غرور کا سانپ
کل ڈرائیور کیساتھ گاڑی میں گھر آرہا تھا۔ مجھے لگا کہ سڑک پر اتنا رش کیوں ہے۔ یہ لوگ اتنے زیادہ کیوں ہیں۔ جاہل کے بچے ہیں اس گرمی میں بھی یوں فٹ پاتھوں اور سڑک پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ جھنجھلاہٹ تھی جو بڑھتی جارہی تھی۔ کار میں ایئر کنڈیشن ٹھنڈی ہوائیں پھینک رہا تھا۔ مگر اندر گرمی تھی کہ کسی صورت کم نہیں ہورہی تھی۔ باہر کی 43 سینٹی گریڈ کی گرمی میں میرا اندرونی غرور اسے پچاس سینٹی گریڈ بنانے پر تلا ہوا تھا۔ کہ اچانک امی کا فون اگیا۔ اس سے بھی سوکھے منہ بات کی۔
یا اللہ مجھے ہو کیا رہا ہے۔ کہ اندر میرے ہمزاد کی سرد آواز آئی کہ یہ تیری ناشکری ہے۔ تیرا غرور ہے۔۔۔۔۔۔ آواز سنتے ہی ڈرائیور سے کہا گاڑی رک۔ اس نے ہکا بکا ہوکر گاڑی کو بریک لگا دیئے۔ اور اسے کہا گھر پہنچ کر بیگم کو چابیاں دے دینا۔ یہ کہتے ہوئے میں سامنے سے آتی ہوئی بس میں سوار ہوگیا۔
چودہ سال بعد بس میں سوار ہوگیا۔ اندر کھڑا ہونے کی جگہ نہیں تھی لہذا خود کو جیسے تیسے ٹھونس کر اپنے آپ کو فکسڈ کروا لیا۔ ایک گھنٹے بعد جب اپنے منزل مقصود پر پہنچا تو میں خود کو پہچان نہیں پارہا تھا۔ اپنے پسینے سے زیادہ دوسروں کا پسینہ لگا ہوا تھا۔ مگر خوش تھا کہ آج میں نے پھر غرور کو شکست دے دی۔
بیگم پوچھنے لگی کہ ایسا کیوں کیا؟ جواب دیا کہ اندر ایک سنپولیا سر اٹھا رہا تھا اسے مارنا ضروری تھا۔ وہ والہانہ انداز میں آگے بڑھی اور بانہیں پھیلا دیں۔
پوچھا اس سنپولیے کو کیسے مارا؟ جواب دیا کہ تین کے پیچھے میں کھڑا تھا اور پیچھے سے تین لوگوں نے مجھے ٹکایا ہوا تھا۔ سنپولیا مر گیا۔ اور کل سے ہر کمنٹ کا بنفس نفیس جوابات بھی دے رہا ہوں
ابھی تک ناراض ہے۔
تو قارئین کرام اگر آپ لوگوں کو کھبی یہ غرور والا سانپ تنگ کرنے لگیں تو کراچی کے کسی منی بس مزدا میں چڑھ جائیے یا ہمارے ہاں بنوں تشریف لے آئیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مایوس نہیں ہونگے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“