نیا موسم نئے پتوں میں نئے رنگ بھرتا ہے۔ میرؔ نے کہا تھا کہ نخلِ دار پر منصور کے سر ہی کا پھل لگتا ہے۔ لیکن سیاست وہ باغ ہے جس میں نخلِ دار ہمیشہ ویران رہتا ہے۔ ایثار ایسا پھول ہے جو اس باغ میں کم ہی کھلتا ہے۔ سیاست دان وہ پرندے ہیں جو ڈاروں کی صورت میں اس درخت کا رخ کرتے ہیں جس کی ٹہنیوں پر بوردکھائی دے۔ ڈار کے ڈار اور ریوڑ کے ریوڑ مسلم لیگ نون کا رخ کررہے ہیں۔ کیا صالحین اور کیا صالحات اور کیا پرویز مشرف کی باقیات‘ تمام مرغانِ بادنما ایک ہی سمت کی نشان دہی کررہے ہیں۔ انگریزوں نے ان اصحاب کے لیے ’’ٹرن کوٹ‘‘ کا لفظ ایجاد کیا ہے۔ غالباً اس سے مراد یہ ہے کہ جب ضرورت پڑے کوٹ کو اُلٹا کر، دوسری طرف سے پہن لو۔
عام طورپر ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہونے والوں کے لیے ذہن میں مثبت جذبات نہیں پیدا ہوتے۔ خبرسننے یا پڑھنے والا زیرِلب انہیں برا بھلا کہتا ہے یا دل میں ان پر اخلاقی پستی کا الزام لگاتا ہے لیکن نہ جانے کیوں، کم ازکم اس کالم نگار کے دل میں، نبیل گبول کے لیے منفی جذبات بیدار نہ ہوسکے۔ اس نے تین دن قبل پیپلزپارٹی کے ساتھ اڑھائی عشروں کی رفاقت کو خیرباد کہہ کر ایم کیوایم میں شمولیت اختیار کی ہے۔ چار پانچ ہفتے پہلے کی بات ہے کہ اس نے مسلم لیگ نون کا رخ کیا تھا۔ بیانات سے یہ پتہ چلتا تھا کہ وہ نون لیگ میں شامل ہورہا ہے۔ اس نے نوازشریف کے ساتھ اپنے مضبوط خاندانی روابط کا ذکر کیا اور میاں صاحب کی جمہوریت کے لیے خدمات کی تعریف کی۔ لیکن اونٹ آخر کار ایم کیوایم کی کروٹ بیٹھا۔
اگر گبول صاحب اردو بولنے والے ہوتے اور ایم کیو ایم میں شامل ہوتے تو یہ ایک بالکل عام سی خبر ہوتی۔ اگر وہ نون لیگ میں آتے جب بھی کوئی نمایاں خبر نہ بنتی لیکن ایک نان اردو سپیکنگ سیاستدان کا، خاص طورپر جب وہ گبول جیسا معروف سیاست دان ہو، ایم کیوایم میں شامل ہونا اہم خبر ہے اور ایک مثبت تبدیلی بھی۔
بلوچ قبیلے سے تعلق رکھنے والے نبیل گبول کے دادااللہ بخش گبول سندھ اسمبلی کے پہلے ڈپٹی سپیکرتھے۔ وہ دوبار کراچی کے میئر بھی رہے۔ ایم کیوایم پر، مجموعی طورپر ، ایک مخصوص لسانی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ جب اس پارٹی نے اپنا نام مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ بدلا تو اس کا ارادہ تو یہی تھا کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہو، لیکن حالات کی ستم ظریفی کہ وہ سالہا سال گزرنے کے باوجود مہاجر تنظیم ہی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے دامن سے آج تک کوئی قابل ذکر نان اردو سپیکنگ لیڈر وابستہ نہ ہوسکا۔ اگر یہ کالم نگار غلطی نہیں کررہا تو گبول بڑے قد کاٹھ کا پہلا نان اردو سپیکنگ سیاست دان ہے جو اس جماعت میں شامل ہوا ہے۔ یہ ملکی سیاست کے لیے نیک فال ہے۔ خدا کرے ایم کیوایم بھی اس اہم پیشرفت سے کوئی تعمیری فائدہ اٹھا سکے۔
ایم کیوایم کے سینے پر دوایسے تمغے سجے ہیں جو قابل رشک نہیں ہیں۔ ایک یہ الزام کہ وہ پاکستان کے جنوبی شہروں میں طاقت کا بے محابا استعمال کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ایم کیوایم نے ہمیشہ اس سلسلے میں تردید کی ہے لیکن زبان خلق اگر نقارہ خدا ہے تو یہ تردید کارآمد کبھی ثابت نہیں ہوئی۔ الطاف حسین کا لندن میں مستقل قیام دوسرا تمغہ ہے جوایم کیوایم چھپانے کی کوشش کرتی ہے لیکن سینے پر لگا تمغہ کب چھپتا ہے۔ اس میں مجبوریاں تو ہیں مگر ایم کیوایم کبھی بھی اس پہلو سے قائل کرنے والا دفاع نہیں کرسکی!اگر پرویز مشرف ایم کیوایم میں شامل ہوئے تو یہ ایک تیسرا ناقابل دفاع داغ ہوگا ۔
ان تمام حقیقتوں کے باوجود، گبول صاحب کا مسلم لیگ نون کے بجائے ایم کیوایم میں شامل ہونا دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ جنوبی پاکستان میں، جہاں سے گبول صاحب کا تعلق ہے، ایم کیوایم کی پوزیشن مسلم لیگ نون سے بدرجہا مضبوط تر ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ کراچی میں مسلم لیگ نون کا وجود برائے نام ہے اور محض برائے وزن بہت ہے۔ اس کے برعکس ایم کیوایم وہاں ایک بہت بڑی سٹیک ہولڈر ہے اور اگر زور اور زرکا حصہ ایک طرف بھی رکھ دیا جائے، تو اس کے باوجود ووٹروں کی اکثریت اسی کے ساتھ ہے۔ ایم کیوایم کو یہ کریڈٹ بہرطور دینا پڑتا ہے کہ اس نے مڈل کلاس کو اوپر آنے دیا۔ اگرچہ اس کے مڈل کلاس کے کچھ ’’ورکر‘‘ آج اپر کلاس میں شامل ہوچکے ہیں، تاہم فیوڈل لعنت سے یہ جماعت ابھی تک بچی ہوئی ہے۔
اس کے مقابلے میں مسلم لیگ نون آج تک پنجاب کے شہرِ لاہور اور لاہور کی ایک مخصوص کمیونٹی سے باہر نہیں نکل سکی۔ کہنے کو اس میں مشاہداللہ خان، اقبال ظفر جھگڑا، غوث علی شاہ اور چودھری نثار علی خان بھی شامل ہیں لیکن ہرشخص جانتا ہے کہ کورگروپ میں صرف وہ افراد ہیں جو یا تو میاں برادران کے اپنے خاندان سے ہیں یا ایک مخصوص علاقے یا ایک مخصوص نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسحاق ڈار ، عابد شیر علی ، حمزہ شہباز ، مریم شہباز ، کیپٹن صفدر کے علاوہ بھی کئی رشتہ دار طاقت ور پوزیشنیں سنبھالے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میاں برادران ذہنی طورپر آج تک اتنے بالغ نہیں ہوئے کہ لاہور سے اور ایک مخصوص کمیونٹی سے باہر نکل سکیں۔ اگرچہ پرویز مشرف میاں نوازشریف کی پہلی محبت تھی لیکن دوسری محبت ایک مخصوص برادری سے تعلق رکھتی تھی یہ الگ بات کہ دوسری محبت کا شگوفہ کھل کر پھول نہ بن سکا۔ بقول ظفراقبال ؎
دل نے خود پہلی محبت کو سبوتاژ کیا
دوسری کے لیے اور دوسری ہے بھی کہ نہیں
اکتوبر 1999ء کے قومی اخبارات میاں صاحب کی گروہی وابستگی سے بھرے پڑے ہیں، کئی خبریں انتہائی نمایاں طورپر چھپیں۔ ایک حساس ادارے میں انہوں نے تیس افراد بھرتی کیے جن میں سے اٹھائیس کا تعلق ایک خاص علاقے یا کمیونٹی سے تھا۔ بیورو کریسی میں چالیس سے زیادہ کلیدی مناصب پر یہی حال تھا۔ آج بھی بڑے میاں صاحب کا دست راست نوکرشاہی کا وہی پرزہ ہے جو اقتدار کے عروج پر ان کا کرتا دھرتا تھا اور جس کا تعلق ان کے شہر سے ہے۔ یہی حال ان باقی ریٹائرڈ حضرات کا ہے جو ان سے وابستہ ہیں۔ الغرض اس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ مسلم لیگ نون عملی طورپر ایک شہر اور ایک کمیونٹی کی زنبیل میں بند ہے۔ اس کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ برادر خورد کی وزارت اعلیٰ کے پورے زمانے میں، ہمائے اقتدار کا سایہ ایک شہرہی پررہا۔ اس ضمن میں ناقابل تردید اعدادوشمار کئی سیاست دانوں اور کالم نگاروں نے بارہا پیش کیے ہیں !
اس پس منظر میں گبول صاحب کا نون لیگ میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ صائب نظرآتا ہے۔ وہ اگر شامل ہوتے تو ان کی حیثیت ایک اور ذوالفقار کھوسہ یا ایک اور مہتاب عباسی سے زیادہ نہ ہوتی۔ گبول صاحب کی ایم کیوایم میں شمولیت قومی نکتہ نظر سے ایک مثبت اور حوصلہ افزا پیشرفت ہے۔ اگر اس قد کاٹھ کے چند اور سیاست دان دوسرے صوبوں اور دوسری لسانی اکائیوں سے بھی ایم کیوایم میں شامل ہوجائیں تو ایم کیوایم ملک کے لیے زیادہ قیمتی اثاثہ ثابت ہوسکتی ہے!