گیت میرے گوریلے ہیں
فلسطین کی وہ شاعر بیٹی جو کنیڈا یورپ اور مشرق وسطی کی اسٹیجوں پر ایک ساز کی تار کی طرح بجتی اور لرزتی ہے۔ جو ایک مجاہد عورت کی طرح میک اپ نہیں کرتی۔ جس کے بال لمبے نہیں۔ جس کے ہاتھ پتلے ہیں۔ جس کی کلائیوں میں کنگن نہیں کھنکتے۔ جس کے کانوں میں جھمکے نہیں جھومتے۔ وہ عورت جو پیدائشی آرٹسٹ ہونے کے باوجود کسی طرح سے مصنوعی نہیں لگتی۔ اور جو ہے بھی نہیں!!
وہ جو اپنے دل میں دفن ہونے والے غصے کو اشعار کا روپ دیتی ہے اور وہ اشعار اس طرح پڑھتی ہے جس طرح وہ دشمن پر حملہ کر رہی ہو۔ جس طرح وہ اپنے بھائیوں اور بچوں کا حوصلہ بڑھا رہی ہو۔ جس طرح وہ ایک نئی دنیا دکھا رہی ہو۔ وہ دنیا جو ناممکن ہوتے ہوئے بھی اس شاعرہ کی آنکھوں سے دیکھو تو ممکن لگتی ہے۔ وہ شاعرہ اس دنیا کو اپنے سخن میں سجاتی ہے۔ وہ شاعرہ جو پہلے عربی میں سوچتی اور محسوس کرتی ہے اور پھر اپنے احساسات کا ترجمہ انگریزی میں کرتی ہے۔
جی ہاں! آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا۔ میں فلسطین کی شاعرہ رفیف زیادہ کی بات کر رہا ہوں۔ وہ رفیف زیادہ جو اس بیروت میں پیدا ہوئی جس بیروت کو عرب شاعروں نے شوق سے اپنے نظموں میں سجایا اور جن نظموں کو فیروز نے اپنے جادوئی صداؤں میں سمایا اور انہیں نغموں کی صورت گایا۔
دیوانوں اور دانشوروں کا بیروت!
عاشقوں اور آرٹسٹوں کا بیروت!
رقاصوں اور موسیقاروں کا بیروت!
ناول نگاروں اور شاعروں کا بیروت!
صحافیوں اور سیاستدانوں کا بیروت!
جی ہاں! ہم اس بیروت کی بات کر رہے ہیں جس میں سب سے زیادہ توجہ کے ساتھ دیکھا جاتاہے ان مصوروں کو جو روٹھے ہوئے رنگوں کو مناتے ہوئے رونے لگتے ہیں!!
بیروت جہاں صرف فٹ بال اسٹیڈیم اور بیلے ڈانس کے اسٹیج ہی نہیں بلکہ وہ بہت سی بالکونیاں بھی ہیں جہاں دل جیسے گملوں میں جذبوں جیسے پھول کھلائے جاتے ہیں!!
بیروت جو ایک شہر بھی ہے اور ایک ملک بھی ہے۔
بیروت جو ایک سیارہ بھی ہے اور ایک ستارہ بھی ہے۔
بیروت جو ایک سولر سسٹم ہے۔ ایک گیلکسی ہے۔ایک شبنم کا قطرہ ہے۔
بیروت جو ایک خواب اور ایک حقیقت کے درمیاں نیند میں مسکراتے ہوئے ہونٹوں کی خاموش گفتگو ہے۔
بیروت جہاں پیدا ہونے والے ایک ناکام زندگی اور ایک کامیاب موت کے درمیاں جیتے ہیں۔
بیروت جو عرب دنیا میں خوابوں کا جذیرہ ہے۔
اس بیروت میں پیدا ہوئی تھی رفیف زیادہ!
وہ رفیف زیادہ جس کے سانسوں میں فلسطین ایک کبھی لوبان کی طرح سلگتا ہے او کبھی جنگل کی آگ کی طرح دہکتا ہے ۔
وہ رفیف زیادہ جس کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا بہت کٹھن ہوتا ہے کہ یہ خاتون لکھ رہی ہے یا لڑ رہی ہے؟
وہ رفیف زیادہ جس کے پاس کنیڈا کی شہریت بھی ہے مگر وہ اپنی جڑوں کو فراموش نہیں کرپائی۔
ہر ذہین مرد سے زیادہ اپنے وطن سے محبت کرنے والی وہ عورت جو بہت دور چلی جاتی ہے مگر بار بار لوٹ آتی ہے صرف یہ اعتراف کرنے کے لیے وہ کہ فلسطین کے بغیر سکون سے سو نہیں پاتی۔ اس کی شخصیت ایک عرب عورت کا غصہ ہے اور اس کی شاعری اس غصے کے بہت سارے شیڈش!!
اس لیے تو وہ اب تک عالمی کانفرنسوں میں آتی ہے اور مورچوں سے باہر نکل کر لڑنے والے گوریلوں کی طرح اپنے کندھوں پر اپنے بال لہراتے ہوئے اور اپنی انگلیوں کو ٹیڑھا میڑا کرتے ہوئے اپنے غصے کو اظہار کا مکمل راستہ فراہم کرتے ہوئے اپنے دوستوں کے معرفت پوری دنیا کو بتاتی ہے کہ:
’’اس سے قبل کہ وہ میری زباں پر بھی قبضہ کرلیں
مجھے عربی میں بات کرنے دو!
مجھے میری مادری زباں میں بات کرنے دو
اس سے قبل کہ وہ اس کی یاد کو بھی نوآبادی بنادیں!
میں ایک عرب رنگ کی عورت ہوں
اور ہم پر غصے کے سارے رنگ اترتے ہیں!
میرے دادا نے ہمیشہ یہ چاہا کہ وہ صبح صادق کوبیدار ہو
اورمیری دادی کو دیکھے عبادت کرتے ہوئے
اس گاؤں میں جو جیفا اور اور حیفا میں درمیاں چھپا ہوا تھا۔
میری ماں نے زیتون کے درخت تلے جنم لیا تھا
اس دھرتی پر جس کے لیے کہاجاتا ہے کہ وہ اب میری نہیں رہی!
لیکن میں ساری رکاوٹیں؛ سب چیک پوسٹیں اور نسلی عصبیت کی ساری دیواریں
عبور کرکے اپنے وطن کی طرف لوٹ آؤں گی۔
میں ایک عرب رنگ کی عورت ہوں
اور ہم پر غصے کے سارے رنگ اترتے ہیں!
کیا کل تم نے میری بہن کی چیخیں سنیں
جب اس نے چیک پوائنٹ پر بچے کو جنم دیا۔
اورا سرائیلی سپاہی اس کے ٹانگوں کے درمیاں
اپنے نئے آبادیاتی خطرے کو دیکھ رہے تھے!!
اس نے اپنی بچی کا نام جینن رکھا۔
اور تم نے آمنہ مونا کواس وقت اپنی سلاخوں کے پیچھے چیختے سنا؟
جب انہوں نے قیدخانے کو آنسو گیس بھردیا!
ہم لوٹ رہے ہیں فلسطین کی طرف
میں ایک عرب رنگ کی عورت ہوں
اور ہم پر غصے کے سارے رنگ اترتے ہیں
تم کہتے ہو کہ میری کوکھ میں
تمہارے لیے نیا دہشتگرد ہے!
داڑھی والا؛ بندوق لہراتا ہوا؛ مفلر لپیٹے ہوئے صحرائی حبشی
تم کہتے ہو کہ میں اپنے بچوں کو مرجانے کے لیے جنم دیتی ہوں
یہ تمہارے کاپٹرز؛ تمہارے ایف سولہ
اور ہمارا آسمان!
اور آؤ !تھوڑی دیر دہشت گردی کی بزنس کے بارے میں بات کریں
کیا یہ سی آئی اے نہیں جس آلندی اور لومومبا کو قتل کیا؟
پہلے یہ تو بتاؤ کہ اسامہ کو کس نے تربیت دی؟
میرے آباؤ اجداد مسخروں کی طرح دوڑتے نظر نہیں آتے تھے
وہ سروں پرسفید ٹوپیاں اور کلاہ پہن پر سیاہ فام لوگوں پر تشدد نہیں کرتے تھے
میں ایک عرب رنگ والی عورت ہوں
اور مجھ پر غصے کے سارے رنگ اترتے ہیں
وہ بھورے رنگ والی عورت کون ہے
جو مظاہرے میں چیخ رہی تھی
معاف کیجئے! کیا مجھے چیخنا نہیں چاہئیے؟
میں تمہارا مشرقی خواب بننا بھول گئی ہوں
بوتل کا جن؛ بیلے ڈانسر؛ حرم کی لونڈی؛
دھیمے لہجے میں بات کرنے والی عرب عورت
’’جی آقا۔۔ جی نہیں آقا‘‘
اپنے ایف سولہ جہاز سے مونگ پھلی؛ مکھن اور سینڈ وچ کی بارش کرنے کا شکریہ!
ہاں! مجھے آزادی دلانے والے یہاں ہیں
میرے بچوں کو قتل کرکے اسے ’’کولیٹرل ڈیمیج‘‘ کا نام دینے والے
میں ایک عرب رنگ کی عورت ہوں
اور ہم پر غصے کے سب رنگ اترتے ہیں
مجھے صرف اتنا بتانے دو میں تمہارے لیے نیا باغی لا رہی ہوں
اس کے ایک ہاتھ میں پتھر ہوگا
اور دوسرے ہاتھ میں فلسطین کا پرچم
میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں ایک عرب عورت ہوں
اور میرے غصے سے خبردار
میرے غصے سے خبردار
میرے غصے سے خبردار!!!!
اعجاز منگی
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔