رابرٹ فسک معروف کالم نگار ہے جو اکثر و بیشتر اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں لکھتا ہے اور بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ’’حماس‘‘ اسرائیل کے بچھائے ہوئے جال میں آ گیا ہے۔ اسرائیل نے مشہور حماس کمانڈر احمد جباری کو اس کی کار میں شہید کر دیا۔ جباری ’’القساّم بریگیڈ‘‘ کا کمانڈر تھا۔ اس کے بعد حماس نے راکٹوں سے جواب دیا جس سے اسرائیل نے بمباری کا جواز تلاش کر لیا۔
لیکن لگتا ہے رابرٹ فسک کو مغالطہ ہوا۔ اسرائیل نے جب احمد جباری پر حملہ کیا تو اس کے بعد حماس کے جواب کا انتظار نہیں کیا بلکہ اس کے فوراً بعد بیس ہوائی حملے کیے جس میں کئی شہری شہید ہو گئے۔ ان میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔
جب شہریوں کی ہلاکت کا ذکر کیا جاتا ہے اور اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کی مذمت کی جاتی ہے تو مغربی میڈیا یہ نکتہ ضرور اٹھاتا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی فوجوں نے ہزاروں مسلمان شہریوں کو شہید کیا ہے۔ حلب کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔ پاکستان میں مسلمان خود کش حملہ آوروں نے لاتعداد بچوں، عورتوں اور بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے لیکن مسلمان ان پر احتجاج نہیں کرتے۔ اس نکتے پر ہم مسلمانوں کے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں لیکن اس ساری بحث کے باوجود اسرائیل کی خون آشامی کا کوئی جواز نہیں۔
یہاں دو پہلو ایسے ہیں جن پر ہم مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے۔ اول… اسرائیل کا موقف کیا ہے؟ یہ بھی تو ہمارے علم میں ہونا چاہیے! اسرائیل کا موقف یہ ہے کہ غزہ کی پٹی سے حماس کے فوجی دستے جنوبی اسرائیل پر ایک طویل عرصہ سے راکٹ داغ رہے ہیں جس سے اسرائیل کے فوجیوں کے ساتھ ساتھ شہری بھی ہلاک ہوتے رہے ہیں۔ یہ تقریباً وہی صورتحال ہے جو ایک عشرہ قبل مقبوضہ کشمیر میں تھی۔ گوریلے بھارتی فوج کے خلاف کارروائی کرتے تھے۔ جواب میں بھارتی فوج پوری بستی جلا دیتی تھی!
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قبیل کی جدوجہد میں سول آبادی کی حفاظت کس قدر ضروری ہے؟ اس ضمن میں دو مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ جدوجہد میں سول اور ملٹری کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔ جب دشمن کے سویلین ہلاک ہوں گے تو ہمارے شہری بھی ہلاک ہونے کے لیے تیار رہیں۔ دوسرا مکتب فکر یہ ہے کہ جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے۔ سب سے قیمتی متاع مسلمانوں کی جان ہے۔ ایک ایک بچے ایک ایک عورت اور ایک ایک بوڑھے کی حفاظت‘ آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کا فرض ہے۔ جن کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی جا رہی ہے، وہی موت کے گھاٹ اترتے رہیں تو یہ تو دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے والی بات ہوئی۔ اگر جنگی نکتہ نظر سے ہم کمزور ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ بمبار جہازوں کے مقابلے میں چند راکٹ کچھ حیثیت نہیں رکھتے تو جدوجہد کو قانونی جنگ میں تبدیل کر دینا چاہیے۔ قائداعظمؒ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے طویل جدوجہد کی۔ اس طرح کہ برطانوی حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا۔ بہرطور اس نکتہ نظر سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کا بالعموم، اور عرب ممالک کا بالخصوص کیا کردار ہے؟ کیا وہ فلسطینیوں کی حمایت کر رہے ہیں؟ اس کا جواب حالیہ تاریخ سے واقف لوگوں کے لیے مشکل نہیں ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ عرب ملکوں کا کردار ناقابل اعتبار اور دوغلا رہا ہے۔ خفیہ تعلقات اسرائیل سے تقریباً سب نے رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ مراکش کے بادشاہ کے باڈی گارڈ اسرائیل میں تربیت پاتے رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق جب بریگیڈیئر تھے تو اردن میں فلسطینیوں کو ’’سبق‘‘ سکھانے پر حکومت اردن کی طرف سے مامور کیے گئے تھے۔ یہ ’’سبق‘‘ انہوں نے کامیابی سے سکھایا۔ قطر اور بحرین میں امریکی فوجیں تعینات ہیں۔ عراق پر حملے یہیں سے ہوتے تھے۔ کویت اپنی بقا کے لیے امریکہ کا شکر گزار ہے کہ صدام کے خونی پنجے سے امریکہ ہی نے اسے چھڑایا تھا۔ سعودی عرب میں امریکی افواج موجود ہیں۔ اسامہ بن لادن کا سعودی حکومت سے جھگڑا ہی اسی وجہ سے ہوا تھا۔ اسامہ کا مطالبہ تھا کہ امریکی افواج کو مقدس سرزمین سے نکال باہر کر دیا جائے۔ عراق پالیسی بنانے میں خود مختار ہی نہیں۔ شام شکست و ریخت سے دوچار ہے اور وہاں مسلمان مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ لیبیا ابھی ابھی لہو کی نہر سے گزرا ہے اور اس حال ہی میں نہیں کہ اِدھر اُدھر دیکھے۔ رہے غیر عرب مسلمان… تو ایران اور عرب شدید اختلافات کا شکار ہیں۔
شام ہی کے معاملے کو لے لیجیے۔ ایران بشار الاسد کا حامی ہے اور عربوں کی اکثریت باغیوں کے ساتھ ہے۔ پاکستان افغانستان میں امریکہ کا (سرکاری سطح پر) طرف دار ہے جب کہ پاکستانی عوام دوسری طرف ہیں۔ یوں بھی پاکستان کے اندر عدم استحکام کا دور دورہ ہے۔ کراچی اور بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور پاکستانی افواج جس طرح وزیرستان میں الجھی ہوئی ہیں، اس پس منظر میں پاکستان فلسطین کے لیے کیا کر سکتا ہے؟ رہ گیا ترکی… تو ترکی کی موجودہ حکومت اسرائیل کے خلاف عربوں کے ساتھ ہے لیکن عملی طور پر کیا کرے گی؟ اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے!
اس سارے مسئلے کو اب ایک اور زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ ان دنوں عرب سپرنگ (عرب بہار) کی اصطلاح سننے میں بہت آ رہی ہے۔ اس سے مراد عرب دنیا میں وہ تبدیلی ہے جو تیونس سے شروع ہوئی اور لیبیا سے ہوتی ہوئی مصر میں رونما ہوئی اور اب شام اس سے گزر رہا ہے۔ دو دن پہلے کی خبر ہے کہ اردن میں بھی بادشاہ کے خلاف احتجاجی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ عرب ملکوں کے حکمران عزت سے اقتدار نہیں چھوڑتے۔ قذافی، زین العابدین اور حسنی مبارک عبرت کی دردناک مثالیں ہیں۔ بشار الاسد اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل کو دیکھیے۔ باقاعدگی سے الیکشن ہوتے ہیں۔ سب کچھ پارلیمنٹ کے اختیار میں ہے، تین چار سال سے زیادہ کوئی وزیراعظم کرسی سے چمٹتا نہیں دکھائی دیتا۔ ایک نظام ہے جو ہموار طریقے سے اپنے راستے پر چل رہا ہے۔ ’’اسرائیل بہار‘‘ کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔ اس میں شک نہیں کہ امریکہ اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اسرائیل، اس کے جواب میں، امریکہ کا دست بستہ غلام نہیں ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اسرائیل نے امریکہ کے ’’احکام‘‘ ماننے سے انکار کر دیا۔
تاریخ بہت ظالم ہے۔ جو کچھ اس کے صفحات پر رقم ہو جاتا ہے، مٹ نہیں سکتا۔ اسرائیل کا پودا عربوں نے خود لگایا تھا تاکہ ترکوں کی ’’غلامی‘‘ سے ’’نجات‘‘ پا سکیں۔ اردن کے شاہ حسین کے دادا نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ ’’نجات‘‘ بہت مہنگی پڑی۔ یہ بھی تاریخ کا عجوبہ ہے کہ آج وہی ترکی عربوں کا سب سے بڑا حامی ہے۔
دلّدر بہت سے ہیں! مسلمان ممالک تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، جمہوریت… ہر شے میں پیچھے ہیں۔ بھارت ہو یا اسرائیل، مسلمانوں ممالک سے کوسوں آگے ہیں۔ احتجاج کمزوروں کا ہتھیار ہے۔ طاقت ور طاقت استعمال کرتا ہے ؎
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات