ناجانے اب تک کتنے جہاز بنے اور غرق بھی ہوئے لیکن تاریخ ہست و بود کا سب سے عظیم مسافر بردار بحری جہاز ٹائیٹینک (Titanic)تعجب خیز کہانی کا حامل ہے۔ اس جہاز کے تعمیر کی ابتداء 1908ء میں شمالی آئر لینڈ کے بحری جہازوں کے تعمیراتی مرکز بلفاسٹ میں ہوئی ۔یہ جہاز وائٹ اسٹار لائن کی ملکیت تھی ۔اس کا مختصر سا خاکہ یہ ہے کہ یہ تین منزلہ تھا جس میں سویمنگ پول ،ہوٹل،دوکانیں اور دیگر لوازمات زندگی موجود تھے ۔اس کی مساحت اتنی تھی کہ اس میں 3600افراد سفر کرسکتے تھے ۔ابتدائی تعمیر میں 32جان بچانے والی کشتیوں کی جگہ موجود تھی مگر بعد میں اسے بہت ہی محفوظ اور نہ ڈوبنے والاجہاز تصور کرتے ہوئے صرف 29کشتیوں کو ہی جگہ دی گئی ۔بعض حضرات کے مطابق اس میں مزید نکھار پیدا کر نے کے لئے کشتیوں کو کم کیاگیاتھا ۔اس کی لمبائی 883 فٹ تھی ۔پورا جہاز 25لاکھ ڈالر میں مکمل ہو اتھا ۔
10اپریل 1912ءکو یہ جہاز 2223مسافروں کوسوار کرکےبرطانیہ کی ساؤتھ ہمشائر بندر گا ہ سے نیو یار کی طرف روانہ ہوا۔اس کی رفتار 25میل فی گھنٹہ تھی ۔
جہاز نے اپنا سفر کا آغاز کیا۔سفر بڑاہی پر سکون لگا ۔مسافروں کے چہروں پر ہنسی اور خوشی کے آثار نمایاں تھے اور وہ بڑے ہی فخریہ انداز سے کہتےکہ آج ہم دنیا کے سب سےبڑے بحری جہاز پر سوار ہیں ۔اب وہ منظر بیان کرنے سے تو رہا چونکہ الفاظ میں احساسات کو ڈھالنا لوہے کے چنے چباناہے۔
سفر بڑے ہی اطمینان اور جہاز بھی بڑی ہی آمادگی کےساتھ محو سفر تھا ۔مسافر سمندر کی ٹھنڈی لہروں اور خنک مگر دل لبھادینے والی ہواؤں سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔دن کی بدلی ، رات کی چاندنی او ر آسمانی کہکشاؤں نے ان کی خوشیوں میں چار چاند لگا دئے تھے ۔ اس پر کیف ماحول اور قلب و دماغ کو سرور بخشنے والی فضا ءمیں لوگوں کی خوشی کے انتہاء نہ رہی ۔مسافرین مزے اڑا رہے تھے اور جہاز بھی اپنی منزل کی طر ف رواں دواں تھا ۔
۔۔۔3 روز بعد یعنی 14 اپریل کو جہا ز بحر اوقیانوس کے اس حصہ میں جا پہونچا جہاں درجہ حرارت صفر سے گر چکا تھا ۔ا س کڑکڑاتی ٹھندی شب میں وائرلس کے ذریعہ سمندر میں موجود بر فیلی چٹان کے بار ے میں اطلاع دی گئی ۔لیکن آپریٹر (منتظم )نے اس خبر کو نظر انداز کر دیا اور خبر رساں کی توبیخ بھی کی۔
۔۔۔مگر کیپٹن اسمتھ کو یہ خبرا س وقت موصو ل ہوئی جب جہاز اس بر فیلی چٹان کے انتہائی قریب پہونچ چکا تھا ۔اس لئے اس نے لوگوں کو خبر رسانی کے لئے آمادہ کیا اور کہاکہ اوپر سے نگاہ کرتے رہنا اور جیسے ہی کچھ نظر آئے فورا ًاطلاع رسانی کرنا۔اچانک 11:40شب میں ایک شخص کو کچھ دھندلا سا نظر آیا اور پھر شکوک کے بادل چھٹے اور حقیقت نگاہوں کے سامنے عیاں ہوگئی ۔کیپٹن اسمتھ نے جہاز کو بچانے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگادیا مگر جہا زکی سرعت اور فاصلہ کی کمی کے سبب وہ ناکام رہا اور جہاز برفیلی چٹان سے جا ٹکرایا ۔جس سے تقریبا تین سو فٹ کا شگاف پڑگیا اور سارا غرور ایک جھٹکے میں غرق ہوگیا۔
12:15شب میں کیپٹن اسمتھ نے بحری ریڈیو کی رسانی طلب کی اور یہ پیغام ارسال کر دیا ۔مدد!مدد !مدد!ٹائینک ڈوب رہاہے !!!جلدی مدد کوآئیں !
خواب خرگوش میں سوئے ہوئے مسافروں کو جگایا گیا۔اسی وقت کیلیفورنیا نامی جہاز اس سے صرف بیس میل کےفاصلہ پر سمند ر میں موجود تھا ۔لیکن ریڈیو بند ہونے اور ریڈیوآپریٹر کےسونے کےسبب وہ ا ن کی مدد رسانی کے پیغام کو موصول نہ کرسکے۔عین اسی عالم میں ایک جہاز نے اس کی امداد طلبی کو سنا لیکن فاصلہ کے زیادہ ہونے کےسبب اسے وہاں تک پہونچنے میں تین گھنٹہ لگ گیا ۔
مؤرخوں کےمطابق برفیلی چٹان سے باخبر کرنے والاجہاز بالکل اسی وقت اسی جگہ موجود تھا ۔لیکن اس نے صرف اس بناء پر اس کی مدد نہیں کی تھی چونکہ گزشتہ لمحات میں وہ اس سے بدتمیزی سے پیش آیا تھا۔
15اپریل کو 2:20شب میں جہاز مکمل طور سے جہاز کی عمیق آغوش میں سو چکا تھا ۔اس دردناک اور نصیحت آمیز واقعہ میں سینکڑوں مسافرین کی حیات کا سورج غروب ہوگیا ۔جن میں زیادہ تر بچے اور اور عورتیں تھیں ۔
المختصر!انسان کو ہمیشہ اس با ت کا ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ہم کیاتھااور ہمارا حشر کیا ہونے والا ہے اور اس بات کو کبھی بھی فراموش نہ کرے کہ ہم سے بھی طاقت ور کوئی ذات ہے جسے غرور تکبر بالکل نہیں پسند ہے ۔لہٰذا!ہمیں غرورو تکبر سے پنا ہ مانگنی چاہئے ۔چونکہ جب فرعون و نمرود اس کی گرفت سے نہ بچے تو ہم اورآپ کجا!؟
“