ہنددؤں کا عقیدہ ہے کہ گائے کے بدن میں دیوتا جمع ہوتے ہیں اور اس کی پوجا کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے سونے کے سینگ بنوا کر اس کو سینگوں پر رکھتے ہیں اور چاندی کے کم بنوا کر اس کے پیروں میں رکھتے تھے، ایک چاندی کا پترا بنوا کر اس کی پیٹھ پر رکھتے تھے پھر اس پر جھولیں ڈال کر اس کی پوجا کی جاتی ہے اور پھر یہ برہمن کو دان کردی جاتی تھی،
ہندو گائے کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور اس کے گوبر اور پیشاب کو پاک کرنے والا مانتے ہیں۔ یہ پنچ گپ یعنی گائے کا گوبر، پیشاب، دودھ، دہی اور گھی سے بنا کو ان کے نذدیک اس سے زیادہ پاک چیز کوئی نہیں ہے۔ ان کے بھگت ہر روز پنج گؤ پیتے ہیں، برہمن اگر ویش کا کھانا کھالے تو اس کے تذارک کے لیے گاتری منتر پڑھتے ہیں اور اس دن سوائے گائے کے پیشاب کے کچھ اور کھاتے پیتے ہیں۔ برہمن اگر چنڈال کے تالاب کا پانی پی لے یا اس میں غسل کرلے تو کفارے کے لیے گائے کا گوبر کھاتے ہیں اور اس کا موت پیتے ہیں۔ اگر کوئی ہندو بھول کر کسی غیر قوم کے برتن میں کچھ کھا پی لے تو اس کو کئی دن برت رکھوا کر پنج گؤ پلاتے ہیں۔ گائے کے قدموں کی ارتی خاک ان کے نذدیک نہایت پاک ہے اور اسے گودھوی کہتے۔ یہ کسی ملیچھ کے کھر میں کھانا پینا درست نہیں سمجھتے ہیں۔ لیکن جس گھر میں گائے ہو وہاں گائے کے پاس کھانا پینا جائز ہے۔ یہ گائے کی اتنی تعظیم کرتے ہیں۔ لیکن جب مرنے لگتی ہے تو گھر سے نکال دیتے ہیں۔ جب مرجاتی ہے تو چوہرے چماروں کے حوالے کر دیتے ہیں جو اسے سر بازار گھسیٹ کر لے جاتے ہیں اور کا گوشت کھالتے ہیں۔ اس کے چمڑے کی جوتیاں بنا کر سب پہنتے ہیں۔
بھارت میں انگریزوں کے دور میں بہت سے ہندوؤں نے ان فضلات سے اجتناب کرنا شروع کر دیا تھا۔ مگر اب دوبارہ یہ وبا چل نکلا ہے۔ جب بچے کو گھٹی کے دور پر گائے کے فضلہ چٹائیں گے تو وہ اس کا پیشاب شوق سے کیوں نہیں پیئے گا۔ آج شہروں میں جہاں گائے کے پیشاب حاصل کرنے کے لیے مشکلات پیش آتی ہیں۔ وہاں اب گائے کو پیشاب کو بوتلوں میں پیک کرکے عام دوگانوں پر فروخت ہو رہا۔ خیر ہندوؤں صرف گائے کا پیشاب استعمال نہیں کرتے ہیں بلکہ انسانی پیشاب بھی پیتے ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم ڈیسائی جی روزانہ انسانی پیشاب استعمال کرتے تھے اور وہ فخریہ اس کا ذکر کرتے تھے۔
حائضہ عورت چالیسویں دن کے بعد پاک ہونے کے لیے غسل کرنے کے بعد اپنے سر کو گائے کے گوبر اور پیشاب سے دھونے کے بعد گوبر کھائے اور پیشاب پیے تو پاک ہوتی ہے۔ عجیب بات یہ کسی ذات میں کوئی عورت بچہ جنتی ہے تو پوری قوم ناپاک ہوجاتی ہے۔ اس قوم کے لوگ بھی گائے کا موتر پی کر اور گوبر کھا پاک ہوتے ہیں۔ لیکن ہر ذات کی ناپاکی کی معیاد الگ الگ ہے۔ مثلاً برہمن گیارویں دن، یہ گائے کا موتر پینے اور گوبر کھانے کے علاوہ گنگا جل بھی پیتے ہیں۔ کھتری تیرھویں دن، ویش پندرہ دن اور نچلی جاتیاں تیسویں دن پاک ہوتے ہیں۔ اس طرح کوئی مرجائے تو بھی ساری قوم ناپاک ہوجاتی ہے۔ اس طرح اگر کسی چمار، چوہرے، حائضہ، گناہ کبیر کا مرتکب، مردہ کتا، گدھا، بلی، مرغا اور خوجہ وغیرہ کو چھولیں تو یہ کپڑوں سمیت ناپاک ہوجاتے ہیں اور پاک ہونے کے لیے کپڑوں سمیت نہاتے ہیں۔ شاشتروں کے مطابق یہ کھانے والی جگہ کو گوبر وغیرہ سے پاک ہونی چاہیے اور کھاتے ہوئے دھوتی کے سوائے تمام کپڑوں کو اتار کے کھانا چاہیے۔ اگر کھانا کھاتے ہوئے اس کا بھائی بھی کپڑوں سمیت آجائے تو کھانا ناپاک ہوجاتا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں میں بچے کی پیدائش خاص کر پہلے بچہ اور لڑکا ہوتو بڑے پیمانے پر خوشیاں مناتے ہیں اور دو رسوم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ان میں ایک خطنہ جسے عرف عام میں مسلمانی کہا جاتا ہے اور دوسری عقیقہ ہے۔ یہ خوشی منانے کا رواج ہندوؤں سے مسلمانوں میں آیا ہے یا اس کا رد عمل ہے۔ کیوں کہ ہندوؤں میں بھی دو رسمیں اہم ہیں بچہ اور پہلے بچہ اور لڑکا ہو تو بڑے پیمانے پر ان رسوم کو ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ خوشیاں مناتے ہیں۔ اس میں دعوتیں اور خیرات بھی کی جاتی ہے۔ ان میں پہلی رسم میں پنج گؤ کی ہے اور دوسری دوجنا کی جس بچے کو جینو پہنایا جاتا۔ یعنی ایک موٹا سا رھاگہ اس کو کمر اور دوسرے کندھے کے دوران پہنایا جاتا ہے۔ یہ ان کا دوسرا جنم کہلاتا ہے۔ اس لیے یہ دوجنا بھی کہلاتا ہے۔
پنج گؤ کی رسم بہت اہتمام سے ادا کی جاتی ہے۔ کہیں یہ رسم کانیتہر اور کہیں کارن کہلاتی ہے۔ پنج گو کی ترکیب اس طرح ہے کہ گائے کا گھی، گائے کا دہی، گائے کا دودھ، گائے کے پیشاب کے چند قطرے اور گائے کا تھوڑا سا گوبر۔ ان پانچوں چیزوں کو اچھی طرح مکس کرکے ایک کٹورے میں رکھ کر نومولود کو چٹایا جاتا ہے اور دوسرے افراد خاص کر عورتیں بھی چاٹتی ہیں۔ پنج گو ہر بچے کی پیدائش پر بعض قو،ہم اس کو زنار بندی اور شادی پر تیار کرکے چاٹتی ہیں۔ بعض قومیں اس کو تیار کرنا کافی سمجھتی ہیں اور اس کو استعمال نہیں کرتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس ہیں اس گندگی کے خلاف آوازیں نہیں اٹھیں۔ اس طرح پنڈت شیو نرائن نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور کشمیری پنڈت میں لکھتے ہیں کہ ہندوؤں کے بزرگوں نے ہندوستان کی ضروریات کے پیش نظر گائے کو بڑی عظمت دی ہے اور اس کو مذہب کا حصہ بنادیا ہے کہ گائے کی حفاظت ہوسکے اور اس کو کوئی ہندو ضائع نہ کرے۔ ہادیان مذہب نے گائے کو اس قدر مفید ہونے کی وجہ سے اسے انسان کی ماں کا درجہ دیا اور گو ماتا پکارنے لگے۔ رفتہ رفتہ اس کی اتنی قدر ہوئی کہ کہ اس کی تقریباًً پرستش ہونے لگی۔ گوؤ دان کو بڑا ثواب گنا گیا۔ جیسے والدین کی متبابعت اور عزت کی ہدایت ایسے الفاظوں میں کی گئی کہ ان کے پاؤں دھو کر پیوں، ان کے غلیظ فضالات کو بھی خوردنوش کرنا اپنی سعادت سمجو۔ ایسے الفاظ گائے لے لیے بھی عام ہوگئے اور کم عقل مقلدوں نے اس عبارت اس استعارہ کو نہ سمجھا۔ یہاں تک گائے کے فضلات بھی تبرک کی طرح استعمال ہونے لگے اور اس کی بدولت ہندوؤں میں کتنی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔