندر ہٹ جانے کے بعد یہ جگہ بھی کبھی رہنے کے قابل تھی اور آباد تھی۔ تمام آثار کو ملا کر ہم اس صحرا کی وقت میں گہرائی میں غوطہ لگا کر اس کی ٹائم لائن بنا لیتے ہیں۔ خول یا نقش و نگار خود میں دلچسپ انفارمیشن کانٹینٹ نہیں۔
انسانی رابطوں میں بھی یہ تصور اہم ہے۔ ہم ایک دوسرے کو اپنی زبان سے اور اپنی باڈی لینگوئج سے سگنل کرتے رہتے ہیں۔ ۱۸۹۹ میں سوشیالوجسٹ تھورسٹین وبلن نے نمود و نمائش پر تھیوری پیش کی۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ آپ بہت امیر ہیں، طریقہ یہ ہے کہ آپ دولت اس طرح ضائع کرتے ہیں کہ دوسروں کو نظر آئے۔ اگر ضائع کرنے کا یہ طریقہ بالکل بے وقوفانہ ہو تو اور اچھا۔ کیونکہ صرف بہت امیر لوگ ہی ایسا کر سکتے ہیں، اگر کسی نے سونے سے بنی گھڑی پہنی ہے تو یہ وقت تو اچھا نہیں بتا رہی لیکن دولت کا یہ بے وقوفانہ استعمال یہ گہرائی رکھتا ہے کہ اس کو پہننے والا دوسروں کو یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ اس کے پاس ضائع کرنے کو بہت دولت ہے۔ یہ اس گھڑی کے پیچھے کا مہنگا سگنل ہے۔
کسی گہری بات، گہری ایبسٹریکشن کا بھی یہی مطلب ہے۔ انفارمیشن کو مختصر اور مختلف طریقے سے بتانے کا مطلب یہ ہے کہ جو انفارمیشن سامنے ہے، اس کو ہضم کر کے اس کے نیچے بھی ابھی انفارمیشن پائی جاتی ہے۔ ہم اس گہرائی کو پسند کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو نہ تجریدی آرٹ ہوتا، نہ ادب و شاعری۔ بغیر گہرائی کی باتوں سے ہم کئی بار جلد اُکتا جاتے ہیں۔
انٹلکچوئل زندگی ہماری سطحی اور گہری چیزوں کو الگ کرنے کی صلاحیت ہے۔ کونسی چیز گہری ہے اس کا اندازہ لگا کر ہم جھیل کے گہرے پانی میں غوطہ لگا سکتے ہیں۔
جس طرح دلہن کی “ہاں” کے پیچھے وجہ ڈھونڈنے میں کچھ لوگ وقت صرف کرتے ہیں، تمام سائنس ہمارا ایسا ہی سفر ہے۔ ہمارے کوگنیٹو اوزاروں کا اہم ترین ہتھیار ہماری گہرائی کو جاننے کی کوشش ہے۔ اس میں غوطہ لگانے کا جو بھی طریقہ جیسے بھی مل جائے۔ کئی بار دوسروں کے منع کرنے کے باوجود باز نہیں آتے۔ دنیا کو جاننے کے موتی ہم نے ایسے ہی نکالے ہیں۔ کسی ایک طریقے سے نہیں اور دوسروں کے منع کرنے اور ناراض ہونے کے باوجود۔